سندھ :افسران کو’’ ویگو ‘‘دیں لیکن پنجاب والی لاقانونیت نہیں
خاور گھمن
پرویز الہیٰ نے اکتوبر 2022میں 93نئی گاڑیاں خریدیں جن میں ڈپٹی کمشنروں کیلئے 40فارچونر جبکہ اٖیڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو کیلئے 41 ڈبل کیبن 4x4ہائی لیکس اور باقی 12کرولا گاڑیاں بورڈ آف ریونیو کیلئے۔اگست 2023میں محسن نقوی کی نگران حکومت میں قریباً اڑھائی ارب روپے سے اسسٹنٹ کمشنرز کیلئے 145ڈبل کیبن 4x4ریوو جبکہ ایڈیشنل کمشنرز اور ایڈیشل ڈپٹی کمشنر کیلئے63 الٹس کرولا اورٹویوٹا یارس کی خریداری کی گئی۔گریڈ انیس تک کے معزز ججز کیلئے کلٹس اور خطرناک مجرموں کے خلاف فیصلے دینے والے گریڈ 22 کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کیلئے بھی کرولا گاڑی جبکہ ان کے مقابل گریڈ 16کا تحصیل دار بھی ویگو ڈالے میں فراٹے بھرتا ہے۔گزیٹڈ افسران کی حد تک ویگو ڈالے جسٹیفائیڈ تھے لیکن مال مفت دل بے رحم کی طرح 4x4 ویگو گاڑیاں گریڈ 16کے تحصیل داروں میں بھی بانٹ دی گئیں۔ پنجاب پولیس کے افسران کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے 5ارب 80کروڑ جاری کیے جس میں 44فارچونر اور300ہائی لیکس ڈبل کیبن ڈالوں سمیت دیگر گاڑیوں کی خریداری کی گئی۔ اصل ٹاپک کی طرف آتے ہیں۔ گاڑیاں دینے سے کوئی مسئلہ نہیں بلکہ میں وہ واحدلکھاری ہوں جو کئی برسوں سے اس بات کو سپورٹ کررہا تھا کہ افسران کو اچھی گاڑیاں فراہم کی جائیں۔میں نے ہمیشہ اس بات کو بھی سپورٹ کیا کہ سرکاری گاڑی کو افسران کی تنخواہ کی طرح ہی پیکچ کا حصہ تصور کیا جائے اور اسے سرکاری گاڑی کے آزادانہ استعمال کا قانونی حق ہونا چاہئے۔لیکن اصل مسئلہ جسے میں پہلے بھی ڈسکس کرچکا ہوں کہ اے ڈی سی آر کو 2022میں، پولیس کو مئی 2023،جبکہ اسسٹنٹ کمشنروں کو ستمبر 2023میں دی گئی گاڑیاں آج بھی بن نمبر پلیٹ چلائی جارہی ہیں۔اگرگاڑیاں خریدتے وقت رجسٹریشن کی مد میں رقم نہیں رکھی گئی اور نہ ہی دی گئی تب بھی نااہلی ہے۔ اگر مذکورہ رقم رکھی گئی تھی اور جاری بھی ہوچکی اور اس کے باوجود گاڑیوں کو نمبر پلیٹ لگانے میں تاخیر کی جارہی ہے تب بھی قصور انتظامی سربراہ کا ہے۔کیا باقی عوام کو بھی یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ 2سال تک بن نمبر پلیٹ گاڑی چلا سکیں ؟جب تک شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو گاڑی کو نمبر پلیٹ الاٹ کیے بن افسران کے حوالے کرنے کا تصور بھی نہیں تھا۔زبان زدعام ہے کہ آج کل پنجاب میں بیوروکریٹک مارشل لاء لگ چکا ہے۔واقعی بیوروکریٹک مارشل لاء ہے جہاں وزیراعلیٰ پنجاب چیف سیکرٹری سے غیرقانونی سیلف پروجیکشن پر پابندی کا نوٹیفیکیشن نہیں کروا سکتیں۔حکومتی ایم این اے اور ایم پی ایز اس قدر بے اختیار ہیں کہ عوامی کام تو درکنار ذاتی کام نہیں کروا سکتے۔