2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

شنگھائی کانفرنس: امکانات، توقعات، خدشات

آصف محمود
15-10-2024

شنگھائی کانفرنس کل سے شروع ہو رہی ہے۔ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ کہاں وہ دن کہ پاکستان میں کرکٹ کی ٹیمیں ہی نہیں آیا کرتی تھیں اور ہمارے سٹیڈیمز میں دھول اڑتی تھی اور کہاں یہ دن کہ اس خطے کی سب سے بڑی تنظیم کی کانفرنس پاکستان کی میزبانی میں منعقد ہو رہی ہے اور بھارت زمینی حقائق سے مجبور ہو کر اس میں شریک ہو رہا ہے۔ وہ دن بھی یاد آ رہے ہیں جب سارک کی کانفرنس پاکستان میں ہونا تھی اور بھارت نے اس میں شریک ہونے سے انکار کر دیا ۔ سارک کے چارٹر کے مطابق جب کوئی ایک ملک بھی اس کی کانفرنس میں شریک ہونے سے انکار کر دے تو کانفرنس کا انعقاد نہیں ہو سکتا۔ بھارت کی عدم شمولیت کے فیصلے پر کانفرنس کا انعقاد ممکن ہی نہیں تھا لیکن اس کے باوجو بھارت کے دبائو پر بنگلہ دیش نے بھی اعلان کر دیا کہ وہ بھی پاکستان میں ہونے والی اس کانفرنس میں شریک نہیں ہو گا۔ یہ صرف اس لیے تھا کہ بھارت پاکستان کی سفارتی تنہائی کے تاثر کو فروغ دینا چاہ رہا تھا۔یہ معاملہ یہیں نہیں رکا بلکہ بھوٹان نے بھی شرکت سے انکار کر دیا۔ افغانستان نے بھی دیکھا کہ پاکستان کو کہنی مارنے کا ایک موقع ہاتھ آیا ہے تو جانے نہ پائے ، چنانچہ اس نے بھی پاکستان میں ہونے والی سارک کانفرنس میں شمولیت سے انکار کر دیا ۔اب مگر معاملہ مختلف تھا۔ اب اسی پاکستان میں شنگھائی کانفرنس ہونے ہونے جا رہی ہے اور ’’ مہمانان گرامی‘‘ تشریف لا رہے ہیں۔ یہ اس بات اعلان ہے کہ پاکستان دنیا میں تنہا نہیں ہے بلکہ اس کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ بھارت جو پاکستان میں اپنی کرکٹ ٹیم بیجنے پر بھی تیار نہیں تھا، اب اپنا وزیر خارجہ بھیج رہا ہے۔ یہ قریب ایک دہائی کے عرصے میں بھارتی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ ہے۔ یہ بتا رہا یے کہ عالمی سیاست میں پاکستان کی پوزیشن مستحکم ہو رہی ہے اور اس کا کردار عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔ اس خطے کے اہم ممالک کے سربراہاں مملکت و حکومت کا پاکستان آنا علاقائی سیاست میں پاکستان کی مرکزی حیثیت کا اعتراف ہے۔اس کانفرنس کی شکل میں پاکستان کے معاشی استحکام کا پہلو بھی نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے۔ خطے کے اہم ممالک جو معاشی صف بندی کرنے جا رہے ہیں، اس میں پاکستان کا اہم کردار ہے۔ کانفرنس سے کچھ دن پہلے سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے اہم معاہدات ہوئے ہیں۔ اس کانفرنس کی شکل میں کچھ مزید معاشی امکانات پیدا ہوں گے۔اس کانفرنس کا ایک بڑا حوالہ ہی معیشت ہے۔ اس کے روح رواں ملک چین کی بنیادی تعارف ہی معیشت ہے۔ یہ کانفرنس پاکستان میں متحرک دہشت گرد قوتوں اور ان کے سرپرستوں کے لے بھی ایک پیغام ہے کہ یہ عناصر اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے اور پاکستان کے دوست ممالک پاکستان کے ساتھ ہیں اور اس کی سفارتی، انتظامی، معاشی صلاحیتوں کے قائل بھی ہیں اور اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ خطے میں امن سلامتی اور تعلق باہمی کے لیے یہ سب ممالک ایک ساتھ بروئے کار آ رہے ہیں اور اس نئے علاقائئی تعاون کی راہ میں کوئی پراکسی برداشت نہیں کی جائے گی۔ شنگھائی کانفرنس کی ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کے روح رواں دونوں ممالک یعنی چین ا ور روس سے پاکستان کے اچھے تعلقات ہیں۔ تبدیل ہوتے عالمی منظر نامے میں مقامی سطح پر جو قوتیں ابھر رہی ہیں وہ یہی ہیں۔