سنہرے دن
عبداللہ طارق سہیل
گڈ اولڈ ڈیز۔ کہتے ہیں ماضی کے سنہرے دن پلٹ کر نہیں آتے۔ لیکن جناب ‘ پاکستان پر تو کوئی خاص فضل ہوا کہ بیتے ہوئے سنہرے دن پلٹ آئے اور کچھ زیادہ ہی سنہرے پن کے ساتھ‘ گوٹا کناری سے لیس۔ ہر گھنٹے کے بعد لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ وقت کی پوری پابندی کے ساتھ۔ کوئی صاحب ٹی وی پر بتا رہے تھے کہ اس میں تبدیلی سرکار کی سنہری کارکردگی کے ساتھ ساتھ دھند کا بھی ہاتھ ہے یعنی دھند کی وجہ سے برقی رو متاثر ہوتی ہے۔ دھند تو ہر سال آتی ہے۔ پہلے تو ایسا نہیں ہوا۔ شاید اس بار کوئی نئی قسم کی آ گئی ہے جیسے کہ الیکٹرانک دھند‘ یا پھر اتنی ٹھنڈی ہے کہ برقی رو بھی ٹھٹھر کر رہ گئی ہے۔ ساتھ ہی گیس کا بحران بھی پیدا ہو گیا ہے اور باخبر لوگ کہتے ہیں کہ پیدا ہوا نہیں‘ پیدا کیا گیا ہے۔ بالکل تبدیلی والا معاملہ ہو گیا پھر تو۔ کہ تبدیلی بھی آئی نہیں تھی لائی گئی تھی۔ ایک صاحب نے تو پچھلے دنوں کتاب بھی لکھ دی کہ ’’تبدیلی لائی گئی‘‘گیس کا بحران حقیقی ہے کہ مصنوعی ؟ یہ سوال یوں بھی بنتا ہے کہ تبدیلی سرکار ماضی کے ادوار کے مصنوعی کاموں کے بخیے رات دن ادھیڑا کرتی ہے۔ پوچھیے کہ روپیہ پہلے اتنا سستا کیوں نہیں تھا‘ جواب ملتا ہے۔ مصنوعی بندوبست تھا۔ پوچھئے کہ مہنگائی اتنی کیوں بڑھ گئی تو جواب یہ ہوتا ہے کہ مصنوعی سستائی مسلط کی گئی تھی۔ کہا جائے کہ جرائم کی شرح جتنی اب ہو گئی ہے‘ پہلے تو پھر بھی کنٹرول میں تھے تو بھی یہ سننے کو ملتا ہے کہ جرائم بھی مصنوعی کنٹرول میں رکھے گئے تھے۔ ٭٭٭٭٭ اندھیرے میں بلب والا لائٹر جلایا تو ساتھ ہی ہاتھ اخبار پر پڑا۔ یونہی اٹھا لیا اور لائٹر کی روشنی ڈالی۔ روشنی کا دائرہ گھومتا ہوا سراج الحق‘ امیر جماعت اسلامی کے بیان پر آ کر ٹک گیا۔ موجودہ حکومت سے سخت مایوس تھے۔ کرپشن اور مہنگائی ‘دونوں سے نالاں تھے۔ مہنگائی کی بات تو ٹھیک لیکن کرپشن کہاں سے آ گئی۔ سال بھر کی بات ہے لیکن اچھی طرح وہ بیان یاد ہے جو محترم نے پانامہ کے دنوں میں دیا تھا۔ یاد اس لئے بھی ہے کہ اس پر کالم لکھا تھا۔ بیان تھا‘ نواز شریف کو سزا ہوتے ہی ملک سے کرپشن نیست و نابود ہو جائے گی۔ سراج الحق اللہ والے آدمی ہیں‘ ایسے آدمی کی زبان سے نکلی بات غلط ہو ہی نہیں سکتی۔ چنانچہ اس حساب سے کرپشن تو گزشتہ برس جولائی ہی میں نیست و نابود ہو گئی تھی جب نواز شریف کو سزائے دہ سالہ کا اعلان ہوا تھا۔ یعنی کرپشن کو ملک سے نیست و نابود ہوئے چھ ماہ پورے ہو گئے‘ اور تمام اللہ والوں سے بڑھ کر اللہ والے تو خود وزیر اعظم عمران خاں ہیں۔ انہوں نے فرمایا تھا‘ میرے حکومت میں آتے ہی کرپشن ختم ہو جائے گی کیونکہ اوپر میں بیٹھا ہوں گا تو نیچے کرپشن کیسے ہو گی۔ تو انہیں وزیر اعظم بنے ہوئے بھی پانچ ماہ ہو گئے۔ یعنی اس حساب سے بھی کرپشن کو نیست و نابود ہوئے پانچ ماہ گزر گئے۔ جملہ صادق و امین حضرات کے وزیر اعظم نے فرمایا تھا‘ ہر روز ملک میں ایک ہزار ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ میرے آتے ہی ختم ہو جائے گی۔ وہ بھی ختم ہو گئی۔ یعنی اب یہ رقم بچائی جا رہی ہے۔ مہینے میں 30ہزار ارب بچائے جا رہے ہیں‘ پانچ ماہ میں 150ہزار ارب روپے کی بچت تو لازماً ہو گئی ہو گی۔ پھر یہ جھوٹی کہانیاں کیوں پھیلائی جا رہی ہیں کہ بجٹ خسارہ بڑھ رہا ہے اور خزانہ خالی ہے؟ ٭٭٭٭٭ ماضی کی مشہور اسلام پسند ادیبہ امّ فاروق چند روز پہلے انتقال کر گئیں۔ ماضی کی ادیبہ اس لئے لکھا کہ کئی عشروں سے وہ ادبی سرگرمیاں چھوڑ کر طالبات کو دینی اور قرآنی علوم پڑھانے میں ہمہ وقت مصروف ہو گئی تھیں۔ 93سال کی عمر تھی اور مرض الموت کے آخری دنوں کو چھوڑ کر وہ ہر روز پڑھانے اکیڈمی آتیں‘ چل نہیں سکتی تھیں کسی کے سہارے آتیں لیکن ناغہ نہ کرتیں۔ آپ مشہور ادیب اسعد گیلانی کی بیوہ تھیں۔ جوانی کے دنوں میں دونوں میاں بیوی نے سرگودھا میں ادارہ ادب اسلامی قائم کیا۔ وہیں سیٹلائٹ ٹائون سے کتابیں چھاپتے۔ ایک بہت معیاری اور دلچسپ جریدہ ہفتہ وار ’’جہان نو‘‘ بھی نکالا لیکن ایوب خاں نے امریکی ایجنٹ قرار دے کر اس پر پابندی لگا دی۔ مرحومہ کی اولین کتاب’’چوکھٹ کے اندر‘‘ بہت مشہور ہوئی تھی۔ اس میں خواتین کے حوالے سے افسانے تھے۔ مرحومہ کے ایک ہی صاحبزادے تھے‘ سید فاروق گیلانی۔ چند برس پہلے انتقال کر گئے۔ ریلوے میں افسر تھے۔ سید اسعد گیلانی بہت پہلے وفات پا چکے تھے۔ خدا جنت میں جگہ عطا فرمائے۔ ٭٭٭٭٭ گزشتہ ہفتے قرآنی علوم کے ایک اور خادم کا انتقال ہو گیا۔ قادر خاں مفسر قرآن تھے اور صحیح معنوں میں فرزند توحید ۔وہ ان اصحاب خیر میں سے تھے جو اپنی لِلہ فی اللہ خدمات کو دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھتے ہیں۔ مرحوم نے قرآن پاک کی ہر قدیم اور جدید تفسیر پڑھ رکھی تھی اور علم تجوید کے ماہر تھے۔ اقبال نے کہا تھا‘ قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں۔ بظاہر بڑا سادہ مشورہ ہے لیکن اس بحر کی غواصی آساں نہیں۔ ہزاردرکے شہر عجائب کی کوچہ بکوچہ سیاحی ہے۔ قادر خاں نے عمر کا بڑا حصہ اسی میں لگایا۔تجوید ‘ ناظرہ اور تفسیر کے مدرسے بنائے۔ خود بھی تعلیم دی۔ اسلامی سنٹر بھی قائم کئے ۔بھارت کے علاوہ امارات میں بھی ان دنوں قرآن پاک کے 15زبانوں میں تراجم اور تفسیری حاشیوں پر کام کر رہے تھے۔دنیا انہیں اداکار قادر خاں کے نام سے جانتی ہے۔ فلموں میں ولن کے طور پر آئے‘ پھر مزاحیہ اداکار بن گئے۔ فلموں کا مصنف کوئی بھی ہو‘ اپنے مزاحیہ مکالمے خود ہی تخلیق کرتے تھے اور برموقع۔ مزاح میں عوامی پسند اور فہم کا خیال رکھتے تھے لیکن ہر فقرہ شائستہ اور شستہ۔ بھارتی فلمی صنعت میں پٹھانوں کا طوطی بولتاہے لیکن یہ پٹھان نسل درنسل بھارت میں آباد چلے آ رہے ہیں۔ پشتو بھی نہیں جانتے۔ ان کے برعکس قادر خاں نو وارد پٹھان تھے۔ کابل میں پیدا ہوئے اور ابتدائے عمر میں بھارت چلے گئے اور بہت جلد ہی اہل زبان کے لہجے پر قادر ہو گئے۔ وہ ایسے اداکار تھے جن کا ناظرین کو نشہ ہو جاتا ہے ان کے ایک ساتھی شکتی کپور تھے۔ ہر قسم کا بے ہودہ اور غیر بے ہودہ کردار ادا کیا۔ سنتے ہیں اب وہ بھی صوفی ہو گئے۔ خدا قادر خاں کی مغفرت کرے اور ان کے قرآنی مشن کو پورا کرنے کے لئے جانشین بہم فرمائے۔