2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

قوم کے ڈھول سپاہی تجھے سلام!

سعدیہ قریشی
31-08-2018

29اگست 2018ء کی شام سپاہی مقبول حسین کے خاکی جسم کو اس کے آبائی گائوں مرشد آباد نیریاں کشمیر میں سپرد خاک کر دیا گیا، یہ مٹی تم کو پیاری تھی سمجھو مٹی میں سلا دیا۔ سپاہی مقبول حسین کی زندگی کی کہانی تو بھی صرف اتنی سی کہ ساری عمر وہ مٹی سے وفا نبھاتا رہا۔ اور ایسا آشفتہ سرکہ اس مٹی کی محبت میں وہ قرض بھی اتارے جو واجب بھی نہ تھے اور مٹی کی محبت کا یہ قرض وہ ہر روز 40برس تک اتارتا رہا۔! سپاہی مقبول حسین تو مر گیا مگر وہ ڈھول سپاہی بن کر اب بہادری اور وفاداری کی لازوال داستانوں میں زندہ رہے گا۔ اس کی کہانیاں مائیں اپنے بچوں کو سنائیں گی اور آنے والی نسلیں وطن سے اس غیر متزلزل وفاداری اور محبت کے جذبے پر حیرت کا اظہار کرتی رہیں گی۔ فوج میں ایک معمولی سپاہی کی زندگی کی کہانی اتنی غیر معمولی کہ گاہے حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح دشمن کی قید میں 40برس تک وہ ہر روز وطن سے محبت کا امتحان دیتا رہا۔ وہ اس آزمائش کیسے سرخرو ہوا؟ 2005ء سے پہلے پاکستانیوں کو خبر بھی نہ تھی کہ کوئی مقبول حسین دشمن کی قید میں اپنے وطن سے وفا نبھا رہا ہے۔ اس سے پیشتر تو ہم اس نام کو جانتے نہ تھے۔2005ء کا سن تھا جب وہ دوسرے کئی قیدیوں کے ساتھ چھوٹ کر پاکستان آیا تب اس کی کہانی منظر عام پر آئی۔ سپاہی مقبول حسین کی کہانی 1965ء میں پاک بھارت کشیدگی سے شروع ہوتی ہے۔6ستمبر 1965ء کو باقاعدہ پاک بھارت جنگی معرکے کا آغاز ہونے سے پہلے اگست 1965ء کو جب سرحدوں پر کشیدگی بڑھتی ہے اور پاک سرحدوں کے رکھوالے کسی بھی کشیدگی اور جنگی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہم کے مصداق دکھائی دیتے ہیں کشمیر رجمنٹ کا بہادر سپاہی مقبول حسین آپریشن جبرالٹر کا حصہ بنتا ہے دشمن کی ایک گولی اسے لگتی ہے وہ زخمی ہو کر ڈھے جاتا ہے۔ یہیں سے اسے جنگی قیدی بنا لیا جاتا ہے اور وہ لاپتہ ہو جاتا ہے۔ ستمبر میں 17دن کی جنگ کے بعد ہی سپاہی مقبول حسین کا کہیں کچھ پتہ نہیں چلتا۔ کشمیر رجمنٹ میں اس کا نام لاپتہ سپاہیوں کی فہرست میں درج کر دیا جاتا ہے۔ سال پر سال گزرتے جاتے ہیں۔ ادھر سپاہی مقبول حسین دشمن کی قید میں بدترین ظلم و ستم سہہ کر بھی پاکستان کا کوئی راز دشمن کو بتانے سے انکار کر دیتا ہے۔ وہ ظلم کے ہر ہتھکنڈے پر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتا ہے اور اس جرأت کی پاداش میں اس کی زبان بھی کاٹ دی جاتی ہے۔ ادھر سپاہی مقبول حسین کا خاندان انتظار کی سولی پر لٹکا اس کی واپسی کا منتظر رہتا ہے۔1971ء کی جنگ میں ہی ایک معاہدے کے تحت جنگی قیدی واپس آتے ہیں لیکن نہیں آتا تو سپاہی مقبول حسین۔ گائوں میں اس کی ذات سے بندھے رشتے انتظار کی آگ میں لمحہ لمحہ پگھلے رہتے ہیں۔ اس کی منگیتر نسرین جس کا دل اپنے ڈھول سپاہی کے انتظار میں دن رات دعائیں مانگتا ہے۔ اس کی بوڑھی ماں جو انتظار کے اس جان لیوا مرحلوں سے گزرتی ہے کہ کسی پل چین نہیں پڑتا۔ اور جدائی کی یہ گھڑیاں جھیلتے جھیلتے دنیا سے چلی جاتی ہے مگر جانے سے ایک دلگداز وصیت کر کے جاتی ہے کہ مجھے گائوں کے داخلی راستے والے قبرستان میں دفن کرنا تاکہ جب میرا بیٹا واپس آئے تو اسے سب سے پہلے میں خوش آمدید کہوں! ماں آنکھوں میں ایک کڑیل جوان بیٹے کی تصویر لیے دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے۔ وہ بیٹا جب پورے چالیس برس کے بعد واپس لوٹتا ہے تو عجب منظر ہوتا ہے کہ ایک 68سالہ بوڑھا ‘لاغر ‘مجہول سی چال چلتا ہوا، ذہنی توازن ظلم سہہ سہہ کر خراب ‘ کٹی ہوئی زبان ،بولنے سے قاصر، وقت کی گردش میں کھوئی ہوئی یادداشت، وہ واپس آتا ہے تو اس کے پیاروں کی جگہ قبریں ہیں اور قبروں پر لگے ہوتے کتبے اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔! سپاہی مقبول حسین کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ دشمن کی قید میں اس نے کیسے شب و روز گزارے ہیں۔ اس کی زبان تک کاٹ دی گئی، وہ بول نہیں سکتا مگر جب اس کو قلم اور کاغذ دیا گیا تو سپاہی اس پر 355139نمبر لکھتا ہے اور اسی نمبر سے اس کی پہچان ممکن ہوتی ہے۔ یہ وہ نمبر ہے جو سپاہی کو کشمیر رجمنٹ کی طرف سے الاٹ ہوا تھا۔ اور یہی اس وفا شناس سپاہی کی کہانی کا کلائمکس ہے کہ وہ 40برس وہ دشمن کی قید میں ظلم و ستم سہہ سہہ کر اپنا نام تو بھول جاتا ہے لیکن اپنی کشمیر رجمنٹ کا نمبر اسے یاد رہتا ہے۔ اس لیے کہ 40برس تک واقعی وہ اس ایک پہچان کے ساتھ زندہ رہا کہ وہ وطن کا سپاہی ہے۔ اس نے دشمن کی قید میں 40برس تک وطن سے وفاداری کا فرض نبھایا۔ 2005ء میں سپاہی مقبول حسین کی پہچان بھی اسی نمبر سے ہوئی۔1965ء کے لاپتہ سپاہیوں کی فہرست میں اس نمبر کے ساتھ سپاہی مقبول حسین درج تھا۔ 2008ء میں آئی ایس پی آر نے سپاہی مقبول حسین کی وطن سے وفاداری کی اس غیر معمولی کہانی پر ڈرامہ بنایا۔ اس کی لانچنگ تقریب میں سپاہی کو بھی مدعو کیا گیا اس وقت کے آرمی چیف اشفاق کیانی بھی تقریب میں سپاہی کو خراج عقیدت پیش کرنے والوں میں شامل تھے۔ سپاہی مقبول حسین لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ آیا تو ہال میں بیٹھے ہوئے تمام افراد نے کھڑے ہو کر سپاہی مقبول حسین سے عقیدت کا اظہار کیا حاضرین کی آنکھوں میں آنسوئوں کی نمی منظر کو دھندلا کر رہی تھی۔ مگر اس سارے منظر کو تاثرات سے عاری چہرے اور خالی آنکھوں سے دیکھتا رہا۔ آخری وقت سپاہی مقبول سی ایم ایچ اٹک میں زیر علاج رہا۔ حکومت پاکستان نے دھرتی کے اس بہادر سپوت کو ستارہ جرأت سے بھی نوازا۔28اگست کی شام سپاہی مقبول حسین حب الوطنی‘ وفاداری، بہادری اور سرفروشی کی ایک لازوال داستان چھوڑ کر عدم کو روانہ ہو گیا۔ چکلالہ گریژن میں سپاہی کی نماز جنازہ پڑھنے والوں میں آرمی چیف جنرل باجوہ بھی شامل تھے۔ 29اگست 2018ء کی شام سپاہی مقبول کے خاکی بدن کو آبائی گائوں مرشد آباد نیریاں میں سپرد خاک کر دیا گیا: مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے ایک طرف وطن پر اپنی زندگی کے لمحے لمحے کو نچھاور کرنے والے سپاہی مقبول حسین کی وطن سے وفاداری حیران کرتی ہے تو دوسری طرف وطن کو چراہ گاہ سمجھنے والوں کی ہوس پرستی پر بھی حیرت ہوتی ہے ۔ ایک جانب سپاہی مقبول حسین ہے جسے زندگی سے وہ کم سے کم خوشیاں بھی نہ مل سکیں جس پر اس کا حق تھا اور دوسری طرف ہوس پرستوں کی وہ قطاریں ہیں جو وطن کو ایک پیراسائٹ سمجھ کر اسے مسلسل ناسور کی طرح چاٹ رہے ہیں کرپشن میں لتھڑے ہوئے‘ مفاد پرستوں کی ہوس ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتی۔ سپاہی مقبول حسین کے مقابل میں جب ان مفاد پرستوں‘ وطن فروشوں کو دیکھتی ہوں تو مجھے ایک گھن سی آنے لگتی ہے؟ سپاہی مقبول حسین! تیرا شکریہ کہ تونے اپنی زندگی دے کر اس قوم کے دامن میں وطن سے محبت اور وفاداری کی ایک لازوال داستان رقم کی ہے۔ بہادری کی وہ کہانی جیسے ہم اپنے بچوں کو سناتے ہوئے فخر محسوس کریں گے! سپاہی مقبول حسین قوم کا ڈھول سپاہی بن کر کہانیوں میں زندہ رہے گا!