علامہ اقبال اور سرائیکی وسیب
ظہور دھریجہ
مصور پاکستان علامہ اقبال کا 141 واں یوم پیدائش 9 نومبر کو منایا جا رہا ہے ۔ علامہ اقبال کا شمار پاکستان کے مشاہیر میں ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ علامہ اقبال کی زندگی کے وہ گم گشتہ گوشے بھی سامنے لائے جائیں جو گردشِ ایام کی وجہ سے اہل وطن کی نظروں سے اوجھل ہیں ۔ کہنے کو علامہ اقبال پر سینکڑوں کتابیں سامنے آ چکی ہیں اور نصاب میں بھی علامہ اقبال کو پڑھایاجا رہا ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ علامہ اقبال کا سرائیکی وسیب سے بھی تعلق تھا ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ علامہ اقبال کے استاد مرزا ارشد گورگانی کا تعلق ملتان سے تھا۔ علامہ صاحب اپنے استاد کے بے حد قدردان تھے اور ان سے شاعری کی اصلاح لیتے، مرزا ارشد گورگانی کا انتقال 1906ء میں ہوا اور ملتان میں ان کی تدفین ہوئی ۔ ملتان کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ علامہ اقبال نے 1935ء میں اپنا اخبار اقبال کے نام سے جاری کیا ۔ اس کے ایڈیٹر ملتان کے لالہ بالکش بترا تھے ۔ وہ بتاتے تھے کہ جب میں لاہور جاتا تو علامہ اقبال کے لئے ملتان سے آم لیکر جاتا کہ ان کو ملتانی آم بہت پسند تھے ۔ اسی طرح اسد ملتانی اور علامہ اقبال اکٹھے مشاعرے پڑھتے رہے ۔ ملک اسلم میتلا اپنی کتاب ملتان نامہ میں لکھتے ہیں کہ 11 جون 1930ء کو نیازدین کے نام اپنے خط میں علامہ اقبال نے فرمائش کی کہ ملتان سے مجھے کبوتر بھیجے جائیں ۔ ایک تاریخی واقعہ یہ ہے کہ علامہ اقبال اور مولانا حسین احمد مدنی کے درمیان علمی تنازعہ پیدا ہوا ۔ علامہ اقبال مسلمان کیلئے قوم کا لفظ استعمال کرتے تھے جبکہ مولانا حسین احمد مدنی کا موقف تھا کہ قومیں ادیان سے نہیں اوطان سے بنتی ہیں ۔ اس مباحثے نے خاصی طوالت اختیار کی تو اس سلسلے میں ملتان کے علامہ نسیم طالوت نے مصالحانہ کردار ادا کر کے اس تنازعے کو ختم کرایا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے اور قیام پاکستان کے بعد جس شخصیت نے اقبالیات پر سب سے زیادہ کام کیا اور درجنوں کتابیں تصنیف کیں ، اس کا نام جگن ناتھ آزاد ہے اور وہ 5 دسمبر 1918ء کو سرائیکی وسیب کے مردم خیز خطے عیسیٰ خیل ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے ۔ یہ بھی روایت ہے کہ 1947ء کو جگن ناتھ آزاد نے پاکستان کا ترانہ لکھا جو ریڈیو لاہور سے نشر ہوا، اس کے بول تھے ’’ ذرے تیرے ہیں ستاروں سے تابناک ‘ اے سرزمین پاک ، اے سرزمین پاک‘‘ ۔ اسی طرح علامہ اقبال کی نظم ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘ آج بھی ہندوستان کے سکولوں میں دعائیہ نظم کے طور پر پڑھی جاتی ہے۔ اپنے وقت کے دو عظیم شعراء خواجہ فرید (1845-1901) اور علامہ اقبال (1877-1938) کے درمیان ملاقات کا کہیں تذکرہ موجود نہیں لیکن علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال 1990ء کے عشرے میں کوٹ مٹھن تشریف لے گئے اور دربار فرید پر حاضری دی ۔ اس موقع پر انہوں نے فرمایا کہ آخری عمر میں میرے والد کے سرہانے خواجہ فرید کا دیوان ہوتا اور وہ دیوان پڑھتے اور خواجہ فرید کی کافیاں پڑھتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ۔ ایک مرتبہ صوفی غلام مصطفی تبسم نے ذکر کیا کہ علامہ اقبال خواجہ فرید کی شاعری کو بہت پسند کرتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ چاچڑاں جیسے ایک دور افتادہ علاقے میں محدود ہو کر رہے گئے ۔ اگر خواجہ فرید اور علامہ اقبال کی شاعری کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو بہت مماثلت نظر آتی ہے ۔ جیسا کہ خواجہ فرید نے کہا کہ ’’ جو کوئی چاہے فقر فنا کوں ، اپنْے آپ کوں گٖولے ‘‘ ۔ اسی طرح علامہ اقبال نے کہا کہ ’’ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی ، تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن ‘‘ ۔ اسی طرح علامہ صاحب عشق پر اعمال کی بنیاد رکھنے کی بات کی تو خواجہ صاحب نے بھی یہ فرمایا کہ ’’ عشق ہے رہبر مرشد ہادی‘‘ ۔اسی طرح اگر تحقیق کی جائے تو مماثلت کے سینکڑوں حوالے موجود ہیں ۔ علامہ اقبال اور نواب آف بہاول پور کی تعلیمی حوالے سے سوچ مشترک تھی ‘ دونوں زعماء طلبہ کی اعلیٰ تعلیم کے آرزو مند تھے ‘ ریاست بہاول پور کی طرف سے جہاں علی گڑھ سمیت دوسرے تعلیمی اداروں کی مالی مد کی جاتی وہاں علامہ اقبالؒ نواب آف بہاول پور سے لاہور کے علمی ادارے ’’انجمن حمایت اسلام‘‘کیلئے فنڈز حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ لاہور کے دیگر اداروں کی اعانت کی طرف بھی ان کی توجہ مبذول کراتے رہتے تھے چنانچہ سرائیکی ریاست بہاول پور کے فرمانروا سر صادق محمد خان عباسی نے اس وقت جبکہ ریاست میں چار آنے سیر چھوٹا گوشت ملتا تھا ‘ لاہور کے تعلیمی اداروں کو کتنی مقدار میں سالانہ مالی امداد دیتے تھے ؟ اس کا جواب اس تفصیل سے سامنے آتا ہے کہ کنگ ایڈورڈ ایجوکیشن فنڈ ایک لاکھ پچاس ہزار ‘ اسلامیہ کالج لاہور تیس ہزار ‘ انجمن حمایت اسلام و انجمن حمایت اسلامیہ ایک لاکھ سات ہزار ‘ ایچی سن کالج و پنجاب یونیورسٹی چودہ ہزار ‘ انجمن ہلال احمر و ایس ایس پی ایسوسی ایشن چودہ ہزار اور پنجاب مینٹل ہسپتال پانچ ہزار سالانہ ملتے تھے۔سالانہ گرانٹ کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی کا سینٹ بلاک ‘ کنگ ایڈورڈ کالج کا آدھا حصہ (جسے آج بھی بہاول پور حصہ کہا جاتا ہے)‘ ایچی سن کالج لاہور کی شاندار توسیع بھی نواب آف بہاول پور نے کرائی ‘ یہ سب کچھ نواب آف بہاول پور اور علامہ اقبال کی مشترکہ سوچ اور دوستی کا نتیجہ تھا مگر قیام پاکستان کے بعد لاہور کا مقتدر طبقہ اس قدر احسان فراموش اور محسن کش ثابت ہوا کہ آج لاہور میں نہ صرف نواب آف بہاولپور کو بھولے سے یاد نہیں کیا جاتا بلکہ محکمہ تعلیم پنجاب کی کسی نصابی کتاب میں نواب آف بہاول پور کا ذکر نہیں ‘ تخت لاہور کے حکمرانوں نے مملکت خدادا بہاول پور کی خدمات کا صلہ اس طرح بھی دیا کہ بہاول پور کو زبردستی پنجاب میں شامل کرنے کے بعد لوٹ مار کے ریکارڈ توڑ دئیے گئے اور ریاست کی زمینوں کی بندر بانٹ شروع کر دی گئی ‘ 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کے نتیجے میں ریاست کا عظیم دریا ستلج بھارت کو بیچ دیا گیا۔ علامہ اقبال درباری شاعر نہ تھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی کے بہت قدردان تھے ۔ علامہ اقبال نے 5 مئی 1929ء کو نواب آف بہاولپور کے مشیر میجر شمس الدین کو خط لکھا کہ میں شکر گزار ہوں مجھے آپ کا بھیجا ہوا الاؤنس برابر مل رہا ہے۔ اسی طرح 13 مارچ 1928ء کے میجر شمس الدین کے نام علامہ اقبال نے لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ نواب آف بہاولپور کو قانونی مشیر کی ضرورت ہے تو اس کیلئے میں حاضر ہوں ۔ علامہ اقبال کو ریاست بہاولپور سے بہت محبت تھی ‘ انہوں نے ریاست کی شان میں طویل نظم لکھی ‘ جو کہ نواب آف بہاولپور کی جشن تاج پوشی کے موقع پر پڑھی گئی ، نظم کا ایک شعر اس طرح ہے کہ ’’ زندہ ہیں تیرے دم سے عرب کی روائتیں ، اے تاجدار سطوتِ اسلام زندہ باد ‘‘ ۔