2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

’’آخرِ شب کے ہم سفر عطارکے پرندے‘‘

مستنصر حسین تارڑ
05-12-2018

کراچی کا بیچ لگژری ہوٹل ان زمانوں میں لے جاتا ہے جب یہ ایک فراخ دل اور کھلے بازوئوں سے تمام مذاہب کو قبول کرتا تھا اور اس میں تو کچھ شک نہیں کہ یہ پارسی تھے جنہوں نے اس شہر کو اپنایا‘ اسے خوبصورت کیا اور مالا مال کیا۔ کسی زمانے میں وہاں ایرانی ہوٹل بھی ہوا کرتے تھے۔ ایک قدیم قبرستان میں اب بھی کراچی کے باسی یہودیوں کی سینکڑوں قبریں زبوں حالی کا شکار ہیں اور ایک بلوچ خاندان پچھلی چھ نسلوں سے اس کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ بے شک بیچ لگژری ہوٹل کی شبوںمیں اس کے سمندروں پر چاندی کے آبی پرندے پرواز کرتے تھے لیکن اس کی سویروں میں سمندر کی آلودگی اور زوال کی بو بھی بہت ناگوار گزرتی تھی۔ کراچی کی ایک اور صبح تھی جب میرے نام کی ریڈرز ورلڈ کے کچھ پرجوش اور مجھے تحریروں کے حوالے سے چاہنے والے ممبران مجھے ملنے کے لئے چلے آئے اور ان میں ڈاکٹر نازش بھی شامل تھیں جن کی انگریزی نظموں کا مجموعہ’’سائلنٹ وہسپرز‘‘ ابھی حال ہی میں شائع ہوا ہے۔’’خاموش سرگوشیاں‘‘ کے بارے میں ان دنوں بہت تحسین آمیز سرگوشیاں ہو رہی ہیں۔ ڈاکٹر نازش کے علاوہ مزملہ شفیق تھیں جنہوں نے بلتستان کے بارے میں ایک انوکھا سفرنامہ لکھا اور ابھی حال میں ہی انہوں نے کینتھ رنگ اور غسان عبداللہ کی نہایت اہم دستاویز’’فلسطین سے ادھوری ملاقات‘‘ کا اردو میں ترجمہ کیا ہے اور یہ ایک بہت بڑا تخلیقی کام ہے جو ہمیں فلسطین کے مزید نزدیک لے جائے گا۔ سب لوگوں نے آپا تہمینہ صابر کی کمی کو بے حد محسوس کیا جو ریڈرز ورلڈ کی ایک بہت دھانسو کارکن ہیں‘ البتہ آنٹی فریال عثمان نے اپنی سٹائلش موجودگی سے اس کمی کو بہت حد تک پورا کر دیا۔ فریال ایک ایسی شاندار کوہ نورد ہیں کہ جب جی چاہے اپنے بچوں اور پوتوں وغیرہ کو روتا چھوڑ کر بلند پہاڑوں کو نکل جاتی ہیں اور پہاڑ ان کی آمد سے تھر تھر کانپتے ہیں کہ کس شیر کی آمد ہے وغیرہ‘ یہاں تک کہ وہ ’’رش لیک‘‘ جو پاکستان کی بلند ترین جھیل ہے کا ٹریک بھی کر چکی ہیں اور وہ اتنا جان لیوا اور دشوار ٹریک ہے کہ میں نے متعدد بار کمر ہمت باندھی اور پھر خوفزدہ ہو کر کھول دی ان کے قریبی لوگ انہیں ’’فی میل تارڑ‘‘ کے لقب سے پکارتے ہیں۔ ویسے شبہ ہے کہ عثمان صاحب ان کی رخصتی پر سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ اور وہاں بی بی بخاری بھی موجود تھیں۔ جنہوں نے یقینا کوہ نوردی کا ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ بی بی بخاری سراسر ایک روپوش بی بی ہیں سر سے پائوں تک ڈھکی ہوئی۔ کسی حد تک خاتون اول بشریٰ بی بی کی مانند اور وہ اس مکمل حجاب پوشی کی حالت میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کے دامن تک مارو مار کرتی پہنچ گئی تھیں۔ انہوں نے بے شک کے ٹو کا چہرہ دیکھا لیکن مجال ہے کے ٹو کو اپنا چہرہ دکھایا ہو۔ عین ممکن ہے کہ کے ٹوانہیں اپنے دامن میں دیکھ کر گنگنانے لگا ہو کہ ’’ذرا چہرہ تو دکھائو‘‘ گویا یہ سب لوگ صرف مجھے پڑھتے نہیں تھے خود بھی لکھتے تھے اور میری کوہ نوردیوں کے راستوں پر جاتے تھے۔ یہ نہیں کہ اس محبت کی محفل میں صرف خواتین ہی شامل تھیں مرد بھی تھے لیکن مجھے موئے مردوں کے نام یاد نہیں رہتے اور ہاں ہوٹل کے برابر میں سمندر کنارے رہائش پذیر لمبی لڑکی اقصیٰ بھی مجھے ملنے کے لئے آئی۔ عجیب لڑکی ہے یورپ جا کر جہازوں سے پیراشوٹ باندھ کر چھلانگیں لگاتی رہتی ہے۔ گیارہویں عالمی اردو کانفرنس کا ہنگامہ کراچی آرٹس کونسل میں مسلسل بپا تھا اور ہنگامہ ہے کیوں برپا، صرف اس لئے کہ اسے برپا کرنے والا احمد شاہ‘ شاہ جنات کہ وہ ہر جگہ موجود رہتا تھا۔ انسان نہیں ایک چھلاوہ لگتا تھا۔ نہ کھاتا پیتا تھا نہ سوتا تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ وہ ایک ہاتھی کی یادداشت رکھتا تھا‘ نہ بھولتا تھا نہ فراموش کرتا تھا۔ ہر الیکشن بھاری اکثریت سے اپنی کارکردگی کی وجہ سے جیتتا تھا۔ میں نے کچھ برس پہلے کہا تھا کہ ملک بھر کی آرٹس کونسلوں اور ان میں الحمرا لاہور بھی شامل ہے کچھ مدت کے لئے احمد شاہ کے سپرد کر دیں اور پھر دیکھو احمد شاہ کیا کرتا ہے۔ ’’یادرفتگاں‘‘ کے ایک اداس کر دینے والے سیشن میں ایوب خاور نے کیا ہی تخلیقی محبت کے ساتھ ہمارے منو بھائی کو یاد کیا۔ عرفان جاوید نے احمد بشیر کے بارے میں اپنا خاکہ پیش کیا کہ وہ خاک نشینوں کو بھی اپنے موئے قلم سے زندہ کر دینے کا ہنر جانتا ہے۔ افتخار عارف ہمیشہ سے ’’کسوٹی‘‘ کے زمانوں سے انگلیاں چٹخاتے ایک مجذوبیت کے عالم میں گفتگو کرتے ہیں اگرچہ ان کی مجذوبیت بہت سوچی سمجھی اور نپی تلی ہوتی ہے۔ لیکن ان دنوں وہ واقعی مجذوب سے ہو گئے ہیں۔ بہک سے گئے ہیں انہوں نے ساقی فاروقی کی گمشدہ یادوں کو دریافت کیا۔ اور تب مجھے یاد آیا کہ ساقی ہمیشہ اپنی تازہ ترین کتاب نہایت تردد سے مجھے بھجواتے تھے اور میری رائے کی خواہش کرتے تھے۔ ان سے صرف چند ایک ملاقاتیں شائد پچیس برس پیشتر ہوئیں اور اکثر کشور ناہید کے ڈیرے پر ہوئیں۔ تب ان کی آسٹرین بیوی گُنڈی بھی ان کے ہمراہ تھیں اور ساقی ہمیشہ انہیں ’’غنڈی‘‘ کہہ کر پکارتے۔ زیادہ تر اپنے پالتو کچھوے کے نفسیاتی اور جنسی مسائل کے بارے میں گفتگو کرتے رہتے۔ اس کچھوے کے بارے میں انہوں نے بہت کچھوا پرور شاعری بھی کی۔ آرٹس کونسل کے وسیع ہال کی سٹیج پر اس شب ایک ایسے ترقی پسند اور سرخ سویرے کے خواب دیکھنے والے ماضی کی بجھتی ہوئی تصویراں زندہ ہوئیں جو تاریخ کی کتابوں میں دفن ہو چکی تھیں۔ برصغیر کے ایک بہت پسندیدہ کمیونسٹ لیڈر سجاد ظہیر کی بیگم رضیہ سجاد ظہیر کو ایک افسانہ نگار اور باہمت سرخ خاتون کے طور پر یاد کیا گیا۔ سٹیج پر سب کے سب ایسے لوگ براجمان تھے جن کے ’’سرخے ‘‘ہونے میں کچھ شک نہ تھا۔ وہاں ہندوستانی اداکار راج ببر کی اہلیہ سجاد ظہیر کی اداکارہ اور تھیٹر کی ہدائت کار بیٹی نادرہ ظہیر کے پہلو میں ماتھے پر تلک لگائے ان کی بہن نور ظہیر بھی تشریف فرما تھیں۔ نور ظہیر آج بھی کمیونسٹ پارٹی کی ایک رکن ہیں اور انہوں نے ہاتھ اٹھا کر لوگوںکو سلام نہیں کیا بلکہ ’’سرخ سلام‘‘ کیا۔ ان کے سوا وہاں ’’اے غزال شب‘‘ کے عارف نقوی بھی موجود تھے جو بنّے بھائی کی قربت میں رہتے تھے اور میرے بہت عزیز دوست راحت سعید بھی پرانے وقتوں کو یاد کر رہے تھے۔ اس شب راحت سعید نے سجاد ظہیر کے کنبے کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کر رکھا تھا۔ شدید خواہش کے باوجود میں اس میں شریک نہ ہو سکا۔ ایک اور بہت اہم سیشن ’’تراجم اور دنیا سے رابطہ‘‘ کے حوالے سے تھا اور بہت بھر پور تھا۔ جس میں ڈاکٹر انوار احمد، رضا علی عابدی، فن لینڈ کے ارشد فاروق‘ امریکہ کے سعید نقوی، ترکی کے خلیل طوقاراور ایران کی وفا نیر دان منش نے شرکت کی۔ وفا نیر دان منش تہران یونیورسٹی میں میرے سفرناموں کو ایک خصوصی نصاب میں شامل کرنے کی خواہش رکھتی تھیں۔ یہ ایک بہت بھر پور محفل تھی لیکن مجھے کچھ افسوس ہوا۔ بلکہ دکھ بھرا افسوس ہوا جب تراجم کے حوالے سے رضا عابدی نے اپنی طرف سے مزاح تخلیق کرتے ہوئے کہا کہ کم از کم پنجابی لطیفوں کا ترجمہ نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک تو خیر تھی لیکن بعدازاں میزبان حضرت نے امریکہ کے سعید نقوی سے مخاطب ہو کر کہا ’’چونکہ امریکی انگریزی کا مزاج بھی پنجابی کی مانند ہے تو پنجابی لطیفوں کا ترجمہ انگریزی کے امریکی مزاج میں تو ہو جائے گا۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ جیسے ہم اہل پنجاب اردو کی عظمت سے آگاہ ہیں اور اس کی بہت سی عظمت ہمارے دم سے ہی ہے تو اہل زباں بھی ہماری زبان کی شاندار قدامت سے آگاہ ہو جائیں۔ کچھ حرج تو نہیں۔ آپ کسی فارغ وقت میں ’’قصیدہ بردہ‘‘ کے فارسی اور اردو شعری ترجمے کو دیکھ لیجئے اور پھر وارث شاہ اور حافظ برخوردار کے ترجمے کو پرکھ لیجئے جو ان عظیم شاعروں نے براہ راست عربی سے کیا ہے اور پھر صدق دل سے فیصلہ کیجئے گا کہ کیا یہ پنجابی ترجمہ ‘ فارسی اور اردو سے زیادہ موثر اور دل نشین نہیں ہے۔ کتھے مہر علی‘ کتھے تیری ثنا۔ اور وہ جو آخری شب تھی آخر شب کے ہم نشیں تھے کامران سلیم عرفان جاوید اور میرے لئے کراچی کی کشش۔ میرے دوست بھی اور میرے دل کو چھونے والے ناول نگار اور صحافی محمد حنیف ۔ میرے کمرے میں موجود تھے۔ میں چاہتا تھا کہ میں حنیف کے تازہ ترین ناول‘ ’’دے ایڈبرڈز‘‘ کے بارے میں گفتگو کروں کہ اس ناول نے، اگرچہ میں پہلے سے قائل تھا‘ مزید قائل کر دیا کہ حنیف کا یہ ناول ایک شاہکار ہے۔ ادھر حنیف یہ چاہتا تھا کہ میں اپنے تازہ ترین ناول’’منطق الطیر جدید‘ کے بارے میں تفصیل سے اسے بتائوں کہ آخر میں نے کیوں فریدالدین عطار کی لازوال وحدت الوجود فلسفے کے آغاز کی لازوال تصنیف ’’منطق الطیر‘‘ کی پیروی کی۔ یہ ایک یادگار محفل تھی جو بھلائے سے نہ بھولے گی۔ اور تب کھلی کھڑی میں سے سمندروں پر اڑانیں کرتے چاندی کے پرندوں میں سے ایک داخل ہوا۔ حنیف اور میرے درمیان جو میز تھی اس پر بیٹھ گیا میں نے پوچھا’’تو کون ہے؟‘‘ پرندے نے کہا’’میں وہ ہوں جس کی تمہیں خبر نہیں۔ میں عطار کا ایک پرندہ ہوں اور مجھے بھی سچ کی تلاش ہے۔ مجھے ٹلّہ جوگیاں کا راستہ بتا دو جدھر تارڑ کے پرندے اڑان کرتے چلے جا رہے ہیں۔ خود فراموشی اور مجذوبیت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