شہیدوں کا سفید پوش گھرانہ
سعدیہ قریشی
کراچی کے ایک گنجان آباد علاقے میں جہاں گلیاں تنگ و تاریک اور گھر چھوٹے اور خستہ حال ہوتے ہیں۔ وہاں ایک گھر ایسا ہے جو شہیدوں کا گھرانہ کہلاتا ہے اور ہم شاید اس گھر کی عظیم قربانیوں سے بے خبر بھی رہتے کہ کل اس گھر کے ایک بیٹے نے اس وطن پر اپنی جان قربان کی۔ کانسٹیبل محمد عامر خان جو جمعہ کے روز چین کے قونصل خانے پر ہونے والے حملے میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں شہید ہوا۔ وہ اس گھر کا بہادر بیٹا تھا۔ اس سے پہلے اس کے بھائی اور بھتیجا بھی مادر وطن پر اپنی جان نچھاور کر چکے ہیں۔ کل جب یہ خبر آئی تو ٹی وی چینلز سب سے پہلے کی دوڑ میں شریک بھاگم بھاگ کانسٹیبل عامر خان کے گھر پر پہنچے جس گھر کے تین جوانوں نے وطن کی حفاظت اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں اپنی جان نچھاور کر دی ہو اس گھر کی خستہ حالی کا یہ عالم تھا کہ شہید کا پرسا دینے کے لیے آنے والوں کو غالباً گھر کے اندر بٹھانے کی گنجائش نہیں تھی اس لئے پرسا دینے والے شہیدوں کے گھر باہر خستہ حال سیڑھیوں پر بیٹھے تھے اور گلی میں کھڑے کھڑے شہید گھرانے کی لازوال قربانیوں پر دکھ اور فخر کے جذبات میں ڈوبے ہوئے تھے۔ بہادر سپاہی عامر خان کا بڑا بھائی عجب خان اپنے گھر کے تیسرے بیٹے کی شہادت پر غم زدہ بھی تھا اور اس کی آنکھوں میں اپنے بہادر بھائیوں اور بھتیجے کی بہادرانہ شہادت پر فخر کے جذبات بھی جھلکتے تھے لیکن میں نے جو کچھ خبر میں اور فوٹیج میں دیکھا وہ یہی تھا کہ ایک خستہ حال گلی ہے‘ ٹوٹی پھوٹی سیڑھیاں‘ ایک دروازہ ہے جو اس گھر کے اندر کی جانب کھلتا ہے۔ جہاں اس گھر میں شہیدوں کی بیوائیں ہوں گی‘ ان کی اولادیں ہوں گی۔ گھر کے اندر کا منظر محض تصوراتی ہے۔ مجھے تو حیرت اور افسوس اس بات پر ہے کہ تاریک راہوں میں مارے جانیوالے وطن کے ان گمنام سپاہیوں کی شہادت کا احترام ریاست اور قوم کے دل میں کتنا ہے۔ جس گھر کے تین بیٹے اس وطن پر قربان ہو گئے ہوں اس گھر کی خستہ حالی دیکھی نہیں جاتی تھی۔ اس کے برعکس اس وطن کو طفیلیوں کی طرح چمٹے ہوئے لوگوں کی جائیدادیں اور اثاثے اتنے ہیں کہ شمار میں نہیں آ سکتے۔ اس وطن کو چراہ گاہ کی طرح کھانے والے اور مسلسل نوچنے والے وی آئی پی چوروں ڈاکوئوں کے محلات دنیا بھر کی آسائشوں کے مرکز ہیں۔ آسائشوں اور عیاشیوں کے یہ ٹھکانے ملک سے بیرون ملک تک پھیلے ہوئے ہیں اور ایک کانسٹیبل محمد عامر خان ہے چند ہزار تنخواہ کے عوض وہ روز خوف وہشت اور بے یقینی کی کیفیات سے گزرتا ہو گا۔ کہنے کو محاذ پر لیکن صورت حال کیا کسی محاذ سے کم ہے کہ فرائض منصبی اس نوعیت کے ہیں کہ کسی بھی لمحے بے چہرہ دشمن کا خطرہ ہے اور شدید خطرے اس ماحول میں کانسٹیبل محمد عامر خان کی ڈیوٹی ایسی تھی کہ وہ سکیورٹی کے پہلے دائرے پر دوسرے ساتھیوں کے ساتھ روزانہ جان ہتھیلی پر رکھے۔ صبح سے شام تک اور پھر ایک روز اس نے جان کا یہ بوجھ اتار ہی دیا۔ بہادری سے آنے والے دہشت گردوں کو اپنی جان پر کھیل کر روکا‘ اس کے ہمراہ اے ایس آئی بھی بہادری سے شہید ہوئے۔میں نہیں جانتی کہ کانسٹیبل عامر خان کی والدہ حیات ہیں یا نہیں مگر خبر سے یہ ضرور پتہ لگا ہے کہ اس کی نوجوان بیوہ ہے۔ اور اس کا دو ماہ کا بیٹا ہے جس گھر کے پہلے دو شہ جوان پولیس کی وردیوں میں شہید ہو چکے ہوں اس گھر کے مکین جب کانسٹیبل عامر خان کو روز اس کی نوکری پر رخصت کرتے ہوں گے تو ان کے دل ضرور کسی زرد پتے کی طرح کسی انہونی کے خوف سے لرزتے رہتے ہوں گے اور ایک دن پھر وہ انہونی ہو جاتی ہے۔