ضمیر کی اقسام
موسیٰ رضا آفندی
میں اس وقت لفظ ’’ضمیر ‘‘ کے لغوی معنی بیان کرنا نہیں چاہتا کیونکہ اس سے کنفیویژن پیدا ہوسکتاہے۔ میں لفظ ضمیر کے اُس معنی پر اکتفاکروںگا جو ایک عام آدمی سمجھتا بھی ہواور سمجھانا بھی جانتا ہو۔ عام آدمی ضمیر کو اندر کی آواز سمجھتاہے ۔ آدمی کے اندر کی ایسی آواز جو اُسے اگر برائی سے روک نہیں سکتی تو کم ازکم اسے برائی پر ملامت ضرور کرتی ہے۔ یہ آواز چونکہ باہر سے نہیں آتی یعنی کسی دوسرے شخص سے نہیں آتی اسلئے آدمی اسکا بُرا نہیںمناتا کیونکہ اسے کسی کے آگے سبکی نہیںہوتی۔ چونکہ اعتراض اندر سے ہوتا ہے ، اس لئے اپنی کسی بری یا نازیبا حرکت پر اپنی نظروں میںاگر گرِنہیں جاتا تو کم از کم شرمندہ ضرور ہوتاہے۔ ذات کے اندر کا یہ سارا بحران اور مددجزر آدمی کی ذات تک ہی محدود رہتاہے ۔ اندر کا طوفان اندر ہی رہتا ہے۔ اگر اس کی آواز کی ضرب کاری ہوتو آدمی اپنی اس مخصوص حرکت پر اور کچھ نہیں تو پشیمان ضرور ہوتاہے۔ اگر ضمیر کی آواز پر کوئی کان نا دھرے تو معروضی صورت حالات میںکوئی تبدیلی واقع نہیںہوتی۔کہا جاتا ہے کہ ضمیر کی دوقسمیں ہوتی ہیں۔ ایک زندہ ضمیر اور دوسرا مردہ ضمیر ۔ یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ کسی ڈھیٹ آدمی کو اسکی عموماً اور مسلسل ناروا حرکتوں پر اس کا غائبانہ ذکر کرتے ہوئے کہا جاتاہے کہ اس کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے۔ اگر وہ شخص جھوٹا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ وہ جھوٹ بولنے کا اسقدر عادی ہوچکا ہے کہ اُس کا ضمیر اُسے ملامت ہی نہیںکرتا۔ دوسرے لفظوںمیں اسکا ضمیر مرچکا ہے۔ اس کے برعکس وہ بچہ جو دروازے پر دستک سننے کے بعد باپ کایہ حکم کہ باہر جاکر کہہ دو ابو گھر پر نہیں ہیں، ماننے سے محض اسلئے انکار کرتاہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولے گاتو وہ اپنے اندر زندہ ضمیر رکھنے کا اعلان کرتاہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے آسان الفاظ میں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ زندہ ضمیر وہ ہوتاہے جو کسی بھی قسم کی چھوٹی یابڑی برائی کاارتکاب کرنے سے پہلے آدمی کوروکے اور اگر وہ پھربھی نہ رکے تو اسے ملامت کرتا رہے ، جبکہ مردہ ضمیر وہ ہوتاہے جو برائی کو برائی ہی نہ سمجھے ۔ چھوٹی سے چھوٹی برائی سے لے کر بڑی سے بڑی برائی تک کے ارتکاب کے وقت بے جس رہے ۔ کوئی جنبش نہ کرے ۔ اس طرح رہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ضمیر کے ماخذ کیا ہوتے ہیں؟ ضمیر کے ماخذ وہ ماحولیاتی ، مذہبی ، اخلاقی ،سماجی اور قومیتی احساسات اوررجحانات جو اپنی اچھائیوںاور برائیوں کے حوالے سے آدمی کے ذہین اوردماغ میںراسخ ہوجاتے ہیں۔ ایسی اچھائیوں کی حفاظت اور ایسی برائیوں کا انکار زندہ ضمیر کرتا ہے۔ اسکے برعکس ایک مردہ ضمیرایسی اچھائیوں اور برائیوں کے بارے میںٹس سے مُس نہیں ہوتا۔ اصل بات یہ کہ اس بات کا پتہ کسی اورکو بالکل بھی نہیںچلتا کہ یہ ساری کھچڑی آدمی کے اندر ہی پکتی ہے جس سے کوئی دوسرا آگاہ نہیں ہو پاتا ۔ اس کیفیت کی راحت یااسکا درد وہی جانتاہے جو اسکی کیفیت سے گزرتا ہے۔ انہی ماخذوں کے باعث آدمی پر چندآفاقی حقیقتیں آشکارہوجاتی ہیں جو کسی بھی ضمیر کی معراج بن جاتی ہیں۔ مـثلاً اچھائیوں میںسچ ، جرات ،بیباکی، خلوص، ملنساری، رحمدلی ، سخاوت، صفائی ستھرائی ، شفافیت اور بردباری جبکہ برائیوںمیں ظلم وزیادتی ، جھوٹ اورریاکاری ، دھونس دھاندلی اور بدمعاشی ، کینہ ،بغض اور حسد ، بزدلی ، منافقت اور چوری چکاری کسی ضمیر پہچان بن جاتی ہیں۔ پھر ایک جیسی صورتوں میںلوگوںکاردعمل مختلف کیوںہوتا ہے؟ اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنی نادانی ،کم علمی اور ناتجربہ کاری کے باعث اکثر غلط ملط کردیتے ہیں۔ کبھی حق میں باطل شامل کرکے اور کبھی باطل میں حق کی آمیزش کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ ترتیب وترکیب کے اس انداز سے ضمیر کی ایک تیسری شکل جنم لیتی ہے ۔ایسا ضمیر ہمیشہ پست ترین اور کمزور دلوں میںپروان چڑھتاہے اور لوگوں کی اکثریت کو اجتماعی طور مفلوج اور ناکارہ کریتا ہے ۔ایسے ضمیر والے لوگ پور ے سماج اورمعاشرہ کو تبا ہ وبرباد کردیتے ہیں۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ذات کی اتھا گہرائیوں میںچھپے ہونے کے باوجودآدمی کے اندر ضمیر کی تینوں اقسام آدمی کی گفتگو، حرکات وسکنات ،لب ولہجے کے انداز ، چہرے کے تنائو ، ماتھے کے بل یا ہونٹوں کی مسکراہٹ سے اپنی شناخت کرادیتی ہیں۔ آدمی کے لاکھ چاہنے کے باوجود آدمی کے ضمیر کی تینوں شکلیں اپنی علیحدہ علیحدہ پہچان ٹھیک ٹھیک طریقے سے باہر لانے سے باز نہیں آسکتیں۔ مندرجہ بالا بیان کردہ کیفیتیں اور ضمیر کی جد اجدا شکلیں اس وقت تک پہچانی نہیں جا سکتیں جب تک ہم خود اپنے مشاہدوں میں آنے والے رویوں کا تجزیہ نہ کرلیں ۔ اللہ نے قرآن میںجھوٹے ،منافق اورظالم پر لعنت کی ہے ۔ اس کایہ مطلب ہر گز نہیں کہ جھوٹا ،منافق اور ظالم اگر مسلمان ہے تو وہ اللہ کی اس لعنت سے مبرّا ہے ۔اسلئے کہ ایک ہی وقت میںشیطان کے پیچھے پیچھے رہ کر صراط مستقیم پر نہیں چلا جاسکتا۔ آدمی کو دورنگی چھوڑ کر سراپا خیر یا سراپا شر ہونا ہوتاہے ۔ عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا اس ساری صورت حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑی آسانی کے ساتھ ہم اس نیتجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ اس وقت ہمارے اندر باضمیروں اور بے ضمیروں کی نسبت مضحکہ خیز ضمیر وں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پھر ضمیر کی آواز، خلش یا اطمینان کو کیسے سمجھا جائے؟ اس کا صرف ایک ہی آسان طریقہ ہے ۔ ضمیر کی آواز اگر اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے مطابق ہے تواپنے اندر دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی رکھتی ہے۔ اگر نہیں توا سے سچے اور خالص ضمیر کی آواز سمجھنا ایک خوش فہمی اور غلط فہمی کے سواء کچھ نہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے بدمعاشی اور جرات میں فرق کا سمجھنا ضروری ہوجاتا ہے۔ حق کے لئے بھڑ جانا جرات ہوتی ہے اور باطل کے لئے لڑنا بدمعاشی ہوتی ہے ۔ہم کہاں بدمعاش ہیں اور کہاں جراتمند؟ اس کا فیصلہ ہم نے خود ہی کرنا ہے۔ ٭٭٭٭٭٭