2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

سی پیک میں بلوچستان کی مقامی آبادی کے لئے دلچسپی

اشرف شریف
24-10-2024

سیاسی کھینچا تانی اور ہنگاموں میں ہر بار جو چیز نظر انداز ہو جاتی ہے وہ محروم طبقات کا سکھ اور ریاست کی ترقی کے معاملات ہیں۔حالیہ دنوں سی پیک کے دوسرے مرحلے پر کام شروع ہونے کے انتظامات پر بات ہوئی۔چینی وزیر اعظم نے گوادر پورٹ کا افتتاح کیا۔جو منصوبے سست روی کا شکار تھے ان میں تیزی لائی جا رہی ہے۔سب سے اہم بات یہ کہ اس تعمیری کام سے ہمارے پسماندہ صوبے بلوچستان کی کئی شکائتیں دور ہونے والی ہیں۔ بلوچستان میں سی پیک کے تحت بہت سے منصوبے مکمل کیے گئے ہیں، جن سے مقامی لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے۔یہ بات درست ہے کہ معدنی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود پاکستان کی معیشت میں اب تک بلوچستان کا حصہ زیادہ نہیں رہا۔ اس غیر فعال معاشی صلاحیت کے نتیجے میں صوبے کی اپنی ترقی متاثر ہوئی ہے۔ ایسا نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ بلوچستان کی جغرافیائی ناہمواری اور غریب آبادی تھی۔ مثال کے طور پر تربت کی آبادی صرف 180,000 افراد پر مشتمل ہے اور بلوچستان میں مغربی روٹ کا یہ سب سے دشوار گزار علاقہ ہے۔ بلوچستان کے مغرب میں واقع ضلع پنجگور تین تحصیلوں پر مشتمل ہے جس کی آبادی تقریباً 350,000 ہے۔میرے ایک دوست جو ان علاقوں میں آتے جاتے رہتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ سی پیک کے مغربی روٹ کی تعمیر کے ساتھ، ان علاقوں میں جہاں سڑکیں بنی ہیں، جائیداد کی قیمت آسمان کو چھونے لگی ہے۔ دوسرے شہر جیسے قلات، کوئٹہ اور ژوب بھی منصوبہ بند سڑکوں کے نیٹ ورک کی تکمیل سے مزید فعال ہو جائیں گے۔ اس سے اقتصادی سرگرمیوں اور سی پیک کے تحت دیگر ترقیاتی منصوبوں کو فروغ ملے گا۔ بلوچستان کے مقامی لوگوں کے لیے سی پیک خاص طور پر تعمیرات، ٹرانسپورٹ وغیرہ میں روزگار کے مواقع پیدا کر ہا ہے۔افرادی قوت کی کمی پورا کرنے کے لئے پنجاب اور دیگر صوبوں سے مزدور وہاں جاتے ہیں،ملک دشمن اور بلوچ دشمن عناصر ان مزدوروں کو نشانہ بنا کر ترقی کا عمل روکنا چاہتے ہیں۔ سڑکوں، بندرگاہوں اور توانائی کے پلانٹس سمیت بہت سے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں نے ہنر مندوں کے لیے ملازمتیں پیدا کی ہیں۔ اس سے بلوچستان کے لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ بلوچستان کے بنیادی ڈھانچے کی نمایاں ترقی میں نظر آرہی ہیں جو قبل ازیں اپنے وجود کا احساس نہیں دلاتی تھی۔نئی سڑکیں، ہائی ویز ، ریلوے دراصل تجارت، نقل و حرکت اور مقامی آبادی کے لیے خدمات تک رسائی کو بہتر بناتی ہیں۔تین ہزار کلومیٹر پر محیط سی پیک منصوبے میں سڑکیں، ریلوے اور پائپ لائنیں شامل ہیں۔انفراسٹرکچر کی تعمیر کے دوران فوری طور پر روزگار کے مواقع فراہم ہوتے ہیں ۔یہ منصوبے بعد میں تجارت اور نقل و حرکت میں سہولت فراہم کرتے ہیں، ان سے ملحقہ علاقوں میں اقتصادی ترقی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ باضابطہ افتتاح کے بعدگہرے پانی کی بندرگاہ کے طور پرگوادر ایک اہم تجارتی مرکز بننے کے لیے تیار ہے۔اپنی جدید سہولیات کے ساتھ، بندرگاہ بڑے کارگو جہازوں کو سنبھال سکتی ہے،یہ صلاحیت اسے بین الاقوامی تجارت کے لیے اہم بناتی ہے۔نتیجتاً، بندرگاہ کے آس پاس کے شہر میں شپنگ سے لے کر سیاحت تک کی سرگرمیوں میں اضافہ متوقع ہے۔ بنیادی ڈھانچے کے علاوہ سی پیک منصوبوں کے وسیع تر سماجی و اقتصادی اثرات بھی ہیں۔