2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

عشق ِ رسول ﷺکا داعی

احمد اعجاز
29-09-2024

بزرگوں سے سْنا تھا کہ ’مکہ میں جلال ہے‘ اور ’مدینے میں جمال ہے‘۔ مگر دونوں مقدس مقامات پہ نصیب والے ہی پہنچتے ہیں۔ لاکھوں لوگ مالی وسائل کے باوجود درِ اقدس پہ ماتھا ٹیکنے سے قاصر رہتے ہیں جبکہ کچھ ناداروں کو مدینے سے بلاواآتا ہے اور آنِ واحد میں اْن کی بگڑی سنور جاتی ہے۔ بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ مدینے حاضری اْسی کی ہوتی ہے جِسے وہاں سے بلاوا آتا ہے۔ ایک بار جب بلاوا آجاتا ہے تب مالی وسائل و اسباب خود بخود بن جایا کرتے ہیں۔ بس دعا ہونی چاہئے کہ مدینے سے بلاوا نصیب ہوجائے۔بلاوا ہی کیوں؟ اِس میں بھی رب العزت نے ایک لاجواب حکمت رکھی ہے۔ بطور مسلمان ہم سارے حضورِ پاکﷺکے اْمتی ہیں مگر رسول کریم سے عشق کے اپنے تقاضے ہیں۔ ہر کوئی مسلمان کا دعویٰ تو کرسکتا ہے مگر عشقِ رسولﷺنصیب والے کو نصیب ہوتا ہے۔ ہر عاشق کی ایک نشانی ہے کہ وہ ہر رْکاوٹ سے گْزر کر محبوب تک پہنچ ہی جاتا ہے۔ اسی لیے خدا نے حج کو فرض کیا، کعبے کے گِرد طواف کوفرض کر دیا، لیکن مدینے جانے کو فرض قرار نہیں دیا۔ اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ عبادت میں کمی بیشی کی گنجائش نہیں۔ فرض عبادت آپ کو ہرحال میں ادا کرنی ہے چاہے آپکا دل کرے یا نہ کرے۔ مگر مد ینہ صرف وہی جائے گا جس کا دل کرے گایعنی جسے بلاوا آئے گا، جس کے دل میں عشق کی آگ دہک رہی ہوگی۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک راز کھول کر بیان کردیا ہے کہ اْمّتی کا تعلق مکہ سے ہے، عاشق کا تعلق مدینہ سے ہے۔ عبادت کا تعلق مکہ سے ہے، عشق کا تعلق مدینہ سے ہے۔ اگر بلاوا مدینے سے آئے تو عاشق ِ رسول ﷺ کے من کی مراد پوری ہوجاتی ہے۔ جس کی روضہ ِ رسول ﷺپہ حاضری ہوجائے پھر اْس عاشق کومحبوب دو جہاں ﷺسے جو عطا ہوتا ہے و ہ اِس جہاں اور اْس جہاں کیلئے کافی ہے۔ ڈاکٹر خلیل احمد نے بتلایا کہ بہاولپور سے قریباََ اَسی کلومیٹر حاصل پور کی جانب ایک عاشق ِ رسول ﷺ رہتا ہے جس کی حضورﷺ سے محبت کا یہ سماں ہے کہ مدینے والے نے اْنہیں وہ کچھ عطا کررکھا ہے جو بڑے بڑے شاہوں کو نصیب نہیں ہوا۔دل میں آگ دہکنا شروع ہوئی۔ معلوم ہوا وہ مدینے سے قائم پور تشریف لاچکے ہیں۔ قائم پور ’گوشہ ِ حرم ِ دَرْود‘ پہنچے تو پیر عثمان غنی ہماری آمد کے منتظر تھے۔ حال حلیئے سے تو وہ انتہائی سادہ لوح نظر آئے مگر جونہی گوشہِ حرم درود میں قدم رکھا تو دنیا ہی بدل گئی۔ رسولﷺکی نعلین مبارک سلاطین ِ آلِ عثمان کی محبت کے طفیل ایک خوبصورت صندوق میں رکھی ہوئی تھی۔ صندوق کیا تھا کہ ہر کونے سے خوشبو جھوم رہی تھی۔ صندوق پہ کئی سوسال قبل کے یاقوت جڑے ہوئے تھے اور اْس کے اَندر نعلین ِ مبارک رکھی تھی۔ سونے سے بنے ایک اور چھوٹے صندوق میں سرکارِ مدینہ ﷺ کے پاؤں مبارک کانقش پتھر پہ کندہ کیا گیا تھا۔ پیر عثمان غنی نے پھر اْن قندیلوں کی زیارت کروائی جو روضہ ِ رسولﷺ کے اندر لٹکائی جاتی ہیں۔ انہوں نے بتلایا کہ ہر قندیل چالیس سال تک روضہ ِ رسولﷺکے اندر لٹکی رہتی ہے۔ دو سو سال پرانی قندیلیوں پہ نظر پڑی جن پر عثمانی سلطانوں نے سونے کی تاروں سے آیت ِ کریمہ کندہ کرائی ہوئی تھیں۔ اْن قندیلوں پر مہر ِ آلِ عثمان بھی بنائی گئی تھی۔ پیر عثمان نے اْس گوشہ میں کعبہ شریف کے مختلف اَدوار کے غلاف بھی سنبھال رکھے ہیں۔ کعبہ شریف کے بڑے دروازے پہ لٹکے ہوئے غلاف کی بھی زیارت ہوئی۔ غالباََ یہ 2019یا 2020کے سال کا غلاف ہے جس پہ سونے کی تاروں سے کام کیا گیا ہے۔ پیر عثمان کے ’گوشہ ِ حرمِ درود‘ میں اَتنے بڑے خزانے کو دیکھ کر حیرانی ہونے لگی کہ یہ اِنسان کون ہے جس کی سرکارِ مدینہ ﷺ کے ہاں اِس قدر رَسائی ہے؟ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اْنہیں ایک ایسا روحانی وظیفہ عطاکررکھا ہے جس کے طفیل وہ کینسر، دمہ اور دیگر موزی امراض کا علاج بذریعہ قرآنی آیات کرتے ہیں۔ قائم پور میں والد سے منسوب منشی محمد رمضان بحالی معذوراں سنٹر چلارہے ہیں۔ہزاروں لوگ وہاں پر آتے ہیں اور شفاء پاتے ہیں۔ اِس وظیفہ کے سبب اْس سادہ لوح انسان کو دنیا بھر میں VVIPکی طرح خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ پہ سفر کرنے والے اْس انسان کی عظمت کا اعتراف گورنر ِ مکہ سے پوچھئے جو اْن کی آمد کے لئے ہمیشہ متمنی رہتے ہیں۔ یہ ہرمہینے مدینے جاتے ہیں۔ کم از کم دس دن مدینہ میں گزارتے ہیں اور پھر دْکھی انسانیت کی خدمت کے لئے دیگر ملکوں کو نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ مدینہ میں رہتے ہوئے پیر عثمان نے کئی دوست بنائے اور اْن دوستوں کی معاونت سے تین سو زیارتیں دریافت کیں جبکہ اْن میں سے چھیاسٹھ زیارتوں کو ثقافتی ورثہ قرار دلوایا جن میں مزید چالیس ایسی زیارتیں ہیں جہاں اب ٹیکسی ڈرائیور آسانی سے زائرین کو لے جاتا ہے۔ انہوں نے سعودی ولی عہد سلطنت شہزادہ محمد بن سلمان کے قریبی دوست کے ذریعے کوشش کرتے ہوئے تمام زیارتوں کو قومی ثقافتی ورثہ قرار دلوایا تاکہ وہ کسی بھی قسم کی ماحولیاتی یا انسانی نقصان سے محفوظ رہیں۔ساتھ ہی صحابہ کالونی وہ جگہ ہے جہاں آ پﷺ نے حضرت ِ عثمان غنی ؓسے فرمایا کہ وہ پہاڑ کے پتھر پہ وہ تمام حالات و واقعات تحریر کریں جو غزوہ ِ اْحد کے دوران پیش آئے۔ پیر عثمان غنی کو جو تبرکات مکہ و مدینہ سے عطا ہوئیں اِنہوں نے اْن تمام تبرکات کو ایک میوزیم کی شکل میں محفوظ کررکھا ہے۔ اِن کی خواہش ہے کہ یہ تبرکات اْن کی وفات کے بعد پاکستان بھر کے عاشقانِ رسول ﷺکے لئے محفوظ رہیں اس مقصد کیلئے یہ بہاولپور ڈیثرن کے ایک بڑے تعلیمی ادارے کے ساتھ باہمی تعاون کے معاہدہ کرنے کے خواہش مند ہیں تاکہ لائبریر ی یا کسی گوشہ کی صورت میں یہ تمام تبرکات میوزیم کے اندر محفوظ رہیں۔ واپسی پر اْنہوں نے غلاف ِ کعبہ کے تبرکات پیش کئے۔