فلسطین: ہمارا ادیب اور شاعر کہاں ہے؟
آصف محمود
فدوی طوقا ن فلسطینی شاعرہ ہیں ۔ یہ ان کی ڈائری کا ایک ورق ،جس کا ترجمہ محمد کاظم نے کیا تھا اور یہ سنگ میل سے ’ عربی ادب کے مطالعے‘ میں شائع ہوا تھا ۔ معلوم نہیں اب یہ شاعرہ زندہ ہے یا ملبے کا حصہ بن چکی ہے لیکن اس کا درد آج بھی زندہ ہے۔ لکھتی ہیں: ’’آہ بہار! جس کی سانسوں میں شباب کی لپٹ ہوتی ہے۔ میں اپنی رگوں میں زندگی کو سرایت کرتے ہوئے محسوس کرتی ہوں۔ میں ابھی مشوار سے واپس آئی ہوں۔ آسماں پر چودہویں کا چاند تھا اور ہوا میں ہزاروں خوشبووں کی مہک تھی۔میں ابھی اپنی دوست ''ا۔ن'' کو اس کے خط کا جواب دوں گی۔ اس کے خط ہمیشہ موت کے ذکر سے بوجھل ہوتے ہیں۔ میں اُسے اپنے سفرِ مشوار کے متعلق بتائوں گی کہ میں وہاں کھڑے ہوئے کیسے سوچتی تھی کہ اپنے دونوں ہاتھوں میں اس کی مٹی بھر لوں اور اس کی ہوا میں اتنا سانس لوں کہ میری طبیعت سیر ہوجائے اور میں کیسے اس کی پہاڑیوں کو دیکھ کر خواہش کرتی تھی کہ کاش ان میں سے کسی کی چوٹی پر پہنچ کر میری زندگی ختم ہوجائے۔ ایسی جگہ پر موت کتنی مرغوب ہوتی ہے جہاں قبر میں پڑے ہوئے انسان کے جسم سے جنگلی پھول اور بیلیں پھوٹ نکلیں۔ میرا دیس کیسا خوب صورت ہے! یہ کیوں کر ممکن ہے کہ میں اس کے سوا کسی اور زمین پر جان دوں۔ میرے پیارے مہاجر انسانو! یہ کتنا ستم ہے کہ انسان اپنی زمین سے دور کسی اور زمین پر اجنبی بن کر مرے‘‘۔ فدوی طوقان کی ڈائری کا ورق پڑھ کر میں سوچ رہا ہوں کہ غزہ میں انسانی المیے کی بد ترین شکل کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ لیکن ہمارے ادیب گونگے ہو چکے اور ہمارے شاعروں کو سانپ سونگھ گیا۔ نہ کوئی نظم ہے ، نہ کوئی شعر ہے ، نہ کوئی مرثیہ ہے نہ کوئی نوحہ ہے ، نہ کوئی افسانہ ہے ، نہ کوئی کہانی ہے۔ ہم پہلے تو ایسے نہ تھے ۔ ہمارے لوگوں نے خود بھی لکھا اور تراجم بھی کیے ۔ اب کیا ہو گیا ہے؟ انتظار حسین کا افسانہ ’کانا دجال‘ ، پڑھیں تو دل لہو ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں کے سرنڈر کی خبر سن کر بوڑھا دیہاتی جب ٹھنڈی سانس لے کر کہتا ہے: ’جہاں ہمارے حضور ﷺ بلند ہوئے تھے وہاں ہم پست ہو گئے‘‘ تو آنکھیں بھر آتی ہیں۔ اس افسانے کا حسن بیان اپنی مثال آپ ہے ۔انتظار حسین نے شاہکار تخلیق کیا ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے ’اے بنی اسرائیل‘ لکھا اور حق ادا کر دیا۔ ’’اے بنی اسرائیل! یاد رکھو، اس عرب بچی کا سہما دل اور اس کی غمزدہ ماں کی دبی ہوئی آہ تمہارے سر پر کوہ طور سے بھی زیادہ خطرناک پہاڑ کی طرح لٹک رہی ہے، اگرخدا اپنی بات کا سچا ہے تو تم امریکہ اور انگلستان میں دھلے ہوئے سونے اور چاندی کے بچھڑوں کی جس قدر چاہے پوجا کرو لیکن خدا کا جو چکر تمہارے پائوں میں پڑا ہوا ہے اس سے تمہیں نجات نہیں مل سکتی‘‘۔ مظہر الاسلام کا افسانہ ’زمین کا اغوا‘ بھی دل کا درد ہے: ’’یہ علاقہ میرا ہے، یہ زمین میری ہے اور یہ اونٹنی اس قوم کی گواہی دیتی ہے کہ اس نے آج تک اپنے وطن کی سرحدوں سے بغاوت نہیں کی‘‘۔ سمیع آحوجہ نے ’تتلی کا جنم‘ کیا لکھا، لہو رلا دیا۔ باپ گھر کے باغیچے میں بیٹی سے اور بیٹی تتلی سے کھیل رہی ہے اور پھر ایک دھماکہ ہوتا ہے۔ ’’دوڑو دوڑو دریا کی طرف دوڑو میری بیٹی ، ابو میری تتلی؟ ارے پگلی چھوڑ اسے بھاگ۔ وہ پلٹ کر تتلی کے پیچھے گھر کو بھاگی اور اس کے پیچھے بانہیں پھیلائے اس کی ماں۔ ابو ابو مگر میری تتلی اس کے الفاظ ابھی ہونٹوں سے پھوٹے ہی تھے کہ۔۔۔ ایک اور دھماکہ۔ گوشت کے چھوٹے بڑے پارچے، بارود کی بو، مٹی کے غبار،اور ملبے کے ڈھیر میں غرق ہو گئے۔میری بچی‘‘۔ اور پھر قرۃ العین حیدر کا ’یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے‘۔ ’’اے میرے رب میری حفاظت کر، میری نائو چھوٹی سی ہے اور تیرا سمندر بہت بڑا‘‘۔ مستنصر حسین تارڑ کا سفرنامہ ’خانہ بدوش‘۔ درد میں ڈوبا کتنا سرد اختتام تھا اس کا۔ ’’میں سینکڑوں فلسطینیوں سے مل چکا تھا مگر احمد ایک مختلف انسان تھا۔وطن اس کے لیے اغواء شدہ بچہ تھا جو جذباتی ہونے سے نہیں مل سکتا تھا۔ اس کی تلاش میں اس کے نقش نہیں بھولنے تھے اور ایک سرد منصوبہ بندی سے خرکار کیمپ تک پہنچا تھا۔ وہ بچہ احمد ایسے لوگوں کا انتظار کر رہا ہے‘‘۔ اردو شاعری میں فلسطین کا ایک پورا جہاں آباد ہے۔ اقبال ؒ کی نہ صرف نثر بلکہ شاعری میں بھی یہ درد نمایاں ہے۔ اپنی نظم ’فلسطینی عرب سے‘ میں اقبال نے کہا تھا: فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے۔ فیض احمد فیض نے ’سر وادی سینا‘ میں لکھا: یہیں سے اٹھے گا روز محشر، یہیں پہ روزِ حساب ہو گا۔’لاخوف علیھم‘ اور ’کربلائے لبنان‘ فیض احمد فیض کے اسی درد اور کرب کا اظہار ہیں۔ اسرائیل کے ہاتھوں مصر کی شکست پر احمد ندیم نے ’روشنی کی تلاش‘ میں سوال اٹھایا: اب کہاں جائو گے، اے دیدہ ورو۔ فلسطینی مجاہدین کا قتل عام ہوا تو ’اردن‘ کے عنوان سے لکھی نظم میں احمد ندیم قاسمی نے کیا نوحہ لکھا: ’’ہم سب لہو کے اس دشت میں کھڑے سوچتے ہیں جو ہاتھ ہم پہ اٹھے ہمارے ہی ہاتھ تھے مگر ان میں کس کے خنجر تھے‘‘ ابنِ انشاء کی ’دیوارِ گریہ‘ کا تو جواب نہیں۔ سب کچھ ہی اس نظم میں کہہ دیا گیا ہے۔ منظور عارف کی نظم ’آئینے کے داغ‘ میں بیان ہوا وہ کرب: اتنا ٹھنڈا کبھی صحرا تو نہ تھا۔ منظور عارف ہی کی نظم ’قبلہ اول‘ کا وہ اختتام: آتش بازو! کوئی عقیدہ اور نظریہ آگ میں کیسے جل سکتا ہے یہ تو اس میں کندن بن کر اور دمکنے لگتا ہے۔ حبیب جالب کی ’الفتح کے جوانو‘۔ احمد فراز کی ’بیروت‘ سے ٹپکتا وہ درد کہ ’’حرم سراوں میں خوش مقدر شیوخ چپ، بادشاہ چپ ہیں‘‘۔ ضمیر جعفری کی ’لیلی خالد‘، شہزاد احمد کی ’حسین کا سبق‘ کہ ہم کو تو مسجد اقصی بھی ہے قرآں کا ورق۔ محمود شام کی ’بنت اقصی‘، رئیس امروہی کی ’فدیہ‘، زاہد ملک کی ’امڈے سیلاب ذرا ٹھہر!‘، فیروز شاہ کی ’کامران لہو کی بشارتیں‘، بلقیس محمود کی ’پکار‘، سلطان رشک کی ’ضربِ کاری‘، حسن عباس رضا کی ’ابھی علم پھڑ پھڑ ا رہے ہیں‘، احمد شمیم کا ’موت سے پہلے نوحہ‘۔۔۔ شدتِ غم میں محبتوں کی ایک مالا ہی تو پرودی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب ہمارے ادیبوں اور شاعروں کو کیا ہو گیا ہے؟ اتنے بڑے قتل عام سے یہ لاتعلق کیوں؟