قانون سازی اور شہریوں کے تحفظات
حکومت نے قومی اسمبلی میں انسداد دہشت گردی (ترمیمی) بل 2024 پیش کر دیا ہے۔ بل کا مقصد حکومت، مسلح افواج اور سول آرمڈ فورسز از قسم پولیس وغیرہ کو ایسے افراد کو تین ماہ تک حراست میں رکھنے کا اختیار دینا ہے جن کی سرگرمیوں سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے پیش کیا جانے والا بل، انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 11 ای ای ای کو ایک نئے ترمیم شدہ سیکشن کے ساتھ تبدیل کرے گا۔پیش کردہ بل میں سیکشن 11 ای ای ای کے متبادل کے مطابق، ’’حکومت، مسلح افواج یا سول آرمڈ فورسز کسی مصدقہ اطلاع یا کسی شخص کے خلاف معقول شبہ کی موجودگی پر تین ماہ کے لیے نظر بندی کے احکامات جاری کر سکتی ہیں۔‘‘ حکومت کے مطابق موجودہ سکیورٹی کی صورت حال ایک قانونی ردعمل کی متقاضی ہے جو موجودہ قانونی فریم ورک سے باہر ہے اور اس وجہ سے، سیکشن 11 ای ای ای میں ترمیم کی ضرورت ہے تاکہ حکومت، قانون نافذ کرنے والے سول اداروں اور مسلح افواج کو کسی ایسے فرد کو حراست میں لینے کے لئے بااختیار بنایا جائے جو ملک کے لئے سنگین خطرہ ہے۔ اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دہشت گردی کے خلاف مزید موثر کارروائیاں کرنے کے لیے قانونی پشت پناہی بھی حاصل ہوگی۔یہ قانون مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں (JITS) کے استعمال میں سہولت فراہم کرے گا، جو مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ارکان پر مشتمل ہوں گی تاکہ جامع انکوائری اور قابل عمل انٹیلی جنس جمع کر سکیں۔ حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والے ادارے اور شخصیات نئے بل پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس بل میں بنیادی حقوق کے علاوہ ایک طبقاتی امتیاز پیدا کرنے کے اجزا بھی شامل ہیں۔مثال نیب حراست کی مدت نوے دن سے کم کرکے پہلے چودہ دن اور پھر تیس دن کرنا ہے۔ نیب چونکہ دولت مند اشرافیہ کے بد عنوان عناصر کے خلاف کارروائی کرتا ہے اس لئے حراست کی مدت میں کمی کا مطلب اشرافیہ کا اپنے لوگوں کو سہولت پہنچانا نظر آتا ہے۔دوسری طرف قومی اسمبلی میں پیش کردہ حالیہ بل کا استعمال عام شہریوں کے خلاف ہو سکتا ہے۔آئین پاکستان اس سلسلے میں شہریوں کو جو ضمانت فراہم کرتا ہے اس کے الفاظ یوں ہیں: ’’ (1) کوئی بھی قانون، یا کوئی رواج یا استعمال جس میں قانون کی طاقت ہو، جہاں تک وہ اس باب کے عطا کردہ حقوق سے متصادم ہے، اس حد تک، اس طرح کی عدم مطابقت کی حد تک، کالعدم ہو جائے گی۔ (2) ریاست کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی جو اس طرح دیئے گئے حقوق کو چھینتی ہو یا اس میں تخفیف کرتی ہو اور اس شق کی خلاف ورزی میں بنایا گیا کوئی قانون، اس حد تک خلاف ورزی کی حد تک، کالعدم ہو گا۔ (3) اس آرٹیکل کی دفعات ان پر لاگو نہیں ہوں گی:- (a) مسلح افواج، یا پولیس یا ایسی دوسری افواج کے ارکان سے متعلق کوئی قانون جن پر امن عامہ کی بحالی کے لیے ذمہ داری عائد کی گئی ہے، اس مقصد کے لیے کہ ان کے فرائض کی مناسب انجام دہی کو یقینی بنایا جائے یا ان میں نظم و ضبط برقرار رکھا جائے۔ ; یا (ب) میں سے کوئی بھی:- (i) پہلے شیڈول میں متعین قوانین جیسا کہ شروع ہونے والے دن سے فوراً پہلے نافذ العمل ہے یا جیسا کہ اس شیڈول میں بیان کردہ قوانین میں سے کسی میں ترمیم کی گئی ہے۔‘‘ پاکستان میں بنیادی حقوق ملک میں نافذ آئین 1973 میں درج ہیں۔ ان حقوق کو "بنیادی" کہا جاتا ہے کیونکہ یہ جامع ترقی کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں، جس میں مادی، فکری، اخلاقی اور روحانی پہلوؤں کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ ان حقوق کا تحفظ بنیادی قانون کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ان حقوق، خاص طور پر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی صورت میں، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کو ان بنیادی حقوق کے نفاذ اور تحفظ کے لیے متعلقہ آرٹیکلز کے تحت رٹ جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے۔پاکستان میں بنیادی حقوق بنیادی انسانی آزادی ہیں جن کا ہر پاکستانی شہری کو حق حاصل ہے تاکہ وہ اپنی شخصیت اور زندگی کی مناسب اور ہم آہنگ نشوونما کو یقینی بنا سکے۔ یہ حقوق پاکستان کے تمام شہریوں پر ان کی نسل، جائے پیدائش، مذہب، ذات یا جنس سے قطع نظر عالمگیر طور پر لاگو ہوتے ہیں۔ وہ عدالتوں کے ذریعے قانونی طور پر لاگو ہوتے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ سکیورٹی کے حوالے سے پاکستان غیر معمولی صورتحال سے گزر رہا ہے لیکن یہ اس قدر بھیانک نہیں جیسی کچھ سال پہلے تھی۔پورے ملک میں ایک سیاسی ہیجان موجود ہے جو بار بار اٹھ کر معاشی مسائل پیدا کرتا ہے ۔اس حالت میںپراسیکیوشن کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس اور دیگر اداروں کی ناقص تفتیش کے باعث مجرم رہا ہو جاتے ہیں لیکن ذمہ دار عدالت ٹھہرائی جاتی ہے۔تفتیشی نظام ناقص ہونے کے باعث نیا قانون بن بھی گیا تو وہ پولیس کے متعلق شکایات بڑھانے کے سوا کوئی خدمت انجام دیتا نظر نہیں آئے گا۔حکومت اس سلسلے میں عوامی حلقوں کی رائے جانے اور پولیس اصلاحات لائے بنا قانون پاس نہ کرے۔ ٭٭٭٭