شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس :پاک بھارت رابطے کے امکانات
بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر دو طرفہ تعلقات پر بات چیت کو مسترد کر دیا ہے۔جے شنکر اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے دس سال کے دوران پہلے بھارتی اعلیٰ شخصیت ہوں گے۔سبرامنیم جے شنکراپنے پاکستانی ہم منصب سے دو روزہ سربراہی اجلاس کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات کے بارے میں "میڈیا کی دلچسپی" پر روائتی موقف بیان کرکے دراصل خطے میں پاکستان کی اہمیت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ان کے اس بیان سے پاکستان میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کی حامی قوتوں کو مایوسی ہوئی ہو گی جو مسلیم لیگ نواز کی حکومت میں کسی بڑے بریک تھرو کے امکانات تلاش کر رہے تھے۔ جنوب مشرقی ایشیا زیادہ آبادی کے ساتھ ترقی کرنے کے قدرتی مواقع سے بھرپور خطہ ہے ۔ مغرب میں جب علاقائی اقتصادیات کو بلاک کی شکل میں لانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی تو خطے کے ممالک کو تجارتی و ثقافتی طور پر ایک دوسرے کے قریب لانے کے لئے سارک تنظیم قائم کی گئی ۔اس تنظیم کے اغراض و مقاصد کو پیش نظر رکھ کر آگے بڑھا جاتا تو اس وقت پاک بھارت سیاسی و دفاعی اختلافات ختم ہو چکے ہوتے ۔بھارت کو جیسے ہی علاقائی طاقت بننے کا جنون چڑھا ،سارک غیر موثر ہونے لگی۔9 جون، 2017 کو بھارت اور پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے مکمل رکن بن گئے۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں دونوں ممالک کی رکنیت کا اعلان قازقستان کے صدر نورسلطان نذر بایوف نے کیا۔انہوں نے دونوں ممالک کو تنظیم میں نئے رکن کے طور پر خوش آمدید کہا۔اس تنظیم کی استعداد پاکستان و بھارت کو ترقی اور پر امن انداز میں اپنے اختلافات ختم کرنے کو موقع دیتے ہیں۔شنگھائی تعاون تنظیم بھارت کو وسطی ایشیا میں اپنی سٹریٹجک رسائی کو مزید گہرا کرنے کی سہولت دیتی ہے۔بھارت کے پاس پہلے ہی وسطی ایشیا میں سوفٹ پاور کی کافی صلاحیت موجود ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت وسطی ایشیائی ممالک کے معدنی اور توانائی کے وسائل تک رسائی فراہم کرکے توانائی کی سلامتی کو فروغ دے سکتی ہے۔بھارت نے ہر سطح پر پاکستان سے رابطے و بات چیت کا امکان بند کر رکھا ہے ۔شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران موقع ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے حکام ایک دوسرے کے ساتھ بات کرلیں۔بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے اس سلسلسے میں بیان داغ کر امن کو خواہاں حلقوں کو اپنی ضدی پالیسی ظاہر کر دی ہے۔وہ یہ فراموش کئے ہوئے ہیں کہ بھارتی ہٹ دھرمی نے تنازع کشمیر کے متعلق سنگینی پیدا کر دی ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق کے مطابق بھارت اور پاکستان کے پاس شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں "برف کو توڑنے اور تعمیری طور پر بات چیت کا" ایک حقیقی موقع ہے۔کشمیریوں کی نسلیں بے یقینی کی لپیٹ میں ہیں۔ ہم اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔میر واعظ عمر فاروق گزشتہ پانچ برسوں سے بیشتر دیگر آزادی پسند کشمیری رہنماؤں کے ساتھ نظر بند ہیں۔ جنوبی ایشیائی ہمسایوں کے درمیان تنازعات نے خطے کی کثیر الجہتی تنظیموں کو مؤثر طریقے سے معذور کر دیا ہے جیسے کہ جنوبی ایشیائی تنظیم برائے علاقائی تعاون (سارک)، ایک علاقائی گروپ جس کے رہنماؤں نے ایک دہائی میں کوئی اجلاس نہیں کیا ۔مبصرین اندیشوں کا شکار ہیں کہ کیا اب ایس سی او کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جس کی بنیاد چین اور روس نے رکھی ہے اور اس کی قیادت چینی صدر زی جن پنگ اور روسی صدرولادیمیر پوتن کے پاس ہے۔ سارک کی نظیر ایس سی او کے متعلق تشویش پیدا کرتی ہے۔یہ تناؤ ممکنہ طور پر تنظیم کو متاثر کر سکتا ہے۔تاہم، چین اور روس جیسی عالمی طاقتوں کی قیادت میں ایس سی او کی مضبوط بنیاد، ایک مختلف صورتحال پیش کرسکتی ہے۔ دو جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان بنیادی تنازع کشمیرہے، جو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ہمالیہ کا ایک متنازع علاقہ ہے۔دونوں ممالک کشمیر پر متعدد جنگیں لڑ چکے ہیں اور 1989 کے بعد سے،بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں مسلح مزاحمت جاری ہے، بھارت حقائق کو نظر انداز کر کے اس مزاحمت کی سرپرستی کا الزام پاکستان پر دگرتا آیا ہے ۔ پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے۔اگست 2019 میں نریندر مودی کی انتہا پسند ہندو قوم پرست حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا،اس شق نے کشمیر کو جزوی خود مختاری دے رکھی تھی، اس اقدام پر پاکستان نے شدید احتجاج کیا۔پاکستان نے دو طرفہ بات چیت کے لئے پیشگی شرط رکھ دی کہ جب تک بھارت یہ ترمیم واپس نہیں لیتا اس سے بات نہیں ہو گی۔تاہم پاکستان نے مثبت اور تعمیری انداز میں عالمی دوستوں کے تعاون سے پاک بھارت مذاکرات کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔چند ہفتے قبل نئی دہلی میں ایک پروگرام کے دوران، جے شنکر نے اعلان کیا کہ پاکستان کے ساتھ "بلاتعطل بات چیت کا دور" ختم ہو گیا ہے۔ جہاں تک جموں و کشمیر کا تعلق ہے، آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ کس قسم کے تعلقات پر غور کر سکتا ہے۔ مبصرین کے مطابق وزیر خارجہجے شنکر کا بیان مودی حکومت کی پاکستان سیبات چیت نہ کرنے کی پالیسی کا اعادہ ہے۔پاکستان ایک امن پسند ملک ہے،اس نے ہمیشہ اختلافات کو بات چیت سے طے کرنے کی حمایت کی۔بھارت اگر بات چیت کا خواہش مند نہیں تو اس کی یہ سوچ شنگھائی تنظیم کے مقاصد سے مطابقت نہیں رکھتی۔