قومی اثاثے اب چند پلاٹس کی قیمت کے برابر!
علی احمد ڈھلوں
سنا ہے ہمارے ملک میں ایک قومی ادارے پی آئی اے کی بولی لگائی گئی ہے، جس کا سب کو برسوں سے انتظار تھا اور اْمید تھی کہ سب اچھا ہو جائے گا، مگر ایک پراپرٹی ڈیلر نے اس کی قیمت دس ارب روپے لگا کر ہمیں شرمسار سا کر دیا ہے۔ قصور ڈیلر کا بھی نہیں ہے، کیونکہ جب کوئی گاہک ہوگا ہی نہیں تو کاہے کی بولی اور کاہے کا سودا! اور ویسے بھی جب ہم خریداری کرنے جاتے ہیں اور ہمیں دکاندار کی مجبوری کا بھی علم ہوتو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ بالکل نچلی سطح کا ریٹ لگایا جائے تاکہ چاہتے ناچاہتے ہوئے بھی دکاندار باعث مجبوری اپنا سودا بیچ دے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ دکاندار جو اپنی چیز کا بیڑہ غرق کرنے کا خود ذمہ دار ہے اْس کی قابلیت اور وژن کا اندازہ آپ گزشتہ ہفتے ہوئی ایک پاکستان چین کانفرنس میں افسوسناک واقعہ سے لگا لیں۔ ہوا کچھ یوں کہ سینیٹر مشاہد حسین کے قائم کردہ پاکستان چین انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام کانفرنس کے دوران چین کے یوم آزادی کے حوالے سے ’چین کے 75 سال‘ کے عنوان سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس میں دیگر لوگوں کے علاوہ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار، چینی سفیر جیانگ زئی ڈونگ اور ماہر معیشت ڈاکٹر عشرت حسین شریک تھے۔ اسحاق ڈار نے مہمان خصوصی کے طور پر تقریر کرتے ہوئے چین میں معاشی اصلاحات، ماحولیات کی بہتری کے لیے اقدامات اور ڈیجیٹل ایجادات کی تعریف کی، مزید کچھ اور باتیں کیں اور ساتھ یہ بھی کہہ ڈالا کہ ’’چینی صدر نے کہاتھا کہ ہمارے لوگ جس ملک میں مارے جائیں تو ہم اس ملک میں دوبارہ سرمایہ کاری نہیں کرتے لیکن پاکستان سیہم نے درگزر کیا ہوا ہے،،،‘‘ یعنی یہ بات ملک کا نائب وزیر اعظم کہہ رہا ہے کہ چینی صدر نے کہا ہوا ہے کہ جتنے مرضی بندے مروا دیں لیکن کام نہیں رکے گا۔ مطلب یہ کہ چینی ماہرین یا چینی شہری پاکستان میں قتل ہوتے رہیں چین کو اس سے فرق نہیں پڑے گا۔ یہ بیان سننے کی دیر تھی تو وہاں بیٹھے حاظرین میں سے بہت سے سنجیدہ لوگ سر پکڑ کر بیٹھ گئے،،، کہ ہمیں تو عادت پڑگئی ہے ، اپنے بندے مارنے اور مروانے کی مگر ہم سمجھتے ہیں کہ شاید دوسرے ممالک بھی اس قسم کی طبیعت کے مالک ہیں۔ پھر وہی ہو ا جس کا ڈر تھاکہ اس پر چینی سفیر جو اپنی تقریر کر چکے تھے، وہ دوبارہ سٹیج پر آئے ،انہوں نے منتظمین سے مزید بات کرنے کی اجازت چاہی۔ اور ہمارے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کوبتایاکہ ’چین دنیا بھر میں اپنے باشندوں کی حفاظت کو ترجیح دیتا ہے۔ پاکستان میں چینی شہریوں اور منصوبوں کو لاحق خطرات سے پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ انہیں بہتر حفاظتی انتظامات کرنے چاہئیں۔ ’’اگر سکیورٹی کے بارے میں اندیشے ختم نہ ہوئے تو ہم اپنے منصوبوں پر کام جاری نہیں رکھ سکیں گے۔‘‘یعنی انہوں نے خوب سنائیں اور کہا کہ وہ اپنے شہریوں کو ان اربوں ڈالر کے عوض قربان نہیں کریں گے،،، اور نہ ہی اپنے شہریوں کو پاک چین دوستی پر قربان کریں گے،،، وغیرہ ،، اب بندہ پوچھے کہ اگر آپ عقل سے پیدل نہیں ہیں تو کیا ضرورت ہے ایسی باتیں کرنے کی۔ لیکن سو باتوں کی ایک بات جب ہمیں اپنے لوگوں کے قتل ہونے کا افسوس نہیں تو چینیوں کا کہاں ہوگا؟ پھر ہم نے چینیوں کے ساتھ ایک معاہدہ بھی کررکھا ہے کہ ہر مرنے والے چینی کے خاندان کو لاکھوں ڈالر معاوضہ دیا جائے گا۔ یوں ڈالر ادا کر کے ہم خود کو اپنے فرض سے سبکدوش سمجھتے ہیں۔ دو تین بیانات ‘ چند دن کی خاموشی اور پھر دہشت گردی۔ خیر بتانے کا مقصد یہ تھا کہ جو شخص اپنے خصوصی شعبہ میں ہی ناکام ہو چکا ہو، اسے وزارت خارجہ یا نائب وزیر اعظم جیسے عہدے کا قلمدان سونپنا قومی المیہ سے کم نہیں ہے۔اب آپ یہاں سے اندازہ لگا لیں کہ پی آئی اے جیسے قومی ادارے کی نجکاری کا عمل کس حکومت کے پاس ہے۔ خیر آگے بڑھنے سے پہلے پی آئی اے کے اثاثہ جات اور اس پر ایک نظر ڈالیں تو 60کی دہائی یعنی جب سے یہ قومی ائیر لائن بنی ہے، یہ پاکستان کی شایان شان رہی ہے۔ یہ پہلی ایشیائی فضائی کمپنی تھی جس نے لندن اور یورپ کے بعد امریکہ کیلئے بھی پروازیں براہ راست شروع کیں۔1964ء میں چین کیلئے فضائی رابطہ قائم کرنیوالی پہلی غیر کمیونسٹ ایئر لائن پی آئی اے تھی۔ پی آئی اے کے عروج کے دنوں میں ایئر مارشل اصغر خان بھی اسکے سربراہ رہے جنہوں نے محض تین سال کے اندر اس کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ایئر مارشل اصغر خان نے فضائی میزبانوں کا نیا یونیفارم ایک فرانسیسی ڈیزائنر سے تیار کروایا جسکے چرچے دنیا بھر میں تھے۔ تب پی آئی اے اپنے تمام شعبہ جات میں خود کفیل تھی۔ انجینئرنگ، ٹیکنیکل گراونڈ سپورٹ، پیسنجر ہینڈلنگ، مارکیٹنگ، سیلز، فلائٹ آپریشن اور دیگر شعبہ جات کے علاوہ پروازوں میں کھانا فراہم کرنے کیلئے اپنا کچن رکھتی تھی۔اسکے عروج کا یہ عالم تھا کہ دنیا کی بڑی ایئر لائنز کے پائلٹس کراچی میں پی آئی اے کی تربیت گاہ میں تربیت حاصل کرتے تھے۔ایمریٹس ایئرلائن، سنگاپور ایئرلائن، جارڈینین ایئر لائن اور مالٹا ایئر کے پائلٹس کو پی آئی اے نے تربیت دی۔1985 ء میں ایمریٹس ایئر لائن کھڑی کرنے میں پی آئی اے نے اہم کردار ادا کیا۔عروج کے زمانے میں پی آئی اے اپنے طیارے غیر ملکی فضائی کمپنیوں کو لیز پر دیا کرتی تھی۔اس کے علاوہ اتحاد ائیرلائنز کو بھی خاصی سپورٹ فراہم کی تھی۔ عروج کا یہ دور 1990ء تک جاری رہا، تاہم اس دہائی سے پی آئی اے کا زوال شروع ہو گیا۔ جو لوگ اس کی نجکاری کر رہے ہیں، جیسے ہی ان کے ادوار شروع ہوئے تو پی آئے اے ڈاون ہوتی چلی گئی، من پسند افراد کی سیاسی تقرریاں کرکے اس ائیر لائن کا بیڑہ غرق کرنے کی بنیاد رکھی اور رہی سہی کسر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نجی ایئر لائنوں کے مالکان کو پی آئی اے کا چیئرمین بناکر نکال دی گئی۔سیاسی طور پر بھرتی ہونے والے نااہل اور نالائق افراد نے پی آئی اے میں دھڑے بازی اور یونین سازی کو فروغ دیا۔جس کے بعد امریکا کی براہ راست فلائیٹ کو بند کر دیا گیا، حالانکہ وہ فل پیک فلائیٹ تھی اور ایسی فلائٹس کیسے گھاٹے میں ہو سکتی ہیں؟ اسی طرح یورپ سمیت ہر ملک میں پی آئی اے کی براہ راست فلائٹس تھیں، لیکن وہ تمام روٹس بند کردیے گئے، یا کروا دیے گئے۔ ظاہر ہے اگر براہ راست فلائیٹ ہوگی تو کوئی مسافر کیوں کسی اور فلائیٹ سے جائے گااور آٹھ دس گھنٹے درمیان میں انتظار میں گزارے گا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ریلوے کا نظام سوچی سمجھی سازش کے تحت فلاپ کیا گیا۔ مثال کے طور پر فیصل آباد، گوجرانوالہ،گجرات، قصوروغیرہ سے لاہور کے لیے روزانہ 6بجے گاڑیاں نکلتی تھیںاور آفس ٹائم سے پہلے لاہور پہنچ جاتی تھیں لیکن انتظامیہ نے لوکل ٹرانسپورٹر حضرات سے پیسے لے کر گاڑیاں لیٹ کرنا شروع کیں۔ آہستہ آہستہ بہت زیادہ لیٹ ہونا شروع ہوئیںتاکہ لوگ وقت پر آفس نہ پہنچ سکیں، جس سے ٹرانسپورٹ مافیا کی چاندی ہوگئی، سواریاں ٹرین سے نکل کر لوکل ٹرانسپورٹ میں آگئیں۔ بہرکیف اس سے بڑا مذاق کیا ہوگا کہ نجکاری کمیشن کے افسران سال سوا سال کی ’’محنت ‘‘ کے بعد ایک خریدار ڈھونڈ لائے ہیں ۔