سرکاری افسران بغیر نمبر پلیٹ ، مبہم اور مشکوک نمبر پلیٹ والی گاڑیاں چلا کر پنجاب کو بنانا ریپلک سمجھ رہے ہیں ۔ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کررہا۔مضحکہ خیز بات ہے کہ گاڑی کی رجسٹریشن کے پیسے نہیں ان کے پاس اور2022اور 2023ماڈل گاڑی کی رپئیرنگ پر 2سے 20لاکھ تک کے بل بن گئے ،منظور بھی ہوگئے اور مل بھی گئے۔کونسی ایسی ریپئرنگ ہے کہ نئی گاڑی پر لاکھوں لگ گئے اور رجسٹریشن کے پیسے نہیں تمہارے پاس۔سپیشل برانچ تو پولیس کے زیراثر ہے اس لیے اپنے ہی افسران کے خلاف رپورٹ کیسے بنائے گی۔آئی ایس آئی ،ایم آئی اور آئی بی جیسے ادارے آزاد ہیں وہ اس لاقانونیت کی رپورٹس تو بھیج رہے ہونگے مگر ان پر ایکشن کیوں نہیں ہو رہا ؟ لاقانونیت کرنے والے اسسٹنٹ کمشنر ،ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور پولیس افسران کی گاڑیاں تھانے میں بند کرکے ان کے خلاف ایف آئی آر کیوں نہیں ہورہی؟کارروائی نہ کرنے والے وارڈن ،سی ٹی او ،ڈی آئی جی ٹریفک اور ایکسائز افسران کے خلاف فرائض سے غفلت کی کاروائی کیوں نہیں ہورہی؟لاقانونیت پر چب سادھنے والے چیف سیکرٹری پنجاب کیلئے ناگزیر کیوں ؟ سرکاری افسران کی اکثریت اپلائیڈ فار کی نمبر پلیٹ جبکہ باقی نمبر پلیٹ کے آگے اضافی راڈ لگاکر نمبر پلیٹ کو اس طرح پیچھے چھپا دیتے ہیں کہ آپ نمبر پلیٹ پڑھ ہی نہیں سکتے۔سرکاری ملازمت کا یہ مطلب ہے کہ آپ قانون کو پائوں تلے روندتے چلے جائیں۔ اپلائیڈ فار گرین نمبر پلیٹ والے سرکاری ڈالوں نے متعدد شہریوں کی گاڑیوں کو ایکسیڈنٹ میں نقصان پہنچایا اور اس لیے بچ گئے کہ گاڑی کی نمبر پلیٹ نہیں تھی ۔کہیں نمبر بھی سرکاری ہیں لیکن نمبر پلیٹ کو گرین کی بجائے وائٹ کیا ہوا ہے اور کچھ نے تو ڈائریکٹ نمبر پلیٹ ہی بدل کر پرائیویٹ لگا دی۔نمبر پلیٹ نہ لگانے اور چھپانے والے مذکورہ قانون شکن نئے افسران ہیں۔ سینئر افسران ایسی غیراخلاقی حرکتوں اور جعل سازیوں کا حصہ نہیں بنتے۔ ٹریفک پولیس کی نااہلی ہے جو سالانہ اربوں روپے کا بجٹ کھا کر بھی گاڑیوں کی نمبر پلیٹ تک چیک کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ بغیر نمبر پلیٹ ،غیر نمونہ اور مبہم نمبر پلیٹ چاہے سرکاری گاڑی ہو یا پرائیویٹ سب کے چالان کیے جائیں بلکہ ان کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج ہونا چاہئے کیونکہ اس ایلیٹ مخلوق کی آڑ میں دہشت گرد بھی اپلائیڈ فار گاڑیاں استعمال کرسکتے ہیں، کامیابی سے شرپسند کارروائیاں کرکے نکل جاتے ہیں۔ایجنسیوں کو چاہئے کہ ایسے قانون شکن افسران کی رپورٹ میں دہشت گردوں کی سہولت کاری لکھی جائے کیونکہ بنا شناخت گاڑی چلانا سنگین جرم ہے۔ان کے نامہ اعمال میں لکھا جائے کہ ایسے مشکوک افراد سرکاری نوکری کے اہل نہیں۔