قائمہ کمیٹی سینٹ نے سپریم کورٹ ججز کی تعداد25کرنے کی منظوری دیدی، پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس سینٹ میں پیش
اسلام آباد(نیوزایجنسیاں )سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 25کرنے کی منظوری دیدی۔جمعہ کوچیئرمین فاروق ایچ نائیک کی زیر صدارت سینٹ کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف اجلاس میں اکثریتی رائے سے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 25کرنے کی منظوری دی۔ پی ٹی آئی اور جمعیت علما اسلام (ف)نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کی مخالفت کی۔اجلاس میں چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے کہا 25ججز میں ایک چیف جسٹس اور 24ججز شامل ہوں گے ۔پی ٹی آئی کے سینیٹر حامد خان نے کہا ہمیں اس طرح قانون سازی پر اختلاف ہے ، ججز تعیناتی کا ایسا طریقہ کار عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے ، 26ویں ترمیم سے ہم نے عدلیہ کو بہت سخت نقصان پہنچایا ہے ، جب کسی ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں تو ججز کی تعداد بڑھائی جاتی ہے کیونکہ مرضی کے فیصلے نہیں آرہے ہوتے ، آپ بتائیں آپ کی حکومت کیا کرنا چاہ رہی ہے ۔جے یو آئی سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا تعداد بڑھا کر اپنی مرضی کے ججز کو سپریم کورٹ لایا جا رہا ہے ، 25اکتوبر کے بعد اب ججز بہترین انداز سے کام کر رہے ، تعداد بڑھانے کی ضرورت نہیں۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر شہادت اعوان نے کہا سپریم کورٹ ججز کی کم از کم تعداد 21لازمی کرنی چاہیے ۔چیئرمین کمیٹی نے سیکرٹری قانون سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا اگر اخبار بتا سکتا ہے مقدمات کی تعداد 60ہزار ہیں تو آپ کیوں نہیں بتا سکتے ، آپ کو انفارمیشن کیلئے کتنا وقت چاہیے ۔سیکرٹری قانون نے کہا ہمیں کم سے کم بھی تین ہفتے کا وقت دے دیں۔قبل ازیں قائم مقام چیئرمین سیدال خان کی زیرِصدارت سینٹ کا اجلاس ہوا جس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس 2024 ئپیش کردیا گیا۔ ترمیمی آرڈیننس وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں پیش کیا، جس کے بعد اسے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن 2 میں ایک ذیلی شق شامل کی گئی ہے جس کے تحت کمیٹی میں چیف جسٹس کے علاوہ ایک سینئر ترین جج اور ایک چیف جسٹس پاکستان کا نامزد جج شامل ہوگا۔سیکشن 3 کی ذیلی شق 2 کے تحت اور آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت معاملے پر سماعت سے قبل مفادِ عامہ کی وجوہات دینا ہوں گی، آرڈیننس میں سیکشن 7 اے اور 7 بی کو شامل کیا گیا ہے ، 7 اے کے تحت ایسے مقدمات جو پہلے دائر ہوں گے انہیں پہلے سنا جائے گا، اگر کوئی عدالتی بینچ اپنی باری کے برخلاف کیس سنے گا تو اسے اس کی وجوہات دینا ہوں گی۔اس کے علاوہ سیکشن 7 بی کے تحت ہر عدالتی کیس اور اپیل کی ریکارڈنگ ہو گی اور اس کا ٹرانسکرپٹ تیار کیا جائے گا، یہ ٹرانسکرپٹ اور ریکارڈنگ عوام کے لیے دستیاب ہو گی۔وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر عبدالشکور خان نے پوچھا زرعی ترقیاتی بینک کے ملازمین میں بلوچستان کا کتنا کوٹہ ہے ، سب کو معلوم ہے بلوچستان کے ڈومیسائل جعلی بن جاتے ہیں۔وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے جواب دیتے ہوئے کہا پورے میرٹ کے ساتھ ملازمین کی بھرتیاں کی جاتی ہیں، جو خدشات سینیٹر عبدالشکور خان نے بتائے ہیں، میں انہیں لکھ لیتا ہوں، آئندہ بورڈ کے اجلاس میں اس پوائنٹ کو سامنے رکھوں گا۔اجلاس کے دوران وزارت منصوبہ بندی نے ایوان میں پیش کردہ اپنے ایک تحریری جواب میں کہا جنیوا کانفرنس میں 2022 سیلاب کے بعد تعمیر نو کیلئے 10 ارب 96 کروڑ ڈالرکے وعدے کئے گئے ، سندھ کیلئے اعلان کردہ 2186.69 ملین ڈالرمیں سے 948.59 ملین ڈالرخرچ کیے گئے ، بلوچستان کے 494.35 ملین ڈالر میں سے 30.81 ملین ڈالر خرچ کئے گئے ، خیبر پختونخوا کے 554.16 ملین ڈالر میں سے 25.34 ملین ڈالر خرچ کئے گئے ، پنجاب نے تمام 2.8 ملین ڈالر خرچ کئے ۔ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی)کے لیے دیے گئے تمام 223.14 ملین ڈالر مستحقین میں تقسیم کیے گئے ، بلوچستان کی پسماندگی کو دور کرنے کیلئے ہمیں انہیں زیادہ وسائل فراہم کرنا ہوں گے ، بلوچستان میں 130 اربوں روپے کی مختلف منصوبہ رکھے گئے ہیں، ہم بلوچستان میں زیادہ بجٹ مختص کرتے ہیں، عملدرآمد کرنا متعلقہ وزارت کا کام ہوتا ہے ، پی ایس ڈی پی کے حجم میں اضافے کی بجائے کمی ہو رہی ہے ، پی ایس ڈی پی کا بجٹ 12 فیصد سے کم ہو کر 4 فیصد رہ گیا ہے ، وفاقی حکومت کی جیب میں کل دس ہزار ارب آتا ہے ، قرضوں کی ادائیگی بھی دس ہزار ارب روپے ہے ، حکومت کی کوشش ہے ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے ، جب وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم سکڑ جائے گا تو پھر سارے پروجیکٹ انڈر بجٹ ہوں گے ۔سینیٹر ایمل ولی خان نے سوال اٹھایا اس ہائوس کو بتایا جائے 18ویں ترمیم پر کتنا عملدرآمد ہوا ہے ، صوبوں کو کتنے اختیارات دے گئے ہیں، پختونخوا کو کتنا دیا گیا ہے ، اس کی تفصیل دی جائے ۔وزیر منصوبہ بندی نے جواب دیا میں وضاحت کردوں اٹھارویں ترمیم پر کوئی تنقید یا حمایت نہیں کی، صوبوں کی انتظامی صلاحیت کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کیے جائیں، ہمیں چاہیے صوبوں کو لوکل سطح پر طاقتور بنائیں۔ڈپٹی چیئرمین سیدال خان نے کہا کبھی سوال کرنے والے اجلاس سے غیر حاضر ہوتے ہیں اور کبھی وزرا نہیں آتے ، یہ ہائوس آف فیڈریشن ہے ، اجلاس میں کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں، اراکین کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے کہا اکتوبر کے نمبر جو جاری ہوں گے اس میں مہنگائی کی شرح میں کمی آنے کا امکان ہے ، میں ریکارڈ مہیا کر دوں گا، حکومت کو مہنگائی سے متعلق احساس ہے ، حکومت مہنگائی کی تکلیف کو کم کرنے کے لیے ہر ضروری اقدامات کررہی ہے ۔ سینیٹر ذیشان خانزادہ کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے کہاملک میں الیکٹرک گاڑیوں کے حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں،حکومت کی یہ کوشش ہے کہ جدید اور ماحول دوست ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے تاکہ نہ صرف ماحولیاتی آلودگی میں کمی آئے بلکہ ایندھن پر انحصار بھی کم ہو، الیکٹرک گاڑیوں کے شعبے میں سرمایہ کاری اور ملکی سطح پر اس صنعت کے فروغ کے لئے پالیسیز ترتیب دی جا رہی ہیں اس کے تحت الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کو سہل بنانے کیلئے انفراسٹرکچر کی بہتری، چارجنگ سٹیشنز کا قیام، اور دیگر ضروری سہولیات پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے ، اب تک 51لائسنس ایشو کئے جاچکے ہیں۔وزیر مملکت علی پرویز نے توجہ دلائو نوٹس پر جواب دیتے ہوئے کہا شرح سود اب کافی کم ہوگئی ہے ، مہنگائی پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے ، حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے بھرپور کام کر رہی ہے ۔سیدال خان نے کہا آج دیوالی ہے اور میں اس موقع پر تمام ہندو برادری کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، پورے ایوان اور اپنی طرف سے دیوالی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے سینیٹر دنیش کمار نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہامجھے بڑی خوشی ہوئی وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے ہندوئوں کیساتھ مل کر دیوالی کا تہوار منایا، مریم نواز کو آج سے میں اپنی لیڈر مانتا ہوں، مریم نواز کے اس اقدام پر دنیا بھر اور پاکستان کی ہندو براردی ان کی شکر گزار ہے ، آج پورے پاکستان میں ہندو برادری اپنی مرضی سے اپنا تہوار منارہی ہے ، دنیا کو بتا دیناچاہتے ہیں پاکستان میں اقلیتی برادری آزاد ہے ، بلوچستان میں جو مذہبی آزادی ہے وہ پوری دنیا میں مثالی ہے ، وزیراعلی خیبرپختونخوا بھی اگر ہندوبرادری کے ساتھ ملکر کیک کاٹ لیں تو کوئی حرج نہیں۔سینیٹر طلال چودھری نے کہا پچھلے دنوں اسلام آباد پر ایک چڑھائی کی گئی، کچھ لوگوں نے چڑھائی کی ان کو گرفتار بھی کیا گیا، اسلام آباد میں چڑھائی کرنے والے ایک صوبے کے سرکاری ملازم ہیں، ان سرکاری ملازمین کو وزیر اعلی ہائوس میں بلایا گیا، رہائی کے بعدان سرکاری ملازمین کو وزیر اعلی ہائوس میں ہار پہنائے گئے ، چڑھائی کرنے والے ملازمین کو ایک گریڈ میں ترقی دینے کااعلان کیا گیا، وفاقی حکومت کو اس بات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے ، قاضی فائز عیسی ٰکے ساتھ جو لندن میں کیا گیا اس کی مذمت ہونی چاہیے ۔بعد ازاں سینٹ کا اجلاس پیر کی سہ پہر ساڑھے 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