2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

قومی تشکیل کی منزل

محمد عامر رانا
30-12-2018

ملکی تاریخ میں ہر اہم صورتحال میں قومی اتحاد و یکجہتی کے حوالے سے سوالات سر اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس وقت بھی قوم کو ایک نہایت اہم سیاسی تبدیلی کا سامنا ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ موجودہ تبدیلیوں نے ایک بار پھر اس بحث کو جنم دیا ہے کہ پاکستان کی ریاست کی نظریاتی اساس کیا ہوگی ؟اور ریاست کا عوام سے تعلق کیا ہو گا؟۔ گزشتہ ہفتے قائد اعظم کا یوم پیدائش منایا گیا اس موقع پر بھی پاکستان بارے قائد اعظم کی سوچ اور ہماری آج کی سوچ کے درمیان بڑھتی خلیج پر روشنی ڈالی گئی۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائد اعظم اور آج کی ریاست کے حوالے سے نظریات باہم متصادم ہیں۔ قائد اعظم کی فکر سے اختلاف کرنے والوں میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جنہوں نے قومی تشکیل کے نظریات کی بنیاد مخصوص گروہی نظریات پر رکھنے کا تصور پیش کیا۔1956ء تک پاکستان کی اشرافیہ قوم کی نظریاتی تشکیل میں مذہبی تصور کا کلیدی کردار طے کرنے کی کوشش میں مصروف رہی اور ملکی اقلیتوں سمیت سیاسی جماعتوں بالخصوص مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت کے تحفظات کو اہمیت نہ دی گئی۔ یہاں تک کہ چار آئینی مسودوں پر بحث کے بعد اتفاق نہ ہونے کے باوجود مخالفین کے تحفظات کو مسترد کر دیا گیا۔ گو قرار داد مقاصد کو آئین کے پیش لفظ میں ہی متعارف کروایا گیا۔1956ء کے آئین نے ملکی تقدیر کی سمت طے کر دی جو ہر بار تاریخ میں دہرائی جاتی رہی۔ وقت کے نشیب و فراز دیکھنے کے بعد پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا مذہب سے رومانس اس نقطہ پر پہنچ چکا ہے جہاں آج قوم کی تشکیل کے عمل میں مذہب انتہائی حساس پوزیشن حاصل کر چکا ہے۔ اس مذہبی حساسیت کو قومی شناخت کے ساتھ ریاستی سرپرستی میں پروان چڑھایا گیا ہے۔آج بھی محسوس ہو رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے خود مختاری کی دو رخی کی جڑیں زندہ رکھی ہیں۔ مذہبی جماعتوں نے اقتدار کے حصول کے لئے مذہبی فکر کو استعمال کرنا شروع کیا اور ریاست نے بھی دو اہم وجوہ کی بنا پر ان کو بھر پور انداز میں پذیرائی بخشی۔ اول یہ کہ گروپ اشرافیہ کی اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے میں معاون تھے۔ دوسرے ان گروہوں نے ریاست کے سٹریٹجک مفادات کا بھی تحفظ کیا۔ اس کے علاوہ ایک بڑی وجہ ریاستی اداروں میں براہ راست ایسے عناصر کو ڈیل کرنے کی صلاحیت کا ہی نہ ہونا تھا۔ ریاست نے ملک میں اسلامی نظریاتی کونسل اور شرعی عدالت ایسے ادارے تو بنا دیے مگر ان کو کسی قسم کا قانونی اور عدالتی اختیار نہیں دیا گیا ۔ان اداروں نے بھی طے شدہ مقاصد کے بجائے اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کیا تو اسٹیبلشمنٹ نے بھی اس کے بدلے میں ایسے گروہوں کو اپنے اقدامات کی توثیق اور حمایت کے لئے استعمال کیا۔ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف مخصوص شدت پسندگروہوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ ان کے نظریات اور سیاسی مقاصد کے خلاف بھی ہے۔ تاہم یہ اب اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی مشکل محسوس ہو رہا ہے کہ وہ اپنے مذہبی اتحادیوں اور ان کی اداروں پر بالادستی بارے اپنی فکر پر نظرثانی کس طرح کرے۔ اسٹیبلشمنٹ اشرافیہ سے اپنے اقدامات کا اخلاقی اور قانونی جواز کا سرٹیفکیٹ حاصل کرتی رہی ہے اور اس کے بدلے میں کچھ حلقے نہ صرف پھلتے پھولتے رہے بلکہ اپنا اثررسوخ بھی بڑھاتے گئے۔ ان حلقوں نے جب بھی حکومتوں سے خاص طور پر مذہبی حوالے سے پالیسیوں بارے اپنے اختلافات کا کھل کر اظہار کیا تو ریاست نے نہ صرف ان کے احتجاج کو برداشت کیا بلکہ ان حلقوں کی خوش نودی کے لئے ان کو مزید مراعات سے بھی نوازا ۔ البتہ 9/11 کے بعد مختلف نام نہاد مذہبی تنظیموں کی بغاوت ‘ ریاست کے خلاف پراکسی ‘اور مذہبی حلقوں کی اکثریت کی ریاستی فیصلوں کی مخالفت نے اسٹیبلشمنٹ کو مذہبی اشرافیہ اور اس کی ذیلی تنظیموں سے ازسر نو معاملہ کرنے پر مجبور کردیا۔ جس کے بعد مذہبی جماعتیں جیساکہ جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام (ف) گروپ جو ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کی اتحادی تھیں انہوں نے بھی اختلاف کرنا شروع کردیا۔ اس اختلاف میں دو عوامل نے بنیادی کردار ادا کیا جس میں پہلا متحدہ مجلس عمل کا کامیاب تجربہ تھا جس میں تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو گئی تھیں۔ دوسرا مذہبی جماعتوں کا 2002ء کے انتخاب میں مناسب تعداد میں نشستیں حاصل کرلینا ہے۔ ان انتخابات میں سولو فلائٹ میں کامیابی کے بعد ان جماعتوں نے اپنی خودمختار سیاسی حکمت عملی طے کرنا شروع کردی۔ دوسری وجہ مذہبی شدت پسندوں کا غصہ اور ناراضگی تھی کیونکہ ان جماعتوں میں شدت پسندوں کے حمایتی کثیر تعداد میں موجود ہیں اور یہ اپنی قیادت کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلق پر غم و غصہ کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اس غم و غصہ کو کم کرنے کے لیے ہی ان دونوں جماعتوں نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کو فروغ دیا جو حادثاتی طور پر ناکام ہو گیا کیونکہ ایم ایم اے انتخابات میں خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکی۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ نے بھی نئے گھوڑوں پر بازی لگانا شروع کردی۔ تشدد پسند گروہوں نے چھوٹی مذہبی جماعتوں سے مل کر دفاع پاکستان کونسل کی داغ بیل ڈالی اور ڈرون حملوں کے خلاف رائے عامہ ہموار اور عوام کو امریکہ مخالف نعرے پر اکٹھ بھی کرلیا مگر یہ اتحاد بھی انتخابات میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایک نیا رومانس بھی بہت مختصر ثابت ہوا اور ایک فکر کا دوسری فکر سے مقابلہ کرنے کی سوچ بھی ناکام ہو گئی۔ تاہم اس وقت تک اسٹیبلشمنٹ سینکڑوں علماء کی حمایت و تائید سے پیغام پاکستان کی صورت میں دہشت گردی کے خلاف فتوے حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی۔ بہت سے مذہبی عمائدین نے پیغام پاکستان پر دستخط کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا مگر شدت پسند عسکری تنظیموں کی قیادت نے پیغام پاکستان کو اپنانے میں ذرا بھر تامل نہ کیا۔ کچھ ادارے پیغام پاکستان کی بنیاد پر اب مذہبی مدارس کی حساسیت بارے مہم چلا رہے ہیں۔ کچھ عناصر آج بھی بعض تشدد پسند تنظیموں جو ماضی میں پراکسی رہی ہیں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ تاہم وہ بھی ان تنظیموں کو نئے بیانیہ کو کنٹرول کرنے کی اجازت دینے پر تیار نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو اپنے نظریاتی فریم ورک کو منظور کروانے کے لیے آلہ کار کی ضرورت ہے تاہم آج بھی تمام مذہبی جماعتوں کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے دروازے کھلے ہیں۔ شرط بس یہ ہے کہ وہ مذہبی بیانیے پر ریاست کا اختیار تسلیم کرلیں۔ اسٹیبلشمنٹ اب نئی مذہبی نظریاتی اساس میں مذہبی حساسیت کا نیا بیانیہ تشکیل دے گی۔ بظاہر اسٹیبلشمنٹ پر امید بھی دکھائی دیتی ہے کیونکہ اس حوالے سے تمام آئینی تقاضے پورے ہو چکے اور اب کوئی قدغن باقی نہیں رہی۔ اس میں مذہب لوگوں کو جوڑے گا اور سوسائٹی میں ہم آہنگی فروغ پائے گی۔ توقع یہی کی جا رہی ہے کہ انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے تبلیغی جماعت ایسی جماعت اور روحانی اور صوفیانہ فکر کا فروغ ہی کافی ہوگا۔ یہاں سے اسٹیبلشمنٹ پراعتماد طریقے سے دوسرے مرحلے میں داخل ہو سکتی ہے۔ جونہی اس کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ قومی ہم آہنگی کے فروغ کا مقصد اور منزل آسان ہوتی جائے گی۔