ضمیر فروشی کیا ہوتی ہے؟
موسیٰ رضا آفندی
میرا گزشتہ کالم ’ضمیر کی اقسام‘ پڑھنے کے بعد میرے ایک نہایت متحرم او ردیرینہ ساتھی رمضان بھٹی نے خواہش ظاہر کی کہ میں ضمیر فروشی کے موضوع پر بھی کچھ لکھوں۔فروش کا مطلب بیچنے والا ۔مرکبات میں جیسے سبزی فروش جبکہ فروشی ایک مونث لفظ ہے ۔ مرکبات میںجیسے میوہ فروشی ۔ دوسرے لفظوں میںفروشی بیچنے کے عمل کو کہتے ہیں۔ اب دنیا میں کیا نہیں بکتا؟ ہر آدمی کچھ نا کچھ بیچ رہا ہوتاہے اور کامیاب انسان اسی کو سمجھا جاتاہے جو اپنا چورن بیچنا جانتا ہو یا جس کا چورن بکتاہو ۔پہلے زمانے میں صرف مادی اشیاء کی خرید وفروخت ہوتی تھی۔ ان مادی اشیاء میں جسم بھی شامل تھے تبھی تو کہتے ہیں کہ سب سے پرانا پیشہ جسم فروشی ہے جس کی ابتداء مندروں سے ہوئی تھی۔ پرانے زمانے میں جن چیزوں کے بیچنے کا تصو ر تک نہیں کیا جا سکتا تھا آج انہی چیزوں کا دھندا سب سے زیادہ عام اور منافع بخش ہے۔ مثلاً پہلے علم نہیں بکتا تھا ۔ ارسطو ، افلاطون اور سقراط نے ساری دنیا میںدنیاوی علم پھیلایا لیکن علم بیچنے پر زہر کا پیالہ پینے کو ترجیح دی۔ دین کی طرف آئیں تو ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر وں میں سے اللہ کا پیغام پہنچانے اور ہدایات کی تبلیغ کی کبھی کسی نبی نے اجرت نہیں مانگی۔ کیوں؟ اس لئے کہ جس چیز کی قیمت لگ جائے وہ اپنی حیثیت اور اہمیت کھودیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید دنیا میںہرقسم کی تحریر بے توقیر ہوچکی ہے۔ جس تحریر سے کروڑوں روپے کمائے جائیں وہ لکھنے والے کی تقدیر تو بدل دیتی ہے لیکن اپنی تاثیر سے عاری ہوجاتی ہے۔یہاں سوال پیدا ہوتاہے کہ کروڑوں روپے کمانے والی تحریر بے تاثیر کیسے ہوسکتی ہے؟ اس لئے کہ صرف دل سے جوبات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پَر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے چونکہ پیسوں اور رقموں کے لئے لکھائی مفاد عامہ کے لئے نہیں ہوتی ہے اس لئے اسے قبولیت عامہ بھی حاصل نہیں ہوتی۔ خرید وفروخت کو تجارت کہتے ہیں۔ تجارت دین اور دنیا دونوں میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ پیشے کے لحاظ سے حضرت دائود ہنرمند یعنی زرہ ساز تھے ، حضرت موسیٰ چرواہا ، حضرت عیسیٰ موچی اور نبیوں کے سردار سرکار دوعالم ؐ تاجر تھے۔ اصولی طور پر سنت کے دلدادہ مسلمانوں کو تاجر ہونا چاہے تھا ،لیکن یہ پیشہ چرواہے نبی کی امت یہود نے اپنا یا اور آج پوری دنیا کی معیشت پرچھائے ہوئے ہیں۔ خریدوفروخت کے جن زریں اصولوں کی حضرت خدیجہؓ کے تجارتی قافلے کی قیادت کرتے ہوئے نبیؐ کریم نے ترویج فرمائی تھی ،جدید ترین بین الاقوامی تجارت ان بنیادی اصولوں سے آج بھی روگردانی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ آدمی اپنی قیمتی اشیاء کیوں بیچتا ہے؟ آدمی اپنی قیمتی اشیاء جن مقاصد کے لئے بھی بیچتا ہے وہ اس کی نظر میں ان قیمتی ترین اشیاء سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی باپ اپنا پلاٹ بیٹی کی رخصتی کے لئے بیچتا ہے تواس کا مطلب ہوا کہ اس کے لئے پلاٹ ثانوی حیثیت کا حامل ہوجاتا ہے۔اگر بیٹے کی بیرونی ملک اعلیٰ تعلیم کے لئے ایک باپ گھر کے زیورات بیچتا ہے تووہ بیٹے کی تعلیم کو زیورات پرترجیح دیتاہے۔ اسی طرح اگرکوئی مجبور ولاچار ماں اپنے بھوک سے بلکتے بچوں کو کھانا کھلانے کے لئے اپنی عزت کا سودا کرتی ہے تو اس کے نزدیک اس کی عزت اسکے بچوں کی بھوک پر بھاری نہیں ہوتی ۔ میںایک خاتون کاقصہ پڑھ رہا تھا جسے جب اُس کا ساتھی تحریکی مہم کے دوران اسے کسی بڑے شخص کا جنسی مطالبہ ماننے سے منع کرتا ہے تو وہ اسے کہتی ہے ۔ ’’کیوں ؟ لوگ انقلاب کے لئے جان قربان کردیتے ہیں۔ تو کیا میںجسم کی قربانی نہیں دے سکتی ؟ ‘‘ اس سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کس بات کو کس بات پر ترجیح دیتا ہے اس کا تعلق اس کی سوچ اورفکر سے ہوتا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ کیا قدیم انسان اور جدید انسان کے خیالات ،نظریات ، خواہشات ،جذبات اوراحساسات اور ترجیحات میںکوئی نمایاں فرق واقع ہوا ہے؟ جوش ملیح آبادی نے اس سوال کا جواب ذرا کھل کے دیا ہے۔ وہی سلسلہ جام وصبو جاری ہے وہی مشغلہ آہ وہو جاری ہے کچھ ایسی ٹکر کھائی ہے حضرت انسا ن سے ادیا ن کے ماتھے سے لہوجاری ہے سلیس اُردو میں کہاجاسکتاہے کہ پتھر کے زمانے کا انسان بھی جان ومال کی حفاظت میںاتنا ہی مگن تھا جتنا آج کا انسان۔ ظلم، زیادتی، بربریت ، قتل وغارتگری اور خوں ریزی پہلے بھی اسی طرح عام تھی جس طرح اب ہے۔ جس طرح پرانی عورت بدترین استحصال کا شکار تھی آج کی جدید ترین اوربیباک عورت بھی اس سے زیاہ نہیں تو کم استحصال کا شکار نہیں ہے۔ پہلے عورت کوٹھے کی زینت تھی اور آج اشتہار کی زینت ہے۔ پہلے مرد ایک آقا کا غلام ہوتا تھا۔آج کا مرد ایک سے زیادہ آقائوںکا غلام ہے۔ پرانے زمانے میںہلاکو خان، چنگیز خان اور سکندر اعظم نے سروں کے مینار لگائے اور بستیوں کو اجاڑاتھا اور اب ہٹلر، اسٹالن، میسولینی ، پول پاٹ کے بعد ان سب کا باپ نیتن یاہو سرعام اور پورے ننگ دھڑنگ سے ان سے زیادہ قتل وغارت گری اور تاخت اور تاراجی کا پوری مہذب دنیا کی پشت پناہی کے ساتھ بڑے اطمینان سے مرتکب ہورہاہے۔ اقوام متحدہ کے مسحور کن ایوانوں کے اندر بھی اُسی نیتن یاہو کا طوطی بولتاہے۔ہر وہ کتاب ،خیال ، نظریہ اور عقیدہ اس وقت تک فضول اور بیکار سمجھا جاتا ہے جب تک روپے، درہم اور ڈالر وں کے لئے مقناطیس نہیں بن جاتے ۔ اس پس منظر کے بعد محترم رمضان بھٹی کی خواہش کے مطابق ضمیر فروشی کو سمجھنا اور سمجھانا نسبتاً آسان ہوجاتاہے۔ جیسے پہلے عرض کیاگیا آدمی اپنی قیمتی چیز اسی وقت اور مقصد کے لئے بیچتاہے جس کا حصو ل بکنے والی جنس سے اُس کے لئے زیادہ قیمتی یا مہنگا ہو ۔ اب اسکا تعلق آدمی کی عقل، ظرف اور اوقات سے ہے کہ وہ کس چیز یا بات کو کس چیز یا بات کی نسبت بہتر یا کم تر سمجھتاہے۔ ایک زمانے میں انگریز نے کشمیر کی ریاست صرف پچھہتر لاکھ روپے میں مہاراجہ ہری سنگ کو بیچی تھی۔ پاکستان نے اومان سے گوادر کی بندرگاہ صرف 30ملین ڈالر میںخریدی تھی ۔ ہم وہ بدنصیب لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا جاتاہے۔ قوم فر و ختندوچی ارزاں فروختند (یعنی قوم بھی بیچی اور کتنی سستی بیچ دی) یہ ایک بین حقیقت ہے کہ جب بھی آدمی کسی بات یا چیز کو ضمیر کی آواز سے زیادہ قیمتی سمجھتا ہے تو ضمیر بیچنے میںدیر نہیں لگاتا بہرحال یہ بات ذہن میںرہے کہ ضمیر صرف آدمی بیچتاہے کوئی انسان ضمیر نہیں بیچتا ۔