2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

عظیم لوگ

سعد الله شاہ
18-12-2018

میں اکیلا تھا اور تنہا تھا شہر لایا ہوں اک خرابوں میں میں صبح صادق کی باتیں سنتا جاتا تھا‘ وہ وقاص احمد کے لئے رطب اللسان تھا۔ اس کی باتوں پر مجھے حیرت ہوئی کہ ایک شخص جو تقریباً مفلوج ہو وہ اپنی ناک کی نوک سے کی پیڈ کیسے استعمال کر سکتا ہے۔ یہی نہیں اس کی ذہانت اور فطانت کا بھی تذکرہ ہوا کہ وہ پلینر Plainerبھی ہے۔ خود تو وہ حرکت کرنے سے قاصر ہے مگر اس کے ذہن رسا نے کتنے ہی نارمل لوگوں کو کام پر لگا رکھا ہے۔ اس کے دوست اس کی جرابیں تک خود بدلتے ہیں اور اس کی خدمت پر مامور ہیں۔ اس نے ایک تنظیم Peace to Life بنا رکھی ہے۔ مجھے تو نام بھی اچھا لگا۔ ہاتھوں کی جنبش کے بغیر علم بلند کرنا کرامت ہی ہے۔ اس نے مغرور لوگوں کو آسانیاں فراہم کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔ وہ بہت پیارا ہے۔ مجھے ایسے ملا جیسے کب سے ہم ایک دوسرے کے شناسا ہیں۔ اس کے دوست اسے پاکستان کا سٹیفن ہائن بھی کہتے ہیں۔ پیس ٹو لائف فائونڈیشن کا آغاز بنیادی طور پر معذور و مستحق افراد کو وہیل چیئرز دینے سے صرف پچاس روپے سے ہوا۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے یہ معذور طالب علم وقاص احمد نے دوران تعلیم اس مقدس کام کی بنیاد رکھی۔ پھر طلباء اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کار خیر میں وہ وقاص کے ہمرکاب ہو گئے۔ آج وہی پیس ٹو لائف فائونڈیشن معذور افراد کے لئے ’’چشمہ آب حیات‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ پروگرام میں پہنچ کر تو میں حیران ہی رہ گیا ایک میلے کا سا سماں تھا۔ معذور جو اپنی وہیل چیئر پر ادھر سے ادھر جاتے نظر آ رہے تھے ان کے چہروں پر بشاشت اور خوشی تھی۔ گویا لوگوں کی دی ہوئی اہمیت نے ان پر احساس معذوری کو یکسر ختم کر دیا تھا۔ مجھے بھی سٹیج پر دو سرداروں کے ساتھ بٹھایا گیا جو ننکانہ صاحب سے آئے تھے۔ ایک ان میں اسد صاحب حکیم بھی تھے۔وہیل چیئر کے آغاز سے مجھے جناب لخت حسین شاہ بھی یاد آئے کہ ان کی انٹرنیشنل تنظیم Muslim Handsکا آغاز بھی ایک وہیل چیئر سے ہوا تھا جس کا مطالبہ منو بھائی نے اپنے کالم میں ایک معذور شخص کے لئے کیا تھا۔ کالم کو پڑھ کر سعید صاحب نے وہیل چیئر برطانیہ سے بھیجی بس پھر یوں سمجھئے کہ سید صاحب کی قبولیت اور باریابی تھی اور آج یہ مسلم ہینڈز کتنے ہی ملکوں میں معذوروں اور ضرورت مندوں کی دستگیری کر رہی ہے شاہ صاحب خود بھی خوبصورت ہیں اور ان کا عمل ان سے بھی زیادہ اب آتے ہیں وقاص احمد کی طرف ‘ وہ سٹیج پر پورے پروگرام کو ہینڈل کر رہا تھا۔ یگانہ یاد آ گیا: بات ادھوری مگر اثر دونا اچھی لکنت زبان میں آئی وقاص میں بلا کا اعتماد ہے۔ وہ بڑی خوش مزاجی سے سب کے ساتھ مخاطب تھااور ہنسی مذاق بھی کر رہا تھا۔ بس اسی کو زندگی کہتے ہیں۔ وہی جو حضرت واصف علی واصف نے کہا کہ ’’خوش قسمت وہ ہے جو اپنے مقدر پر خوش ہو‘‘۔ وقاص احمد تو معذور نہیں کہ اس نے اپنے ساتھ لوگوں کو جوڑ کر ایک کارواں بنا لیا ہے جو زندگی کی خوشیاں بانٹتا ہے۔ معذوروں کو نہ صرف وہیل چیئر دی جاتی ہیں بلکہ ان کے لئے مزید کئی مراعات کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ عاکفہ سعید‘ عقصہ جمال‘ فیصل اعجاز(صدر) زیڈ اے رحمن اور دوسرے کئی نوجوان شریک کار ہیں اور خیر کے اس کام کو آگے بڑھا رہے ہیں۔پیس ٹو لائف نے کئی کارہائے نمایاں سر انجام دئیے ہیں۔ نومبر 2016ء میں اندرون شہر کے لئے بھاٹی گیٹ لاہور میں فری میڈیکل ڈسپنری قائم کی۔30 روپے کی پرچی پر 18000ہزار سے زائد مریض مفت ادویات حاصل کر چکے ہیں۔ سالانہ اخراجات چودہ لاکھ پچاس ہزار 14,50,000ہیں۔ اس طرح ووکیشنل سنٹر کا قیام 6مارچ 2015ء کو ہوا۔ وہاں خواتین کو سلائی مشینیں بھی دی گئیں۔ سالانہ اخراجات 600000 روپے سے زائد ہیں۔ میں تو سب کچھ جان کر حیران رہ گیا کہ کام تو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ اپنی زندگی تو سبھی جیتے ہیں اور پوری خود غرضی سے جیتے ہیں۔ اصل بڑاپن اور عظمت تو دوسروں کے لئے جینا ہے۔ وہی جو راجندر سنگھ بیدی نے کہا تھا۔ ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ ایک ہم ہیں کہ شعر لکھ لکھ کر صفحات کالے کرتے رہتے ہیں اور کالم لکھ لکھ کر بھاشن دیتے رہتے ہیں عمل کرنا تو کوئی وقاص احمد سے سیکھے۔ وقاص نے کتنے ہی معذوروں کو احساس محرومی سے باہر نکال کر زندگی سے ہم آہنگ کیا: نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے مزہ تو تب ہے کہ گرتے کو تھام لے ساقی 1500سے زائد معذوروں کو پیس ٹو لائف فائونڈیشن وہیل چیئر فراہم کر چکی ہے۔ مزے کی بات یہ کہ اس تنظیم کے لئے کوئی غیر ملکی یا حکومتی مدد شامل حال نہیں۔ اس کے ممبران پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ دنیا اچھے لوگوں سے چل رہی ہے یہی لوگ اس زمین کا حسن ہیں وہ جو ناصر کاظمی نے کہا تھا: یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا زمین کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے میں سمجھتا ہوں ابھی وقاص احمد جیسے خوش گمان اور باضمیر لوگ موجود ہیں جنہوں نے اپنی معذوری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔میں شکر گزار ہوں اپنے دوست جنید اکرم کا جنہوں نے سفارش کی کہ میں ان سپیشل بچوں کے پروگرام کے لئے وقت دوں۔ یہ تو میرے لیے اچھا ہوا کہ میں نے وہاں سے بہت کچھ سیکھا اور بے بے بسی کو ہنستے گاتے سنا یہ سب لوگ قابل تعظیم ہیں۔ مثلاً غزالی ٹرسٹ کے سید عامر جعفری بھی اس ضمن میں بہت کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس خیر کے کام کو اتنا پھیلا دیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ اگلے روز نور الہدیٰ مجھے بتا رہے تھے کہ بچوں کی تعداد جن میں غریب لاچار اور معذور بھی ہیں لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ زیادہ تر مفت تعلیم ہی دی جا رہی ہے۔ کبھی ان کے سکولوں کا وزٹ کروں گا تو تفصیل سے لکھوں گا۔ آخر میں دو شعر: ایک جگنو ہی سہی ایک ستارا ہی سہی شب تیرہ میں اجالوں کا اشارہ ہی سہی اک نہ اک روز اتر جائیں گے ہم موجوں میں اک سمندر نہ سہی اس کا کنارا ہی سہی