2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور سرائیکی وسیب

ظہور دھریجہ
02-12-2018

خطابت کے بے تاج بادشاہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری ایک شخص نہیں ایک عہد کا نام ہے ، وہ قیام پاکستان کے مخالف تھے ، پھر حامی ہو گئے ، مخالفت کی وہ دلیل دیتے اور کہتے کہ ہندوستان نہیں مسلمان بٹ رہا ہے ، پاکستان بن گیا تو وہ حمایت کی دلیل دیتے کہ اب پاکستان بن گیا ہے اس کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔سید عطاء اللہ شاہ بخاری 1891ء کو پٹنہ میں پیدا ہوئے ۔ پھر تعلیم کی خاطر امرتسر چلے گئے ۔1915ء میں پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف کے دست پر بیعت ہوئے ۔ پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کی وفات کے بعد مولانا عبدالقادر رائے پوری کے دست پر بیعت ہوئے۔ 1947ء میں وہ امرتسر سے لاہور آ گئے ۔ چار مہینے وہاں قیام کیا پھر خان گڑھ آ گئے اور وہاں نواب زادہ نصراللہ خان کے پاس رہ گئے ، خان گڑھ سے آپ ملتان آ گئے اور باقی ساری زندگی ملتان گزار دی۔ 21اگست 1961ء کو آپ اللہ کو پیارے ہو گئے اور ملتان میں آپ کی تدفین ہوئی۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری ۔ آبائی وطن موضع ناگڑیال ضلع گجرات پنجاب (پاکستان) تھا ۔ لیکن آپ کے والد مولوی ضیاء الدین احمد نے بسلسلہ تبلیغ پٹنہ میں سکونت اختیار کر لی تھی ۔ شاہ صاحب زمانہ طالب علمی ہی میں سیاسی تحریکوں میں حصہ لینے لگے تھے لیکن آپ کی سیاسی زندگی کی ابتداء 1918ء میں کانگریس اور مسلم لیگ کے ایک مشترکہ جلسہ سے ہوئی جو تحریک خلافت کی حمایت میںامرتسر میں منعقد ہوا تھا۔ سیاسی زندگی بھر پورانداز میں گزاری اور ہندوستان کے تمام علاقوں کے دورے کئے ۔ اپنے زمانے کے معروف ترین مقرر تھے اور لوگ ان کی تقریریں سننے کے لئے دور دور سے آتے تھے ۔ سیاست میں ’’امیر شریعت اور شاہ جی‘‘ کے نام سے معروف تھے ۔ آپ نے تحریک آزادی کیلئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور مجموعی طور پر 18سال جیلوں میں رہے۔ 1929ء میں اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر مجلس احرار اسلام کے نام سے ایک علیحدہ سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ اس پلیٹ فارم سے تا حیات وابستہ رہے۔ قدرت نے آپ کو خطابت کا بے پناہ ملکہ ودیعت کر رکھا تھا ۔ اس فن میں بہت کم لوگ آپ کے مقابلے کے گزرے ہیں۔ اُردو ، فارسی کے ہزاروں اشعار یاد تھے ۔ خود بھی شاعر تھے اور ندیمؔتخلص کرتے تھے۔ ان کی زیادہ تر شاعری فارسی میں تھی ۔ سواطع الالہام کے نام سے آپ کا مجموعہ کلام شائع ہو چکا ہے ۔ کانوں میں گونجتے ہیں بخاری کے زمزمے بلبل چہک رہا ہے ریاض رسول میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا پورے ہندوستان اور پاکستان میں نام ہے ۔ اصل وطن پنجاب تھااس کے بعد ملتان آ گئے اور تاحیات وسیب کی دھرتی سے ہمیشہ محبت فرمائی۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری دیو بندی مسلک کے باوجود آپ نے معروف صوفی شاعر خواجہ فریدؒ کی شان میں منقبت لکھی، منقبت کے دو شعر دیکھئے: گلخن عشق چشتیاں بہ طیبد شعلہ اش خواجہ غلام فرید سرمہ چشم شد بخاری را خاکپائے غلامِ خواجہ فرید سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو ویسے تو سارے وسیب سے محبت تھی ،مگر خان پور سے آپ خصوصی محبت فرماتے تھے ، نسبت کی وجہ انگریزوں کے خلاف تحریک ریشمی رومال کے حوالے سے خان پور کا تحریک آزادی کا مرکز بننا اور تحریک آزادی کے حوالے سے مولانا عبیداللہ سندھی کی خدمات ہیں۔ میاں انیس دین پوری لکھتے ہیں کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری دین پور تشریف لاتے اور نہایت عقیدت و محبت کا اظہار فرماتے اور ہمارے والد قبلہ مولانا عبدالہادی دین پوریؒ شاہ صاحب کا بہت زیادہ احترام فرماتے۔سرائیکی خطیب مولانا لقمان علی پوری بتاتے تھے کہ شاہ صاحب کے ساتھ ہم غازی پور سے دین پور کیلئے روانہ ہوئے ، آپ گھوڑے پر سوار تھے ، جبکہ ہم دین پور کے قریب پہنچے تو شاہ صاحب گھوڑے سے نیچے اُتر ے اور پیدل چلنا شروع کر دیا ، آپ نے فرمایا کہ دین پور شریف ادب کی جگہ ہے ، جب دین پور شریف پہنچے تو شاہ صاحب نے فرمایا کہ میں تو بیمارتھا اب میری بیماری جاتی رہی ہے ۔مولانا لقمان علی پوریؒ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایک اور دفعہ صاحب دین پور شریف آئے تو سیدھے قبرستان گئے اور حضرت خلیفہ غلام محمد صاحب کی قبرپر کافی دیر مراقبہ فرمایا۔ مولانا عبید اللہ سندھی کی قبر پر فاتحہ پڑھی۔