یعنی یہ کوئی ایسا فورم نہیں جہاں پاکستان کی حیثیت ’ بیک بنچر‘ کی ہو۔ وہ اس تازہ منظر نامے کا مرکز و محور ہے۔ اس بلاک کو بالعموم مغربی بلاک یعنی نیٹو کا ایک متبادل سمجھا جاتا ہے۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ ا س کا دائرہ کار نیٹو سے زیادہ وسیع ہے۔ یہ ایک دفاعی فورم بھی ہے اور یہ ایک معاشی فورم بھی۔اگر چہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ مستقبل میں یہ کیا رخ اختیار کرتا ہے تا ہم یہ پہلو بھی بہت اہم ہے اور اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔علاقائی سیاست کا یہ پہلو اتنا طاقت ور ہے کہ بھارت جیسے ملک کے لیے بھی اسے نظر اندا ز کرنا ممکن نہیں رہا۔وہ ’’تشریف لا رہا ہے‘‘۔ اس میں اب دو بڑے چیلنج ہیں۔ پہلا چیلنج بھارت ہے۔ شنگھائی فورم ایک ایسا ہی فورم ہے جیسے جنوبی ایشیا میں سارک ہے۔ سارک کی ناکامی میں بھارت کا بنیادی کردار ہے۔ بھارت نے سارک کو اپنی علاقائی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور اس کی وجہ سے سارک ان مقاصد کے حصول میں اب تک ناکام ہے جس کے لیے اسے بنایا گیا تھا۔یہی بھارت اب شنگھائی کانفرنس کا بھی رکن ہے۔ اس لیے اس بات کا خطرہ موجودہے کہ وہ اس فورم کو بھی اپنی علاقائی سیاست کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کرے گا۔ بھارت اس وقت مغربی بلاک کے زیادہ قریب ہے ا ور وہ چین کو کاونٹر کرنے کی مغربی کوششوں کا حصہ بن سکتا ہے۔ پھر یہ کہ پاکستان کے ساتھ تو بھارت کے مسائل ہیں ہی اور ان ہی کی وجہ سے اس نے سارک کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔چونکہ اس کانفرنس کے ایجنڈے میں انسداد دہشت گردی کی بات شامل ہے تو بھارت اس کو اپنی مرضی کے معانی پہنانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ کل بھوشن نیٹ ورک اور دیگر کئی دہشت ردی کے واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد کو بطور ایک میزبان ہم زیر بحث لاتے ہیں یا نہیں اور لاتے ہیں تو شدت اور کس انداز سے لاتے ہیں، اس کے بارے میں بھی ابھی سے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔تاہم اس بات کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا ہو گا کہ بھارت اس موقع پر اس عنوان سے کچھ ایسی بد مزگی ضرور پیدا کر سکتا ہے۔ اگر بھارت ایسا کوئی موقف اختیار کرتا ہے تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ اس کانفرنس کو بھی اسی انجام سے دوچار کرنا چاہتا ہے جس سے اس نے سارک کو کیا۔ سارک کے بعد شنگھائی کانفرنس کو بھارت سے محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ دوسرا مسئلہ ہماری داخلی صورت حال ہے ۔ اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ڈی چوک میں احتجاج کی کال دینا ایک سوالیہ نشان ہے۔ غور طلب معاملہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اس فیصلے کا تعلق پاکستان کی داخلی سیاست سے ہے یا بین الاقوامی سیاست سے۔ اس پہلو پر اب غور کیا جانا چاہیے ۔ اس فکری مشق کی سب سے زیادہ ضرورت خود تحریک انصاف کو ہے ۔ کیا پی ٹی آئی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت سے کچھ ریلیف چاہتی ہے یا وہ مغربی قوتوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ اس یوریشین فورم کے مقابل اگر اسے کسی حلیف کی ضرورت ہے تو وہ تحریک انصاف کی شکل میں موجود ہے۔تحریک انصاف کے اندر بھی اس پہلو پر غور ہونا چاہیے کہ جب بھی کوئی اہم مہمان پاکستا ن آرہا ہوتاہے تو تحریک انصاف سڑکوں پر کیوں ہوتی ہے۔