عالم ارواح سے سابق چیف سیکرٹری کا خط
خاور گھمن
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے بیوروکریسی کے بچو آج تمہاری حرکتوں سے سخت رنجیدہ اور پریشان ہوں۔مجھے اس بات کی تکلیف کھائے جارہی ہے کہ جس پیشے نے ہمیں اتنی عزت دی تھی وہ گالی بنتا جارہا ہے۔پہلے پہل جس بیوروکریسی کو لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اسی کو اب نفرت اور لاقانونیت کی علامت سمجھ رہے ہیں۔ تمہارا کام تو قانون کی پاسداری تھا، تم قانون شکن کیونکر بنتے جارہے ہو۔ نالائقو! لاچار اور کمزور حکومت کی کمزوریوں کا فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ حکومت کی مضبوطی کیلئے کام کرتے ہیں۔حکمرانوں کو بلیک میل نہیں کرتے، انکا ساتھ دیتے ہیں۔تم سے پہلے جب بھی ایسا وقت آیا کہ حکومت کمزور ہوئی، ہم نے ان کو سہارا دیا ۔ نکمو! تم کس کے نقش قدم پر چل پڑے ہو ،بیٹا ہمارے سینئرز نے ہمیں اور میں نے تمہیں ہمیشہ یہی بتایا اور سمجھایا تھا کہ بیوروکریٹ کا چہرہ نہیں اسکا کام نظر آنا چاہئے۔یہ تم کس غلط روش پر چل پڑے ہو ۔میرے بچو ! ذاتی تشہیر سول سروس ایکٹ کی خلاف ورزی اور قابل مواخذہ عمل ہے۔ذاتی تشہیر اختیارات سے تجاوز اور قانون شکنی کے مترادف ہے جس کیلئے تمہیں نہ صرف نوکری سے نکالا جاسکتا ہے بلکہ غیر ذمہ داری اور اختیارات سے تجاوز کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جاسکتا ہے۔دورجدید میں سب مل بانٹ کر کھارہے ہیں۔ شائد اسی لیے تمہیں قانون کا ڈر نہ سہی ، سول سروس کی بے توقیری پر بھی ذرا شرم نہیں آتی۔ میرے نالائق وارثو ! بیوروکریٹ سنجیدہ اور باوقار شخصیت ہوا کرتی تھی۔ یہ تم کیونکر ٹک ٹاکر بنتے جارہے ہو۔ ہم ادب سے محبت کرنے والے ہوتے تھے تم کیونکر رقص کے رسیا اور ہوس کے پچاری بن گئے ہو۔ یہ جو تم نے سرکاری دفاتر میں کیمرے لگاکر معزز شہریوں کی ویڈیوز بنانے والی گھٹیا اور شرمناک حرکتیں کی ہیں اس سے زیادہ لاقانونیت اور زورزبردستی کی مثال کوئی ہوہی نہیں سکتی۔ہمارے دور میں کسی بھی شہری کی ویڈیو بنانے جیسی واہیات حرکت کا تصور نہیں تھا حالانکہ تب تو سائبر کرائم ایکٹ بھی نہیں آیا تھا ۔ابھی تو پیکا ایکٹ کے سیکشن 20کی صورت واضح قانون سازی موجود ہے کہ کسی بھی شہری کی ویڈیو یا تصویر اسکی مرضی کے بغیر بنانے اور سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے والے کو پانچ سال قید اور دس لاکھ روپے تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔پیکا ایکٹ کے باوجود تم لوگ اس قدر دیدہ دلیری کے ساتھ شہریوں کی پرائیویسی سے کھلواڑ کررہے ہو کہ میری روح تک زخمی ہوچکی ہے ۔ تم اس طرح کے غیرقانونی اقدامات کرکے گہری نیند کیسے سو لیتے ہو ؟