غامدی صاحب کی خانقاہ
ڈا کٹر طا ہر رضا بخاری
علامہ جاوید غامدی تصوّف و طریقت کے بہت بڑے ناقد رہے، غالبا ً سال 2008ء میں، انہوں نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام کے ذریعے تصوّف کو ''متوازی دین'' قرار دیا تو خانقاہ نشین اور سجادگان و متولیان بے چین ہوگئے، نیشنل مشائخ کونسل نے تو ان کی اس نکتہ چینی پر باقاعدہ احتجاج بھی کیا اور '' تصوّف روح ِ دین '' کے عنوان سے لاہور میں باقاعدہ سیمینار زاور کانفرنسزمنعقدہ ہوئیں۔ مرکز معارف اولیاء داتا دربار سے شائع ہونے والے ریسرچ جرنل '' معارف اولیاء ''نے بھی، اسی ضمن میں اشاعت ِخاص کا اہتمام کیا۔ مقتدر سکالرز، مشائخ اور طبقہء تصوّف و روحانیت مجتمع ہوئے اور غامدی صاحب کا تعاقب فکر ی اور فنی اعتبارسے بھی کیا۔ بہر حال تقریبا ً سولہ سال بعد اب انہوں نے از خود ایک ماڈرن خانقاہ کی بنیاد رکھ دی ہے، جس پر صاحبانِ فکر و فن اپنی اپنی تبصرہ کاریوں اور تجزیہ آرائیوں میں مگن ہیں۔ عمر کے آخری حصّے میں قاضی حسین احمد، معروف روحانی ہستی حضرت میاں میر ؒ کے مزار پر حاضری دیا کرتے تھے، مَیں نے اْن سے ایک مرتبہ پوچھا کہ آپ کی جماعت اور پھر اس کے بانی تو اس بارے میں مختلف خیال کے حامل تھے، انہوں نے جو جواب دیا وہ پھر کسی موقع پر، سرِ دست مجھے پیران ِ پیر کی بارگاہ میں ہدیہ ء عقیدت پیش کرنا ہے، جن کی قطبیت کو تصوّف و طریقت میں ہمہ جہت عروج اور دوام میسر ہے کہ یہ ایام ان کے تذکرے کے حوالے سے خاص جانے جاتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں بغداد علم وعرفان کا مرکز اور فقر و تصوّف کے مسکن کے طور پر ہمیشہ معروف اور معتبر رہا۔ صاحبِ معجم ْالبلدان نے اسے ''سیّدْ البلاد''اور ''اْمّْ الدنیا''کے لقب سے بھی یاد کیا ہے، دجلہ وفرات کی زرخیزیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے، یہ قطعہ اور خطّہ اسلامی تاریخ کی تابناکیوں اور تابداریوں کا مظہر، اسلامی ثقافت وتمدن کا مرکز اور حنفی اور حنبلی فقہ کا مسکن بنا۔ بیتْ الحکم سے لے کر النظامیہ اور المستنصریہ جیسی عظیم دانشگاہیں،اس سر زمین کا طرہء امتیاز بنیں کہ جن کے اثرات پوری بلادِ اسلامیہ کے مدرسہ سسٹم میں آج بھی محسوس ہوتے، اور جن کے سامنے آج کی ہاورڈ اور آکسفورڈ کی تعلیمی چکا چوند ماند پڑتی محسوس ہوتی ہے۔ بغداد… جہاں ایک طرف جہانبانی اور جہانداری کی تاریخ میں نمایاں رہا کہ اس میں ابو جعفر منصور سے لے کر ہارون ومامون کی سطوتِ شاہی کے نقوش ثبت ہیں، وہیں تصوّف وطریقت اور حکمت ومعرفت کے آئمہ نے بھی اس سرزمین کو اپنے وجود کی برکتوں سے معمور کیا، تاہم جس ہستی کے فیضِ وجود سے یہ خطّہ دنیا میں بہت زیادہ ممتاز اور معتبر ہوا، وہ حضرت الشیخ السیّد محی الدین عبدالقادر الجیلانی البغدادیؒ ہیں، کہ جن کے لیے پنجاب کی دھرتی کے عظیم صوفی حضرت سلطان باہوؒ یوں گویا ہوئے: بغداد شہر دی کی نشانی، اْچّیاں لَمّیاں جِیراں ہْو تَن مَن میرا پْرزے پْرزے، جیوں درزی دِیاں لیراں ہْو اینہاں لِیراں دِی گل کفنی پا کے رَلساں سَنگ فقیراں ہْو بغداد شہر دے ٹْکڑے مَنگساں، کرساں مِیراں مِیراں ہْو اسی بغداد میں ''جیلان''کے اتقیا و علماء سے اکتسابِ فیض کے بعد، اٹھارہ سال کی عمرِ مبارک میں، حسنی اور حسینی نسبتوں سے مزیّن اور بیوہ ماں کی آرزوؤں اور امنگوں کے محور کہ جس عظیم المرتبت ماں نے علم کی طلب اور صدق پر استقامت کے وعدے کے ساتھ، اپنی خدمت کے حق کو موقوف اور ممتا کو قربان کرتے ہوئے روزِ محشر ملاقات کا عندیہ دے کر،حصولِ علم کے لیے بغداد روانہ کیا، مولانا جامی کی نفحات الانس میں یہ منظر یوں محفوظ ہے: ''میں نے اپنی والدہ سے کہا، مجھے خدا کے کام میں لگا دیجیے اور اجازت مرحمت کیجیے کہ بغداد جا کر علم میں مشغول ہو جاؤں اور صالحین کی زیارت کروں۔ والدہ رونے لگیں تاہم مجھے سفر کی اجازت دے دی اور مجھ سے عہد لیا کہ تمام احوال میں صدق پر قائم رہوں۔ والدہ مجھے الوداع کہنے کے لیے بیرون خانہ تک آئیں اور فرمانے لگیں: ''تمہاری جدائی، خدا کے راستے میں قبول کرتی ہوں۔ اب قیامت تک تمہیں نہ دیکھ سکوں گی۔۔۔''(نور الدین جامی: نفحات الانس، ص۵۸۷) عجب اتفاق کہ جن ایام میں حضرت الشیخ عبدالقادر الجیلانی ؒ اپنے وجودِ سعید کی برکتوں سے بغداد کو معطر اور منوّر فرمانے آرہے تھے۔ انہی دنوں دنیائے فکر وفن کے امام حجۃْ الاسلام امام غزالی بغداد کو خیر باد کہتے ہوئے دنیا کو اس سمت متوجہ کر رہے تھے کہ علم اگر روح کی شادابی اور نفس کی پاکیزگی کا باعث نہ بنے تو محض ایک فن ہے، علم کو اگر دنیائے انسانیت کی بقا کا ضامن اور فلاحِ آدمیت کا وکیل بننا ہے تو اس کو روح کی بالیدگی کا امین بننا ہوگا۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ اٹھارہ سال کی عمر میں راستوں کے غبار پر صداقتوں کا نور بکھیرتے ہوئے، بغداد میں یوں داخل ہوئے کہ پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بغداد آپ سے منسوب ہوگیا۔ اٹھارہ سال سے لے کر اکیاون سال کی عمر مبارک تک، شاہراہِ علم کا یہ راہی مسلسل اور مستقل محوِ سفر رہا۔ قرآن، حدیث، فقہ، ادب، عروض، صرف و نحو اور فصاحت و بلاغت، یہاں تک کہ ابو سعید المخرمی ؒ سے علم و فقہ اور حکمت ومعرفت کے حصول کے بعد، اکیاون سال کی عمر میں مسندِ علم وحکمت پر متمکن ہو کر، ایک طرف خلائق کی راہنمائی کا وسیلہ بنا اور دوسری طرف اپنی سرفرازیوں اور سربلندیوں کو اس عنوان سے مزیّن کیا۔ دَرَسْتُ الْعِلْمَ حَتّٰی صِرْتُ قُطباً وَنَلْتُ السَّعْدَ مِنْ مَوْلَی الْمَوَالِی "میں علم حاصل کرتا گیا، یہاں تک کہ میں قطبیت کے مقام پر فائز ہوگیا۔ یہ سعادت مجھے اللہ کے دربار سے حاصل ہوئی"۔ ماہِ ربیع الثانی حضرت پیرانِ پیر الشیخ السیّد عبدالقادر الجیلانیؒ کے احوال وافکار سے مزیّن اوربالخصوص آپ سے عقیدت وارادت کے جلوؤں سے معمور ہے، اسی ماہِ کی گیارہ تاریخ حضر ت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے ''یوم وصال''کے طور پر معروف اور اسی نسبت سے ''گیارہویں شریف''کے ختم کے حوالے سے معتبر ہے۔ ہمار ا خطّہ حضرت پیران پیر ؒ کی کرامات سے حظ اٹھانے میں کسی سے پیچھے نہیں، اگر چند دھائیاں پیچھے جائیں تو پنجاب کی ''گیارہویں ''ہمارے دینی اور سماجی کلچر کا ایک مستقل حصہ تھی، اور کسی قدر اب بھی ہے۔ تاہم جدید تناظر میں اس امر کی ضرورت زیادہ شدّت سے محسوس کی جارہی ہے کہ ان جلیل القدر ہستیوں کو کرامات کے کہْر سے نکال کر عملی زندگی کے میزان پر ڈھال کر جدید دنیا اور نسلِ نو کے سامنے پیش کیا جائے۔کرامات اور خوارقِ عادتِ واقعات برحق ہیں،لیکن ان کی شخصیت کے علمی اور تبلیغی پہلوؤں کو اجاگر اور ان کے کردار وعمل کے روشن نقوش سے روشنی اورراہنمائی کشید کیے جانے کا اہتمام کرنا، محض کرامات کے بیان سے زیادہ اہم ہے۔حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں: شیخِ طریقت احکامِ شریعت پر مہارت،علومِ دینیہ پر دسترس، خدمتِ خلق کا خوگر، حلال وحرام سے آگاہ، تہذیب نفس سے آراستہ اور مرید کے احوال کا نگران بن کر اسے راہِ حق پر چلانے کی استعداد کا حامل ہو۔