عقل؛ علم ؛ عشق اور اقبال
عمر قاضی
علامہ تو بہت ہیں مگر اقبال ایک ہیں۔ وہ اقبال جو پورے برصغیر میں بڑی عزت اور بڑے احترام کے ساتھ پہچانے جاتے ہیں۔ اقبال ایک ایسے آفتاب ہیں جو روشنی کے حوالے سے ہر اس ملک میں چمک رہے ہیں جہاں اردو اور فارسی سمجھی جاتی ہے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے جو لوگ بہت زیاد ہ جانے جاتے ہیں ان کے بارے میں لوگ بہت کم جانتے ہیں۔ قائد اعظم کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ قائد اعظم کے بارے میں اس ملک کے لوگوں کی معلومات بہت تھوڑی ہیں۔ اگر اس ملک کے عوام قائد اعظم سے آگاہ ہوتے تو وہ ان مجرم صفت سیاستدانوں کو ووٹ نہ دیتے جنہوں نے سیاست کو کاروبار بنا دیا ہے۔ قائد اعظم کرپشن کے کتنے مخالف تھے؟ اور ان کی تصویر والے نوٹ آج کل جعلی اکاؤنٹس میں بھرے پڑے ہیں، یہ المیہ ہے۔ ایسا ہی المیہ علامہ اقبال کے ساتھ بھی ہے۔ علامہ اقبال کے نام سے تو تقریباً سب آگاہ ہیں مگر ان کے کام کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اگر کلام اقبال عام ہوجائے تو اس ملک کی تقدیر بدل جائے۔ کیوں کہ جو جذبہ اقبال کی شاعری میں رواں دواں ہے وہ جذبہ ایک نہیں کئی ملک وجود میں لا سکتا ہے۔اگر مجھ سے ایک بار پھر پوچھا جائے کہ علامہ اقبال کون ہیں؟ تو میں یہ نہیں کہوں گا کہ وہ مفکر اور عالم ہیں۔ میری نظر میں وہ ایک کبھی نہ بجھنے والا شعلہ ہیں،وہ ایک جذبہ ہیں ۔ ایک ایسا جذبہ جو کبھی پرسکون نہیں رہ سکتا۔ خاموشی اور اقبال!؟ یہ دو متضاد الفاظ ہیں۔ ان کے کلام میں ایک مستی ہے۔ ایک جنون ہے۔ ایسی مستی اور ایسا جنون جو صرف اور صرف عشق میں ہوتا ہے۔ مگر یہ وہ عشق نہیں ہے جن کے افسانے رضیہ بٹ کے نام سے مشہور ہوئے۔ جن کے موضوع پر پاکستان اور بھارت میں فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ یہ وہ عشق نہیں ہے جس عشق کی جڑ ہوس میں ہوتی ہے۔ یہ وہ عشق نہیں ہے جو عشق ہمیشہ مانگتا ہے۔ یہ وہ عشق نہیں ہے جس عشق کو بنیاد بنا کر لوگ شادیاں کرتے ہیں۔ یہ عشق وہ عشق نہیں ہے جس پر علم اور عقل طنز کرتے ہیں۔ یہ وہ عشق نہیں جس کے لیے لکھا گیا تھا: ’’کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا‘‘ یہ عشق دماغ کا خلل نہیں۔ یہ عشق وہ عشق ہے جو خوف سے بھرے ہوئے دل میں پیدا نہیں ہوتا۔ یہ وہ عشق ہے جو سولی پر بھی سربلندی سے جاتا ہے۔ یہ وہ عشق ہے جو مقتل میں بھی مسکراتا ہے۔ یہ وہ عشق ہے جس کی نہ کوئی ابتدا ہے اور نہ کوئی انتہا۔ اس لیے اقبال نے لکھا ہے: ’’ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں‘‘ آخر وہ کون سا عشق ہے جس کا تذکرہ اقبال کی شاعری میں بار بار آتا ہے؟ ایسا نہیں کہ اقبال عقل اور سمجھ کی بات نہیں کرتے۔ اقبال بڑے اصرار سے کہتے ہیں: ’’کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ‘‘ علامہ اقبال ایک بڑے پائے کے عالم تھے۔ اس لیے علم کی ان کے دل میں بہت عزت تھی۔ علامہ اقبال کی نثر کو پڑھتے ہوئے تو ایسا لگتا ہے جیسے پوری دنیا کا علم بکھرا ہوا ہے مگر علامہ اقبال جب شاعری کے لیے قلم اٹھاتے ہیں تو عقل شرما کر پیچھے چلی جاتی ہے۔ اقبال کی نظر میں عقل اچھی ہے۔ اقبال علم کو بھی اہم سمجھتے ہیں مگر وہ فرماتے ہیں کہ علم اور عقل سفر ہے۔ علم اور عقل والا انسان مسافر ہے۔ وہ مسافر جس کا ایک پاؤں عقل اور دوسرا پاؤں علم ہے۔ اس مسافر پر لازم ہے کہ وہ مسلسل چلتا رہے۔ کیوں کہ جب علم اور عقل کا سفر ختم ہوتا ہے تب انسان کو عشق کی منزل نصیب ہوتی ہے۔یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اقبال کا عشق علم سے بیگانہ نہیں۔ اقبال کا عشق عقل سے الگ نہیں۔ اقبال کا عشق علم اور عقل کی انتہا پر جنم لیتا ہے۔ یہ وہ عشق ہے جس کی رموز کو نہ تو علم سمجھ سکتا ہے اور نہ عقل۔ اس لیے علامہ اقبال نے لکھا ہے : ’’بے خطر کود پڑا آتش نمردو میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی‘‘ علم اورعقل منطقی طور پر انسان کو آگاہی دیتے ہیں اور اس قسم کی آگاہی انسان کو وہ احتیاط سکھاتی ہے جس کو عشق والے بزدلی سمجھتے ہیں۔ علم اور عقل کا بڑا مرتبہ ہے۔ علم اور عقل پر انگلی اٹھانے اور ان پر تنقید کا تیر چلانے کی اجازت ہر شخص کو حاصل نہیں۔ عشق پر طنز کا تیر صرف عاشق ہی چلاسکتا ہے۔ وہ عاشق جو عقل اور علم کی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے اس منزل پر پہنچ جاتا ہے جس منزل پرجبرائیل کے پر بھی جلتے ہیں۔عشق کی اس بلندی کا ادراک علم والوں کو ہوتا ہے۔ وہ بھی عام علم والوں کو نہیں بلکہ ان علم والوں کو جن کو علم کے دریا کی گہرائی معلوم ہے۔ علم دریا ہے مگر ہر علم نہیں۔ کوئی علم بہت چھوٹی سی جھیل ہوتا ہے۔ کوئی علم آب جو ہوتا ہے۔ کوئی علم چشمہ ہوتا ہے۔ کوئی علم آبشار ہوتا ہے۔ مگر جو علم ان سارے علوم کو آپس میں جوڑ کر دریا بنتا ہے وہ علم اس سمندر میں اتر سکتا ہے جس سمندر کو اقبال عشق کہتے ہیں۔ وہ عشق سمندر ہے۔ وہ عشق ایسا سمندر ہے جو صرف عاشق کے دل میں سما سکتا ہے۔ علامہ اقبال کی صرف ایک جھلک ایلف شفق نے جب The Forty Rules of Love میں پیش کی تو دنیا اس جھلک کی دیوانی ہوگئی۔ اس عشق کو اس سے قبل اس ماڈرن زبان میں پیش نہیں کیا گیا جو دورجدید کے لوگوں کو سمجھ میں آسکتی ہے۔ وہ لوگ شاید زبان سمجھ پائیں اور اس کی معرفت یہ جان پائیں کہ عشق کا بوجھ ان کا سر نہیں اٹھا سکتا۔ اس لیے میر تقی میر نے بھی یہی بات لکھی ہے: ’’میر یہ عشق بھاری پتھر ہے یہ کب تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے‘‘ عشق کا بوجھ اٹھانے والے کندھے اور ہوتے ہیں۔ عشق کے سامنے عقل اور علم کی کوئی مجال نہیں۔ مولانا رومی کی زندگی کا بہت خوبصورت واقعہ ہے کہ وہ ایک بار تحقیق اور تحریر میں مصروف تھے۔ ان کے سامنے شمس تبریزی آکر بیٹھ گئے اور وہ مولانا کی کتابوں کی طرف اشارہ کرتے پوچھنے لگے کہ یہ کیا ہے؟ مولانا نے جواب دیا کہ یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ کہتے ہیں کہ سن کر شمس تبریزی نے مولانا روم کی کتابوں کو اٹھا کر قریب بہتے ہوئے پانی میں پھینک دیا تو مولانا چیخ اٹھے مگر جب شمس تبریزی نے کتابیں پانی سے نکالیں تب وہ مکمل طور پر سوکھی ہوئی تھیں۔ اس بات پر مولانا روم حیران ہوگئے اور انہوں نے شمس تبریزی سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تب شمس تبریزی نے مسکرا کر کہا کہ ’’یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی‘‘ عقل اور علم عشق کو نہیں سمجھ سکتے ۔ جب کہ عشق عقل اور علم کی حیثیت سے آگاہ ہے۔ ہم کب تک علامہ اقبال کے جذبہ عشق کو اس ملک کے نوجوانوں سے دور رکھیں گے؟ علامہ اقبال ان نوجوانوں کے عاشق تھے جن کے حوصلے بلند ہوتے ہیں۔ ہماری قوم کے نوجوانوں کے حوصلے بلند ہیں۔ کاش ہم انہیں عشق کے اس سمندر کے حوالے کردیں۔ عشق کے جس سمندر کا نام علامہ اقبال ہے۔ وہ علامہ اقبال جن کے ہونٹوں پر نوجوانوں کے لیے یہ دعا ہوا کرتی تھی: ’’خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں‘‘ جس دن اس ملک کے نوجوان نسل اور علامہ اقبال کے درمیاں عشق کا رشتہ قائم ہو گا اس دن اس ملک کے سارے درد دور ہوجائیں گے۔