تمہاری لاقانونیت اور زورزبردستی کے سامنے بے بس عوام کی آہوں نے مردوں کو جگا دیا لیکن تمہارے مردہ ضمیر کیوں نہیں بیدار ہورہے۔ بیٹا تم نے تو قانون کے رکھوالے بننا تھا لیکن میں کیا دیکھ رہا ہوں کہ تم مبہم ،مشکوک ،راڈ لگا کر چھپائی ہوئی حتیٰ کہ بنا نمبر پلیٹ گاڑیاں چلا کر اس وطن عزیز کو نا صرف تماشہ بنا رہے ہو بلکہ دہشتگردوں کی سہولت کاری والا فریضہ بھی ادا کررہے ہو۔تم کیسے ڈی پی او اور ڈی آئی جی ہو کہ اصل فائٹر پولیس فورس رینکرز کواردل روم اور کھلی کچہریوں میں ذلیل کرتے ہو ،انہیں صرف اس لیے معطل اور ڈسمس فرام سروس کرتے ہو کہ بحالی کیلئے لاکھوں روپے لے سکو۔کانسٹیبل کی چھٹی بھی پوری تنخواہ رشوت دے کر ملتی ہے ۔ نالائقو ! تمہیں تو اس بات کی خبر نہیں کہ جن سرکاری دفاتر میں تم بیٹھے ہو ان سمیت پاکستان کے تقریباً 90 فیصد سکول ،کالج اور ہسپتالوں کیلئے جگہ اسی عوام نے دی تھی ۔پرانے بزرگ اپنی زمینوں کے کاغذات ساتھ لیکر سرکار کے پاس آتے تھے کہ یہ زمین ہم تھانے ،کچہری ،سکول اور ہسپتال کیلئے وقف کرتے ہیں ۔ان لوگوں کو تعلیم ،صحت ،قانون اور انصاف کی اتنی قدر تھی کہ اپنی زمین اور کھیت سرکار کے حوالے کردیتے کہ قوم کے بچوں کا مستقبل سنور جائے۔ لاکھوں اور کروڑوں کی قیمتی زمینیں دینے والوں نے تو اپنی کوئی ذاتی تشہیر نہیں کروائی ،کہیں ان کے پوسٹر نہیں لگے۔تم کچھ نہ کرکے ،سرکار سے تنخواہیں ،گاڑیاں اور بنگلے لیکر بھی اپنی ذاتی تشہیر کیلئے ہلکان ہورہے ہو؟ تم اپنے ہاتھوں سے تعلیم اور صحت سمیت دیگر منصوبوں کیلئے مخیر حضرات سے لاکھوں اور کروڑوں کے چیک وصول کرتے ہو اور اس کے بدلے ان کی بس ایک خبر یا پریس ریلیز جاری ہوتی ہے اور بات ختم ۔تم اپنا سرکاری فریضہ جو ٹھیک سے ادا بھی نہیں کررہے اس کام کیلئے کس بات کی ستائش اور ذاتی تشہیر چاہتے ہو۔مجھ سمیت کتنے بیوروکریٹ ہیں جن کو لوگ آج بھی عزت و احترام کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ وجہ صرف قانون کی پاسداری اور انسانیت کی خدمت ہے ۔مگر میرے بچو مجھے دکھ ہورہا ہے کہ تمہاری سیلف پروجیکشن کی جعل سازیوںاور فنکاریوں سے عوام شدید غصے میں اور سخت ناراض ہیں۔ بیوروکریسی کی اکثریت اور پاکستانی عوام اختیارات سے تجاوز اور سیلف پروجیکشن کے اس غیر قانونی کام کو برا سمجھتے ہیں۔تمہیں شاید اس بات کا خمار ہے کہ عوام تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے،حکمران کمزور ہیں اور تم مضبوط لیکن میرے بچو ابھی بھی وقت ہے اس قانون شکنی سے باز آجائو اس سے قبل کہ عدالتی حکم تمہیں جیل کی سلاخوں تک لے جائے۔ عالم ارواح سے جہاں صرف سچ ہی بولا جاسکتا ہے۔ تمہارا خیرخواہ اور سینئر:اب ج ٭٭٭٭٭