2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

سخن فہمی ایک نعمت ہے

سعد الله شاہ
13-12-2018

آج تو لطف آ گیا۔ والد محترم آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے 92نیوز اٹھایا اور پڑھتے ہوئے دفعتاً بولے’’واہ بھئی کیا قطعہ لکھا ہے‘ ساتھ ہی ایک ہزار روپے کا مہکتا ہوا نوٹ میری طرف بڑھا دیا’’تمہارا انعام‘‘ گھر میں آئے مہمان بھی لطف اندوز ہوئے کہنے لگے کہ چوتھے مصرعے نے قطعہ میں جان ڈال دی ہے۔ میرے والد محترم خود حمدو نعت کہتے ہیں اور شعر بھی۔ وہ شعری شعور بھی اپنا سا رکھتے ہیں اور سیاسی شعور بھی۔ وہ نواز شریف کے دلدادہ ہیں ایک زمانے میں جب ایک پارٹی برسر پیکار آئی تو انہوں نے ایک طنزیہ ترانہ لکھا‘ اس میں یہ دو شعر بھی تھے: کوّے آ بیٹھے شاخوں پر بلبلیں اپنے گھر کو جائیں آئو ان کا ترانہ گائیں کائیں کائیں کائیں کائیں میں نے پارٹی کا نام قصداً نہیں لکھا۔ بہرحال انہوں نے مجھے ہزار روپے انعام دیا ۔ میرا خیال ہے کہ وہ قطعہ قندِ مکرر کے طور پر درج کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ تاریخی جائزہ تاریخی کام ہم نے کیا پہلی مرتبہ وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لیا سارے کے سارے جائزے میں پاس ہو گئے اور یہ اس سے پہلے یقینا نہیں ہوا مجھے یاد آیا کہ جب میں پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے انگریزی کر رہا تھا تب میں اردو میں مختلف نظمیں کہہ رہا تھا۔ ایک مرتبہ دادا حضور حبیب تلونڈوی لاہور تشریف لائے، وہ قادر الکلام شاعر تھے۔نواب آف بہاولپور کے ہاں بھی مشاعروں میں جاتے۔ حضرت احسان دانش نے اپنی خود نوشت’’جہان دگر‘‘ میں دادا جان پر ایک پیراگراف بھی درج کیا ہے ان کا نعتیہ قطعہ میں پہلے بھی درج کر چکا ہوں: ہر شعر مرا عشق نبیؐ کا ہے شرارا ہر نعت مری مسجد نبویؐ کی اذاں ہے میں نعت کا شاعر ہوں مجھے فخر ہے اس پر بازار سخن میں مری ہیروں کی دکاں ہے تو میں ذکر رہا تھا کہ دادا حضور تشریف لائے تو شاعری کے حوالے سے پوچھا کہ سنائو کیسی شاعری کر رہے ہو۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ایک دو نظمیں سنائیں تو ایک جگہ پہنچ کر ان کی آنکھوں میں چمک آ گئی اور ان مصرعوں کو دوبارہ سہ بارہ سنا۔ وہ نظم ’’پری کہانی‘‘ جس میں دادی جان کہانی سناتی ہیں جس میں ایک پری کا ذکر ہے جس کے بارے دادی جان کہتی ہیں اس کو دیکھ کے ہر اک راہی پتھر بن جاتا تھا۔ چند لائنیں یوں تھیں ؎ اس کو دیکھ کے ہر اک راہی بس پتھر کا ہو جاتا تھا صرف کہانی ہی تھی اگر یہ مجھ کو ایسا کیوں لگتا ہے سب کچھ سچا کیوں لگتا ہے کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے میں بھی بوجھل ہو کر خود اک پتھر بن جائوں گا دادا جان کہنے لگے ’’تم نے جو پتھر بننے کا پراسس بیان کیا ہے اس پر یہ بیس روپے تمہارا انعام ہے۔ ظاہر ہے یہ میرے لئے بڑا انعام تھا کہ گھر سے ایک گواہی ملی تھی اور وہ بھی قادر الکلام شاعر سے وگرنہ گھر والے کب مانتے ہیں۔ زندگی میں ایسے لمحے آتے ہیں جو سب کچھ خوشگوار بنا دیتے ہیں۔ میں نے جو سخن فہمی کی بات کی ہے یونہی نہیں کر دی سخن فہمی کے لئے علم کی بہتات بھی ضروری نہیں اس کے لئے موزوں طبع ہونا ضروری ہے۔ ایک مرتبہ میں ایک جگہ مہمان خصوصی تھا تو وہاں کے اردو شعبہ کے انچارج میزبان تھے۔ میں نے شعر پڑھا: منزلیں ان کا مقدر کہ طلب ان کو بے طلب لوگ تو منزل سے گزر جاتے ہیں ظاہر ہے میرا مطلب تو اس میں یہ ہے کہ طلب رکھنے والوں کو منزلیں مل جاتی بھی ہیں بے طلب لوگ ان منزلوں سے بے نیاز ہوتے ہیں منزلیں تو ان کی راہ میں پڑی رہ جاتی ہیں مگر ہمارے عالم فاضل پروفیسر اس کی تفہیم کچھ اس طرح کر سکے کہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہنے لگے بچو منزلیں انہی کو ملتی ہیں جو طلب رکھتے ہیں اور بے طلب لوگ منزل کے ادھر ادھر سے گزر جاتے ہیں یعنی منزل تو ان کو نظر ہی نہیں آتی۔ بعض اشعار بہت Deceptiveہوتے ہیں۔ بظاہر بہت سیدھے سادے ہوتے ہیں مگر ان کے اندر بہت گہرائی ہوتی ہے۔ بعض اشعار تو محسوس کرنے والے ہوتے ہیں بیان کریں ان کا حسن ختم ہو جاتا ہے۔ ہر ذہن تو ذہن رسا نہیں ہوتا اور دل بھی اثر قبول کرنے والا نہیں ہوتا۔ ایک مرتبہ خالد احمد نے کسی شاعر کو ایک کتاب تھما کر کہا کہ تم اسی میں سے دس اچھے شعر نکال دو تو ایک صد روپے انعام۔ شاعر نے 10شعر نکال دیے تو خالد احمد نے کہا یہ لو سو روپے انعام۔ یہ انعام اچھے شعروں کا نہیں تمہاری محنت کا ہے۔ غالب یاد آیا: ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں دیکھیں کہہ دے کوئی اس سہرے سے بڑھ کر سہرا سخن فہمی اللہ کی نعمت ہے۔ کہتے ہیں ایک مرتبہ میر بہت افسردہ بیٹھے تھے کسی نے آزردگی کا باعث پوچھا تو میر نے کہا’’آج مجھے اس شخص نے داد دی ہے جو سب کو داد دیتا ہے۔ اسی طرح صائب نے کہا تھا: صائب دو چیز می شکند قدر شعر را تحسین ناشناس و سکوت سخن شناس ’’یعنی دو چیزیں شعر کی قدر کو کم کر دیتی ہیں‘ اگر ناسمجھ آپ کی تعریف کر دے اور فن سے آشنا آپ کو سن کر خاموش ہو جائے‘‘ایک سخن فہمی فراز جیسی بھی تو ہے: اس نے نظر نظر ہی میں ایسے بھلے سخن کہے میں نے تو اس کے پائوں میں سارا کلام رکھ دیا اور آخر میں ایک نامعلوم شاعر کا شعر: کبھی کبھی تو وہ اتنی رسائی دیتا ہے وہ سوچتا ہے تو مجھ کو سنائی دیتا ہے