عامر خان کا بھائی اور بھتیجا ۔ ایس پی اسلم چودھری کے گھر پر دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہوئے تھے۔ ہم جانتے ہیں ایسے ہر سانحے کے بعد حکومتی سطح پر شہید ہونے والے سکیورٹی اہلکاروں کے خاندان کے لیے امداد اور انعام کے لئے اعلانات کئے جاتے ہیں۔ لیکن بعض ایک رسمی کارروائی ہوتی ہے۔ یوں بھی ہمارے یہاں کون فالو اپ کرتا ہے پھر سانحہ خواہ کتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو فالو اپ خبریں کبھی بریکنگ نیوز نہیں بنتی اور ہمارا سارا نیوز سسٹم بریکنگ نیوز کی ڈگڈگی پر چل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی خبروں کا کوئی فالو اپ نہیں ہوتا کہ اعلانات کے مطابق شہید کے خاندان کو عزت اور احترام کے ساتھ رقم ادا کی گئی یا نہیں۔کانسٹیبل عامر خان کے گھر کی حالت زار دیکھ کر تو ایسا بھی اندازہ ہوا۔ عامر خان جیسے ہزاروں سکیورٹی اہلکار ہیں جنہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں اپنی متاع جاں دے کر اپنے فرض کی لاج رکھی اور محمد عامر خان کو پھر خوش قسمت ہے کہ اس کا نام خبر کی لہروں پر چلتا ہوا گھر گھر پہنچا۔ ورنہ تو دہشت گردی کی اس بے چہرہ جنگ میں ایسے ایسے سانحے ہوئے اور ایسی ایسی شہادتیں ہوئیں کہ محض اعداد و شمار میں گنی گئیں تاریک راہوں میں مارے جانے والوں کے نام تک کسی کو معلوم نہ ہوئے ہیں خبر میں یہی ہوتا۔ فلاں حملے میں پانچ سکیورٹی اہلکار شہید فلاں حملے میں سات سکیورٹی اہلکار جاں بحق۔ ایک دن خبر چلی دوسرے دن اخبارات میں شائع ہوئی اور تیسرے دن کسی کو یاد بھی نہیں کہ کوئی گمنام سپاہی ایسا تھا جو فرض کے راستے میں پیچھے نہیں ہٹا۔ یہاں تک کہ اپنی قیمتی متاع بھی فرض پر نچھاور کر دی۔پھر اس کے بعد کی کہانی میں کسی کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے کہ اس گمنام سپاہی کے گھر والوں پر کیا بیتی۔ بادشاہ وقت نے وقتی اعلان سے بیوائوں اور یتیموں کو بہلایا تو سہی لیکن عملی طور پر شہید کے پیچھے رہ جانے والوں کی بہبود ۔ اس کے بچوں کی تعلیم کے لیے کیا اقدامات کئے۔ اس کے ادارے نے اپنی ذمہ داری کہاں تک ادا کی؟ریاست نے اس کے خاندان کی خبر خواہی کا فرض کیوں بھلا دیا؟ آج کا یہ کالم صرف اس ایک فوٹیج کو دیکھ کر لکھا گیا جس میں چینل کی نیوز اینکر ایک جانب عقیدت سے بھرے ہوئے لہجے میں بار بار صدا لگاتی تھی کہ کانسٹیبل محمد عامر خان کا گھرانہ شہیدوں کا گھرانہ ہے۔ اس گھر کے دو اور بیٹوں نے بھی فرائض کی ادائیگی میں اپنی جان وطن پر نچھاور کی اور دوسری جانب شہیدوں کے گھرانے کی تصویر سکرین پر چلتی تھی۔کراچی کے گنجان آباد علاقے کی تنگ و تاریک گلیاں اور گھر جو شہر کے پوش علاقوں میں چمکتے دمکتے بنگلوں اور کوٹھیوں کے مقابلے میں بہت ہی خستہ حال تھا۔ شہید کا پرسہ دینے کے لیے آنے والے غمزدوں کو گھر کے اندر بٹھانے کی جگہ نہ تھی۔ سو لوگ گلی میں کھڑے کھڑے اس گھر کے تیسرے شہید کی بہادرانہ شہادت کا پرسہ دیتے تھے۔ اس کے برعکس اس ملک کو لوٹ کر کھا جانے والوں کے نہ ختم ہونے والے اثاثے اور محلات ‘ آسائشیں‘ آرائشیں اور غائشیں!میں یہ سب دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ آج کا دن ہے کہ شہیدوں کا یہ سفید پوش گھرانہ خبر کی زینت بنا ہے۔ آنے والے دنوں کا سورج قوم کی یادداشت سے یہ قربانی بھی محو کر دے گا۔ پھر کِسے یاد رہے گا کہ کراچی کے گنجان آباد علاقے میں شہیدوں کا ایک سفید پوش گھرانہ بھی ہے۔