علماء سے کوئی اختلاف نہیں ، ہماری شکایت صرف صدر مملکت سے ہے : فضل الرحمٰن
ڈیرہ اسماعیل خان(صباح نیوز)جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مدارس کے حوالے سے جو ایکٹ پاس ہو چکا ہے اس کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے ، ہم نے طے کر لیا ہے کہ معاملات یکسو نہیں کیے گئے تو احتجاج کریں گے ، اسلام جانا پڑا تو جائیں گے ۔جمعرات کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کل سیاست میں مدارس کی رجسٹریشن پر بحث کی جارہی ہے ، دینی مدارس کی رجسٹریشن کے لیے بل حکومت نے تیار کیا تھا، معاملے کو غیر ضروری طورپر الجھا دیاگیا، جنہوں نے علما کو بلایا وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ بل مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے مل کر تیارکیا تو پھر صدرمملکت نے اس بل پردستخط کیوں نہیں کیے ، ہمارا مسئلہ پیپلز پارٹی یا ن لیگ سے نہیں ہے بلکہ صدر مملکت آصف علی زرداری سے ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ وزارت قانون نے مدارس بل کا ڈرافٹ تیارکیا اور ہم نے اس ڈرافٹ کو قبول کرلیا، جس ڈرافٹ کی تیاری میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں شریک تھیں، ہم نے انہی کے ڈرافٹ کو تسلیم اور قبول کیا، اس کے بعد آصف علی زرداری کو اس بل پر اعتراض کرنے کی کیاگنجائش باقی رہ جاتی ہے ۔مولانا فضل الرحمان نے سوال اٹھایا کہ کیا صدرمملکت کے پاس بل کو دوسری بارپارلیمان کوبھیجنے کا اختیار ہے ، کیا بل پردوسری بارصدر مملکت کے دستخط ہونے سے بل خود قانون نہیں بن جاتا؟انہوں نے علما کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ہمارا کسی مدرسے ، مدرسوں کی تنظیم یا علما سے اختلاف نہیں ہے ،ہم نے کوئی غلطی نہیں کی، ہمارا ذمہ دار صرف ایوان صدر ہے ، کیا صدر مملکت پارلیمان سے منظورکردہ بل پر2 مرتبہ اعتراض بھیج سکتا ہے ؟سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ علمائے کرام سے کہنا چاہتا ہوں کہ جن کے اشاروں پر آپ نے محاذ اٹھایا ہے یہی اس سب کے ذمہ دار ہیں، آپ کس کے ساتھ لڑائی لڑ رہے ہیں، ڈی جی ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت بنا ہے ، ہم ایک اس ملکی قانون کے ساتھ وابستہ ہونا چاہتے ہیں جس کے تحت ملکی رفاہی، تعلیمی ادارے ، این جی اوز رجسٹر ہورہے ہیں،صرف دینی مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے سوال کیوں پیدا کیا جارہا ہے ؟مولانا فضل الرحمن نے مزید کہا کہ ہم معاہدے کی اہمیت کا انکار نہیں کرتے لیکن ایکٹ کا مقابلہ نہیں کرسکتا، ایکٹ میں آپ ترمیم لائے جس ہم نے قبول کیا، معاہدے کو توڑا گیا۔ہم نے طے کرلیا ہے کہ بل کا نوٹیفکیشن نہ ہوا تو ہم احتجاج کریں گے ۔انہوں نے اعلان کیا کہ اگر ہمیں اس معاملے پر عدالت جانا پڑا تو عدالت سے رجوع کریں گے پہلے ہم چاہتے ہیں سترہ تاریخ کا مدارس دینیہ کا اجلاس دیکھ لیں اس کے بعد کوئی فیصلہ کریں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان بات چیت ہوتی ہے تو اچھی بات ہے ، یہاں کوئی حکومت نہیں ایک مذاق اور مضحکہ ہے ، ہمارے دیہاتوں میں مسلح لوگ ہیں سب جانتے ہیں وہاں حالات کیا ہیں۔