مثال کے طور پر، گوادر پورٹ کے ارد گرد ترقی کا مطلب ہے کہ یہاں کے رہائشیوں کے لیے بہتر سکول، ہسپتال،گراونڈ اور سہولیات۔ مزید برآں، تجارتی اور ٹرانزٹ سرگرمیاں رہائشیوں کو روزگار کے نئے مواقع فراہم کر سکتی ہیں، جس سے پوری کمیونٹی کی ترقی ہو سکتی ہے۔ گوادر پورٹ سی پیک کا مرکز ہے۔جو ایک چھوٹے سے مچھیرا شہر سے ایک بڑے اقتصادی مرکز میں تبدیل ہو گیا ہے۔گوادر کی ترقی سے مقامی صنعتوں کو فروغ ملے گا، روزگار میں اضافہ ہوگااور خطے کی اقتصادی ترقی میں مدد ملے گی۔سی پیک منصوبوں نے پاور پلانٹس کے قیام اور انرجی گرڈ کو اپ گریڈ کرکے بلوچستان میں توانائی کی کمی کو پورا کیا ہے۔ بلوچستان بنیادی طور پر اپنے قدرتی وسائل، خاص طور پر معدنیات اور گیس پر انحصار کرتا رہا ہے، سی پیک منصوبے صوبے کو اپنی معیشت کو متنوع بنانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور سے منسلک خصوصی اقتصادی زون، صنعتی کلسٹر کا قیام مینوفیکچرنگ، خدمات اور لاجسٹکس کے شعبوں میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ سی پیککے تحت ٹیکنالوجی اور جدت پر توجہ مرکوز کرنے والے متعدد منصوبوں کے ساتھ، بلوچستان ٹیکنالوجی کی آمد سے مستفید ہو گا۔ سمارٹ شہر، ٹیکنالوجی پارکس اور اختراعی مرکز صوبے کے منظر نامے کو تبدیل کر سکتے ہیں، جو اس کے نوجوانوں کو عالمی ٹیکنالوجی کے رجحانات اور مواقع سے روشناس کرا سکتے ہیں۔ بلوچستان اپنے دلکش مناظر، بھرپور تاریخ اور منفرد ثقافت کے ساتھ، سیاحت کے لئے بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ سی پیک منصوبے، خاص طور پر سڑکوں اور ریل رابطوں میں بہتری، اس صلاحیت کو کا بند دروازہ کھول سکتی ہے، جس سے یہ صوبہ ملکی اور بین الاقوامی سیاحوں کے لیے ترجیحی منزل بن سکتا ہے۔ بلوچستان کو " پھلوں کی ٹوکری" کہا جاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ صوبہ کھجور کی برآمد میں حصہ نہیں ڈالتا۔کھجور اور دیگر پھل برآمد کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے تو وہ پانی کے مسائل حل کر کے پھلوں کی پیداوار میں اضافہ کرسکتے ہیں۔یہاں کے باغبان سی پیک کی بدولت دیگر ممالک کو فصلیں برآمد کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ صوبے کی تقریباً 75 فیصد آبادی کا زراعت پر انحصار ہے۔ جعفرآباد، نصیر آباد، اوستہ محمد اور ڈیرہ مراد جمالی کی معیشتوں کا مرکز زراعت پر ہے۔ بلوچستان کی معیشت کا بہت زیادہ انحصار لائیو سٹاک کی صنعت پر ہے، اس لیے سی پیک کے ذریعے اس سے فائدہ اٹھانا فائدہ مند ہو گا۔ملک کی بھیڑوں، اونٹوں اور بکریوں میں سے، صوبہ بالترتیب 52.0%، 41.0%، اور 22.0% فراہم کرتا ہے۔مزید برآں، یہ خشک سالی کے شکار علاقوں میں تقریباً 66% گھرانوں کو کام فراہم کرتا ہے۔ ان علاقوں میں جہاں فصل کی کاشت ممکن نہیں، مویشی ایک نعمت معلوم ہوتے ہیں۔ سمندر کو معاشی فوائد کے لئے استعمال کرنا بلیو اکانومی کہلاتا ہے۔ عالمی سطح پر سمندری اقتصادی سرگرمیوں کا تخمینہ 2010 میں تقریباً 1.5 ٹریلین ڈالر لگایا گیا تھا اور 2030 تک اس کی مالیت 3 ٹریلین ڈالر متوقع ہے۔ بلیو اکانومی سے 24 ٹریلین ڈالر مالیت کی مالی سرگرمیاں پیدا ہونے کی توقع ہے، جس میں نئے وسائل اور ملازمتیں شامل ہیں۔چینی اور پاکستانی حکومتوں نے مقامی آبادی کے لیے تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال یقینی رکھنے کا انتظام کیا ہے، سماجی و اقتصادی ترقی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ بلوچستان میں پیشہ ورانہ تربیتی مراکز قائم کئے گئے ہیں۔