’’عارف نقوی۔ شمیم حنفی اور آخری‘ حسین ‘‘
مستنصر حسین تارڑ
چنانچہ میرے ناول’’اے غزالِ شب‘‘ جس کا انگریزی میں ترجمہ ’’لینن فار سیل‘‘ کے نام سے ہو چکا ہے اس کا مرکزی کردار عارف نقوی ہے جسے میں بہت مدت پہلے برلن میں ملا تھا اور میرا خیال تھا کہ وہ بھی اب تک مر چکا ہو گا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ گیارہویں عالمی اردو کانفرنس کے دوران ایک خوش شکل گورا چٹا بوڑھا ہاتھ پھیلائے میری جانب چلا آ رہا ہے اور کہتا ہے’’تارڑ صاحب‘‘ میں عارف نقوی ہوں۔ میں یقین نہ کر سکا۔ جس شخص کی شخصیت اور حیات کو بنیاد بنا کر آپ اپنے ایک اہم ناول میں اس کا کردار تخلیق کرتے ہیں اور آپ کے گمان میں بھی نہیں کہ نہ صرف وہ زندہ ہے بلکہ آپ کے سامنے کھڑا عینک درست کر رہا ہے۔’’تارڑ صاحب‘‘ میرے کچھ دوستوں نے مجھے بتایا کہ ایک ناول’’اے غزالِ شب‘‘ نام سے شائع ہوا ہے اور لگتا ہے کہ تارڑ صاحب کے ذہن میں آپ کی شخصیت تھی۔ کیا یہ سچ ہے؟ قصہ مختصر عارف نقوی میرے برابر کے کمرے میں فروکش تھے چنانچہ ملاقاتیں مسلسل ہوتی رہیں۔ البتہ میں نے اپنے خصوصی سیشن میں عارف نقوی کو ’’فروخت‘‘ کر دیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے ابتدائی ایام تھے اور میں ڈرامہ نگاری کے علاوہ اداکاری میں بھی جھک مار رہا تھا۔ ٹیلی ویژن کا ڈرامہ کیسے لکھا جاتا تھا کسی کو خبر نہ تھی۔ ریڈیو کے ڈراموں کو ذرا چھیڑ چھاڑ کر ٹیلی ویژن پر پیش کیا جاتا تھا۔ یعنی ہم وہ نومولود تھے جنہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ اپنے پائوں پر کیسے کھڑے ہوتے ہیں تو ہم تجربے کرتے رہتے تھے۔ اکثر کسی حقیقی کردار کو ڈرامے میں ڈھال دیتے تھے۔ تب اکثر سرمد صہبائی کے کمرے میں مختلف ڈرامہ نگار حضرات اپنے آئندہ ڈراموں کے بارے میں ذرا تفصیل سے گفتگو کرتے اور دوسروں کے مشوروں کو بخوشی قبول کرتے۔ مثلاً میں کہتا کہ لکشمی چوک میں جو دال چاول والا بھولا ہے کیا ہی کمال کا کردار ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کی شخصیت اتنی عجیب سی ہے کہ اس پر ایک نصف گھنٹے کا ڈرامہ لکھا جا سکتا ہے۔ اس پر مثلاً منو بھائی کہتے کہ ۔نہ نہ تا تارڑ۔ وہ میں نے اپنے فلاں سیریل میں ’’فروخت‘‘ کر دیا ہے۔ کوئی اور گوالمنڈی کے حاجی۔ کے بارے میں ڈرامہ لکھنے کے بارے میں اعلان کرتا تو سلیم چشتی ہنس کر کہتا۔ اسے میں ’’فروخت‘‘ کر چکا ہوں۔ یوں ہم لوگوں نے کسی ڈرامے میں فیض صاحب کو بھی’’فروخت‘‘ کر دیا۔ چنانچہ اردو کانفرنس میں اپنے سیشن کے دوران عارف نقوی کو بھی فروخت کر دیا۔ اقبال خورشید نے اس سیشن میں میزبانی کا حق ادا کر دیا۔ میری پوری حیات کو کھنگال ڈالا اور نپے تلے سوال کئے۔ اور جب اس نے میرے ناولوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے پوچھا کہ تارڑ صاحب آپ جو کردار تخلیق کرتے ہیں کیا وہ سراسر آپ کے تخیل سے جنم لیتے ہیں یا کہیں نہ کہیں حقیقی زندگی میں بھی وہ موجود ہوتے ہیں۔ اس لمحے میں نے عارف نقوی کو ’’فروخت‘‘ کر دیا اور ہال میں بیٹھے ہوئے اور کھڑے ہوئے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا ؟؟خواتین و حضرات۔ شائد آپ میں سے کچھ نے میرا ناول’’اے غزال شب‘‘ پڑھا ہو۔ اگر پڑھا ہے تو اس کے مرکزی کردار عارف نقوی سے بخوبی واقف ہوں گے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ میرے تصور کا کرشمہ ہے یا کہیں کبھی اس کا وجود تھا۔ یہ محض اتفاق ہے کہ عارف نقوی اس لمحے اس ہال میں موجود ہے۔ اگلی نشستوں پر بیٹھا عینک درست کر رہا ہے۔ آئیے عارف نقوی صاحب اور ثابت کیجئے کہ آپ محض ایک فرضی کردار نہیں۔ ایک حقیقت ہیں۔ عارف نقوی اپنی نشست سے اٹھ کر سٹیج پر آ رہے تھے تو ہال زبردست تالیوں سے گونج اٹھا۔ یعنی عارف نقوی نہائت مہنگے داموں فروخت ہو گیا۔ عارف نے سٹیج پر کھڑے ہوئے کچھ گفتگو کی۔ حیرت کا اظہار کیا کہ میں اب بھی یقین نہیں کر سکتا کہ میں تارڑ صاحب کے ایک اہم ناول کا مرکزی کردار ہوں اور پھر تالیوں کی گونج میں لوٹ گئے۔ سیشن کے آغاز میں نوجوان نقاد ضیاء الحسن نے میری تحریروں کے بارے میں حسب توقع کچھ توصیفی کلمات کہے اور پھر ہندوستان سے اکثر آنے والے میرے قدیمی دوست اور جید نقاد ڈاکٹر شمیم حنفی نے دوستی کے حق سے کچھ زیادہ ہی حق ادا کر دیا۔ انہوں نے خصوصی طور پر میری ابتدائی تحریروں’’فاختہ‘‘ ’’نکلے تری تلاش‘‘ اور ’’پیار کا پہلا شہر‘‘ کے حوالے دیے اور وہ ان زمانوں سے میرے دوست تھے اور ’’غار حرا میں ایک رات‘‘ کے بارے میں قدرے جذباتی ہو گئے۔ آج سے تقریباً پینتیس برس قبل کے ان زمانوں کو یاد کیا جب میں انہیں اپنے سرخ ہونڈا175پر بٹھا کر لاہور میں سیریں کروایا کرتا تھا۔ بلکہ ان دنوں میں ایک سیریل’’ایک حقیقت ایک فسانہ‘‘ کے مرکزی کردار صحافی امجد کے طور پر بہت پہچانا جاتا تھا اور شمیم نے ایک روز شکائت کی کہ تارڑ صاحب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ بعض راہ چلتی خواتین آپ کی جانب بوسے اچھالتی ہیں تو میں نے کہا شمیم خدا کا خوف کرو وہ لپ سٹک درست کر رہی ہوں گی ۔ تمہیں غلط فہمی ہوئی ہو گی۔ لیکن ایک سانحہ ہو گیا۔ شمیم حنفی نے کچھ شاپنگ کرنی تھی اور میں اسے مال روڈ پر واقع ’’پینو راما سنٹر‘‘ لے گیا۔ ہم فارغ ہو کر باہر آئے تو میرے ہونڈا کی نشست پر کم از کم تین چٹیں چسپاں تھیں جن پر کچھ فون نمبر درج تھے اور ایک چٹ پر لپ اسٹک کے نشان تھے۔شمیم حنفی نے کچھ قیاس نہ کیا کہ میں اب اسی برس شائد ہونے کو ہوں۔ بقول کیسے قبر میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھا ہوں تو یوں ماضی کی غلط کاریوں کا کچا چٹھا کھولنا مناسب نہیں اور اس نے کھول دیا اور خلق خدا بے حد خوش ہوئی اور میں شرمندہ‘ شرمندہ! آئندہ میں اپنے کسی فنکشن میں ڈاکٹر شمیم حنفی کو بلانے کا رسک مول نہیں لوں گا۔ کانفرنس کے دوسرے دن’’اردو فنکشن‘ ماضی‘ حال اور مستقبل‘‘ کے عنوان سے ایک بہت بھر پور سیشن ہوا۔ مجلس صدارت کی ایک قطار تھی جس میں اسد محمد خان ‘ مسعود اشعر‘ عامر حسین‘ نور ظہیر‘ علی جاوید کے علاوہ میں بھی کھڑا نہ تھا‘ بیٹھا ہوا تھا۔ اہم نقادوں اور فکشن نگاروں نے تنقیدی مضامین پیش کئے۔ بیشتر ایماندار تھے اور ایک دو نے بے ایمانیاں کیں اور کئی ایسے فکشن نگاروں کا تذکرہ گول کر گئے جن کے بغیر اردو فکشن کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ کوئی اسلم جمشید پوری ہندوستان سے آئے تھے۔ ان کے اپنے ہی رنگ ڈھنگ تھے۔ رنگ زیادہ اور ڈھنگ کم تھے۔ افسانہ نگار اخلاق احمد جن کا میں بہت مداح ہوں ان کا مضمون نہائت دل جمعی سے سنا گیا۔ وہ ایماندار لگتے تھے۔ مجھے ڈینئل جوزف کا مضمون‘ اردو میں خواتین کے گمشدہ سفر نامے‘ بہت پسند آیا۔ ڈینئل جانے کہاں کے تھے بہرطور گورے تھے اور اردو کم از کم اہل کراچی سے تو بہتر بولتے تھے اور ان کا مضمون کسی بھی تعصب سے پاک اور رواں نثر میں تھا جب کہ بیشتر مضمون نگار یبوست زدہ‘ زائد المیعاد تنقیدی اصطلاحات میں الجھے رہے اور لوگوں کو بھی الجھاتے چلے گئے۔ اور ہاں میں بھی کچھ الجھ گیا اور اس سوال کو بھول گیا جو اقبال خورشید نے میرے سیشن میں کیا تھا۔ اس نے گوپی چند نارنگ کے اس بیان کو دہرایا جس کا حوالہ حمیر اشتیاق نے روزنامہ ’’ڈان‘‘ کے ادبی صفحے پر منقول کیا تھا۔ نارنگ صاحب نے کسی زمانے میں جانے کس ترنگ میں آ کر کہا تھا کہ صاحب ہم تو فکشن کے تین حسینوں کو مانتے ہیں۔ انتظار حسین‘ عبداللہ حسین اور ۔اور میں نے تب بھی ویسے لفظوں میں اس بے ادبی پر احتجاج کیا تھا کہ میں اس لائق نہیں کہ ان حسینوں کے ساتھ بٹھایا جائوں۔ فکشن میں مجھ سے بہتر لکھنے والے ہیں۔ اسد محمد خاں۔حسن منظر ‘ انور سجاد‘ الطاف فاطمہ وغیرہ۔ بہر طور اقبال خورشید نے نارنگ کا یہ بیان دہرا کر پوچھا کہ تارڑ صاحب۔ تو میں نے کہا اقبال اوّل تو نارنگ صاحب نے محض قافیہ ردیف کی پابندی کرتے ہوئے مجھے بھی دیگر حسینوں میں شامل کر دیا ہے۔ بے شک تب میں قدرے پر تفاخر ہوا تھا کہ کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ۔ لیکن انتظار اور عبداللہ کی موت کے بعد جس طور میری بے جا پذیرائی ہونے لگی ہے کہ یہ آخری حسین ہے۔ جلدی سے اس کی پذیرائی کر لو‘ یہ مجھے پسند نہیں۔براہ کرم میرے نام کے ساتھ اب فکشن کے کچھ مجھ سے کم عمر ادیبوں کو بھی شامل کر لیجئے تاکہ مجھے کچھ تو ڈھارس ہو کہ ابھی کچھ دن اور ہیں! (جاری) اس شب نہائت متحرک اور شاندار خاکے اور کہانیاں لکھنے والا مختصر عرصے میں ادب میں اپنا مقام بنالینے عرفان جاوید اور وہ میرا پیارا’’ہوم بوائے‘‘ میرا بالڈ ہیڈڈ ایگل میرے کمرے میں چلے آئے اور مجھے اپنی رفاقت سے سرفراز کیا۔ کمرے کی کھڑی سے باہر سمندروں پر چاندی رنگ کے آبی پرندے اڑان کرتے تھے اور کیا یہ میرا واہمہ تھا کہ ان میں سے ایک پرندہ ان سے الگ ہو کر میری کھڑکی میں داخل ہو کر میرے سامنے بیٹھ گیا اور کہنے لگا یہ شہرتیں‘ یہ مداحوں کے ہجوم۔ یہ پذیرائیاں ۔ سب سراب ہیں۔ قبر کی خاک ہیں۔