عدم تشدد کا عالمی دن
عبداللہ طارق سہیل
گزشتہ روز 2 اکتوبر کو عدم تشدد کا عالمی دن منایا جا رہا تھا تب بھی دنیا میں تشدد کا بازار گرم تھا، اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ اس کی بڑی مثال ہے۔ فلسطین میں آج بھی ظلم، زیادتی اور تشدد کا بازار گرم ہے۔ کشمیری مسلمانوں پر بھی گزشتہ 76 سال سے تشدد ہوتا آرہا ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ اس دن کو منانے کی تجویز جنوری 2004ء میں ایرانی نوبل انعام یافتہ شیریں عبادی نے دی تھی۔ ان کی اس تجویز کو بھارت کی جانب سے اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 15 جون 2007ء کو 2 اکتوبر کو عدم تشدد کا عالمی دن قرار دینے پر ووٹنگ کروائی جسے حمایت ملی اور اقوام متحدہ نے اپنے رکن ممالک کو عدم تشدد کو فروغ دینے کے لیے یہ دن منانے کا فیصلہ کیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ایشیا میں 190، افریقہ میں 200 سے زائد، امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا میں 185 اقوام کو مختلف ممالک کے ریاستی جبروتشدد کا سامنا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ طاقتور ممالک کے کمزور قوموں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے بھری پڑی ہے اور موجودہ دور میں بھی تشدد کا بازار گرم ہے، جس کی سب سے بڑی مثال برما،روہنگیا ہے جہاں مسلمانوں پر انتہا کا ظلم ڈھایا جا رہا ہے۔ اسی طرح عراق، بوسنیا، شام میں مسلمانوں پر تشدد کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ یہ بھی دیکھئے کہ یہ دن بھارت کے سیاسی رہنما مہاتما گاندھی کے یوم پیدائش پر منایا جاتا ہے، جن کی سیاست میں عدم تشدد کے فلسفے کو ہی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل تھی اور تاریخ کے طالبعلم یہ بھی نہیں بھولے کہ گاندھی خود تشدد کی موت کا شکار ہوئے۔ اُس کا جرم یہ تھا کہ گاندھی نے بھوک ہڑتال کر رکھی تھی کہ پاکستان کو اُس کے حصص دیئے جائیں اور ایک مسلم نوجوان جسے جنونی ہندوئوں نے زندہ جلا یا تھا، کے قاتل پکڑے جائیں۔ ہندوستان کے بانی گاندھی کا مطالبہ کیا پورا ہونا تھا خود اُسے ہی راستے سے ہٹا دیا گیا۔ یہ بھی دیکھئے کہ ساری دنیا سے عدم تشدد کا عالمی دن منوانے کے لیے قرارداد پیش کرنے والا بھارت مقبوضہ کشمیر میں بدترین ریاستی تشدد کر رہا ہے۔بھارت میں یہ دن گاندھی جیانتی کے نام سے منایا جاتا ہے تاہم عدم تشدد کا درس دینے والے گاندھی کا بھارت تشدد ترک کر دینے پر ہرگز آمادہ نظر نہیں آتا۔ عدم تشدد کے عالمی دن کو بامقصد بنانے کیلئے ضروری ہے کہ دنیا کے با اثر ممالک صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی اقدامات سے اس دن کو کامیاب بنائیں۔ تشدد پسند ملک و قوم کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ خوف اور دہشت سے لوگوں کے جسموں کو تو غلام بنایا جا سکتا ہے لیکن ان کے دل و دماغ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ عدم تشدد کا یہ فلسفہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور جنگ و جدل سے بھرے اس ماحول کو آج ایک بار پھر عدم تشدد کے فلسفے ہی کے ذریعے امن و آشتی کا نمونہ بنایا جا سکتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں عدم برداشت، تشددپروا ن چڑھ رہا ہے۔ اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک میں مختلف اقوام پر تشدد کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی اپیل پر 2 اکتوبر عدم تشدد کا دن تو منایا جاتا ہے مگر حقیقی طور پر معاملہ اس کے برعکس ہے۔ غریب ممالک پر اقوام متحدہ بھی تشدد ختم نہیں کرا سکا۔ تشدد کے معاملے میں اگر ریسرچ کی جائے تو اس کے ذمہ دار امریکہ،اسرائیل اور بھارت سمیت دنیا کے وہ ممالک نظر آتے ہیں جو خود کو امن کا علمبردار کہتے ہیں۔ تشدد کے ساتھ ساتھ نسلی امتیازات نے بھی عدم تشدد کے فلسفے کو بری طرح پامال کر رکھا ہے۔پوری دنیا میں خواتین اور اقلیتیں تشدد کا شکار نظر آتی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے جن کا کام تشدد، ظلم، زیادتی کو روکنا ہے وہ سب سے زیادہ لاوارث، بے سہارا اور غریب لوگوں پر تشدد کرتے ہیں۔ بااثر جتنا بڑا ڈاکو ہو، اُسے اتنی بڑی رعایت ملتی ہے۔ ان حالات میں عدم تشدد کا عالمی دن دکھاوے کے سواء کچھ نہیں۔ ناجائز طو رپر کسی شخص سے تلخ بات کرنا بھی ذہنی تشدد کے زمرے میں آتی ہے مگر جو کچھ ہمارے ہاں ہو رہا ہے اسے دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ چند دن پہلے کی بات ہے کہ موسیٰ خیل بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو گاڑیوں سے اتار کر شناختی کارڈ چیک کئے گئے۔ سندھ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے افراد کو چھوڑ دیا گیا جن کے پاس پنجاب سے تعلق رکھنے والے اضلاع کے شناختی کارڈ تھے اُنہیں بندوق کی گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ابھی ان کے کفن میلے نہیں ہوئے تھے کہ کوئٹہ سے رحیم یار خان کے نوجوان کی میت آگئی ابھی اُس کی تدفین ہو رہی تھی کہ پنجگور بلوچستان میں سات سرائیکی مزدور جو کہ مزدوری کے بعد مکان میں سوئے ہوئے تھے۔ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ یہ مزدور شجاع آباد کے درکھان تھے۔ شہید ہونیوالوں میں باپ، بیٹا شامل ہیں۔ دو نوجوانوں کی آئندہ ماہ شادی طے تھی۔ ان میں سے ایک نوجوان ایسا تھا جو پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ پورے وسیب میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ سات شہداء کے لواحقین حواس کھو بیٹھے ہیں۔ والدین کومے میں ہیں، مرکزی، صوبائی اور پنجاب حکومت کی طرف سے ابھی تک نہ کوئی نمائندہ تعزیت کیلئے پہنچا ہے اور نہ ہی لواحقین کے ورثاء کی مدد کی گئی ہے۔ دہشت گردی اور تشدد کے بد ترین واقعہ پر حکومتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور لیبر یونینز کی خاموشی عدم تشدد کے عالمی دن کو ناکام بنانے کیلئے کافی ہے۔ ٭٭٭٭٭