صوبائی سیرتؐ کانفرنس
سعد الله شاہ
گزشتہ نصف صدی سے، ماہ ِ ربیع الاوّل میں سرکاری سطح پر سیر تُ النبی ﷺ کانفرنسز کی ترویج کا بابرکت سلسلہ جاری ہے۔ امسال 49 ویں کانفرنس کے لیے وفاقی وزارتِ مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی نے خطبات و مقالات کیلئے، جس موضوع کا انتخاب کیا وہ ’’ریاست کا نظامِ تعلیم۔۔۔سیرتِ طیبہ ؐ کی روشنی میں‘‘ تھا۔ زیرِنظر موضوع پر قومی سیرت کانفرنس سے متصل، صوبائی اور زونل سیرت کانفرنسز کے اہتمام و انعقاد کا اعزاز صوبے کی اوقاف و مذہبی امور کی وزارتوں کو جاتا ہے، جس کیساتھ صوبائی سطح پر مقابلہ کتبِ سیرت و نعت بھی منعقد ہوتا ہے، جس میں گزشتہ اسلامی سال کے اندر اُردو، پنجابی، سرائیکی، عربی اور انگریزی زبان میں لکھی جانے والی کتب اور ان کے مصنفین کو اعزازات و انعامات دیئے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں محکمہ اوقاف کی طر ف سے ایک باقاعدہ اخباری اشتہار کے ذریعے کتب سیرت و نعت کے مصنفین کو اس مقابلے سے مطلع اور مدعو کیا جاتا ہے۔ موصولہ کتب کی ابتدائی سکروٹنی کے لیے ایک نوٹیفائیڈ کمیٹی موجود ہے،جس کے بعد،موصولہ کتب کو منصفین کی اعلیٰ کمیٹی کے پاس ارسال کیا جاتا ہے، جو مذکورہ کیٹگیریز میں اعزازات و انعامات کا تعین کرتی ہے۔ اس سال پنجاب کی صوبائی سیرت کانفرنس منعقدہ16 ستمبر 2024ء بمطابق 11 ربیع الاوّل 1446 ھ (سوموار)، جس میں مہمان ِخصوصی وزیر اعلیٰ پنجاب تھیں، جنہوں نے ججز کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں ڈاکٹرتفسیر عباس کی کتاب'' نبی کریمﷺ بحیثیت داعی اخوت '' کو اُردو سیرت نگاری میں اوّل انعام، سرٹیفکیٹ، سیرت ایوارڈ اور پچاس ہزار روپیہ نقد عطا کیا، جبکہ مجموعہ نعت اُردو میں ڈاکٹر ظفر اقبال نوری کی کتاب ''جمالِ حرف'' اوّل انعام کی حقدار قرار پائی۔اسی طرح سیرتِ طیبہ ﷺ بزبان عربی میں ڈاکٹر محمد اکرم فارانی کی کتاب '' العبادۃ فی سیرۃ المصطفیٰ ﷺ ''، سیرت ِ طیبہﷺبزبان پنجابی میں ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی کتاب '' اسلامی فوج دے پہلے سپہ سالار'' اور مجموعہ ہائے نعت (پنجابی)میں ڈاکٹر محمد مشرف حسین انجم کی کتاب '' خوشبواں دی بارش'' کو اوّل انعام عطا ہو ا۔ اس سال اُردو سیرت نگاری کے مقابلے کے لیے پانچ کتب پیش ہوئیں،پنجابی زبان بشمول سرائیکی میں پانچ کتب، سیرت طیبہ ﷺ غیر ملکی زبان بشمول انگریزی میں ایک اور مجموعہ ہائے نعت اُردو میں 19 کتب موصول ہوئیں۔ محکمہ اوقاف و مذہبی امورپنجاب کے زیر ِ اہتمام منعقدہ یہ عظیم الشان کانفرنس دو سیشن پر مشتمل تھی، جس میں پہلا سیشن خالصتاً علمی و تحقیقی مقالات و خطبات پر مشتمل تھا، جس میں ڈاکٹر محمد سعید شیخ چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف فقہ اینڈ شریعہ، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، ڈاکٹر سیّد محمد سلطان شاہ ڈین فیکلٹی آف اسلامک سٹڈیز جی سی یونیورسٹی لاہور، پروفیسر ٹونی ویلیم انسٹیٹیوٹ آف لینگویجز پنجاب یونیورسٹی لاہور،ڈاکٹر محمد اعجازچیرمین لیڈز یونیورسٹی، الشیخ فضل بن محمد القیروانی تیونسی انٹرنیشنل اسلامک سکالر،ڈاکٹر اصغر مسعودی کلچر ل اٹیچی اسلامیہ جمہوریہ ایران،شیخ عبد اللہ نجیب سالم سربراہ شعبہ تحقیقی انسائیکلوپیڈیا آف فقہ کویت، پروفیسر ڈاکٹر عبد الفتاح عبد الغنی العواری سابق ڈین فیکلٹی آف اصول دین، جامعۃ الازہر مصر،، جبکہ دوسرا سیشن، جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی، میں ڈاکٹر طاہر رضابخاری سیکرٹری/چیف ایڈ منسٹریٹر اوقاف پنجاب نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا، جبکہ خطیب داتاؒ دربار مفتی محمد رمضان سیالوی،چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی مولانا سیّد عبد الخبیر آزاد نے خیالات کا اظہار کیا۔ اعزازات و انعامات اور سیرت ایوارڈز بھی تقسیم ہوئے، اس موقع پر میڈم چیف منسٹر نے نصف گھنٹے پہ محیط ایک وقیع خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ ''نبی آخر الزمانﷺ سے اللہ تعالیٰ نے محبت کی، میرے دادا عاشق رسول تھے، ہماری فیملی میں ربیع الاوّل کے مہینہ کو عزت و احترام اور جشن کی طرح منایا جاتا ہے، ہمارے گھر کو بھی برقی قمقموں سے سجایا اور مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں، یہ دیکھ کر بڑی ہوئی ہوں۔نعت رسول مقبول و عشق رسول کسی کم ظرف و بد بخت کیلئے نہیں ہے، آج کل کے والدین کو کہنا چاہوں گی بچوں کو نبی کریمﷺ کی زندگی کی کہانیاں سنائیں تاکہ ان کو ذہن نشین رہے، ہمارے نبی ﷺکا ذکر آج بھی بلند ہے اور ہمیشہ بلند رہے گا، نبیﷺ کی تعلیم پوری دنیا میں پھیلی،انسانی حقوق کی بنیاد نبی آخر الزمانﷺ نے رکھی، نبیﷺ نے انسانی حقوق کا پہلا منشور دیا، خواتین ہوں یا پسے ہوئے طبقات ہوں، کالے گورے اور غریب و امیر کی تفریق نبی آخر الزمانﷺ نے ختم کر دی، عورت کو جو حقوق اسلام نے د یئے، وہ کسی اور مذہب نے نہیں دیئے، نبی آخر الزمان ﷺنے فاطمہؓ کو دل کا ٹکڑا قرار دیا۔ وہ تو اپنی بیٹی کا کھڑے ہوکر احترام کرتے تھے،کسی کی بیٹی کی شادی ہوتی ہے، اگر کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو معاشرہ اسے تنگ نظری سے دیکھتا یا طعنہ دیتا ہے، جب طلاق یا خلع کے بعد بیٹی واپس لوٹادی جاتی ہے تو اس پر زیادہ حق ہوجاتا ہے،بیٹی کو طعنہ و تذلیل کی جاتی ہے۔ انہیں بوجھ سمجھا جاتا ہے، بیٹیاں سب سے زیادہ قربانیاں دیتی ہیں، بیٹیوں کی تعلیم پر فتوے آرہے ہیں،جو افسوسناک ہیں۔ انہیں تو بیٹوں کی طرح اعلیٰ تعلیم دینی چاہیے، اسلام میں کوئی ایسا شعبہ نہیں جس کیلئے مکمل ضابطہ حیات نہ دیا ہو، ہمارے ملک میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں، ہر بات پر بندوق قتل و غارت و دھمکیاں شروع ہوجاتی ہیں، علماء کرام کی زندگی ایسی ہونی چاہیے، جسے دیکھ کر لوگ اسلام سے محبت کرنا شروع کر دیں، قتل و غارت و نفرتوں سے نہیں محبتوں سے دلوں کو مسخر کیاجاسکتا ہے، مدرسے کے متعلم بچے کو بُری طرح مارا جاتا ہے، جب تشدد زدہ اپنے محلہ یا گھر میں جائے گا تو کیا پیغام دے گا، دین کی تعلیم مار سے نہیں پیارسے ہو گی، حکمرانی عیش و عشرت کی نہیں امتحان کی کرسی ہوتی ہے، اللہ ظالم کیلئے غفورو رحیم نہیں ہے''۔ اسلام آباد میں وفاقی وزیرِ مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی نے کہا کہ" اسلام میں علم حاصل کرنے پر بہت زوردیا گیا ہے، تعلیم حاصل کرنا ہر فرد کیلئے ضروری ہے اور اس کیلئے اقدامات کرنا حکومت کی ذ مہ داری ہے، آج پاکستان میں ہمیں تعلیم کے شعبے میں بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے، تعلیمی ادارے موجود ہیں لیکن تربیت کا فقدان ہے، ملک میں تعلیمی نظام کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے،تعلیم کا نظام سیرت النبی کی روشنی میں مرتب کیا جائے تاکہ ہماری نسلیں نہ صرف علم سے بہرہ مند ہوں بلکہ ان کی تربیت بھی اسلامی اصولوں کے مطابق ہو،مسلمانوں نے بعد کے زمانے میں جو علمی ترقیاں کیں اور جس کے باعث وہ ساری دنیا کے معلم بنے اور ساری دنیا کے لوگ عربی کتب کو پڑھ کر جدید ترین تحقیقات سے آگاہ ہوئے،نبی کریم ﷺ نہ صرف روحانی رہنما ہیں بلکہ ایک مثالی معلم بھی ہیں جن سے ہم نہایت قیمتی سبق حاصل کر سکتے ہیں کہ یکساں تعلیمی نظام کیسا ہونا چاہیے،آج معاشرے میں میرٹ ملے گا لیکن دیانت کا فقدان نظر آئے گا۔ زندگی کے ہر شعبے میں اخلاقیات کا نفاذ کسی بھی معاشرے کے علمی لیول اور نظام تعلیم کی کامیابی کا تعین کرتا ہے کہ جب کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ نہ ہو اور کوئی چیک اینڈ بیلینس نہ ہو پھر عوام کیا کرتی ہے اور ان سے کیسے اعمال سرزد ہوتے ہیں"۔