2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

مائنڈ پاور: آئیں اپنا خزانہ دریافت کریں

سعدیہ قریشی
14-10-2018

مائنڈ پاور ایک سائنس ہے۔ ہم جوں جوں اسے مزید جانتے جاتے ہیں‘ ہم پر حیرت کے دروازے وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ انسانی دماغ قدرت کا ایک عظیم معجزہ ہے۔ ایک اچنبھا ہے! مائنڈ پاور کی سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ انسان پر اس کے دل کی نہیں دماغ کی حکمرانی ہوتی ہے۔ آج تلک تو ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ میرا دل اداس ہے۔ میرا دل خوش ہے۔ میرا دل پُرملال ہے۔ یعنی جو دل کا موسم ہے وہی انسانی موڈ ہوتا ہے جبکہ مائنڈ پاور کے ماہر یہ کہتے ہیں کہ انسانی موڈ‘ انسانی طبیعت‘ اس کی سوچ کے زیراثر ہوتی ہے۔ انسان جس زاویے سے زندگی کو دیکھتا ہے اسے ساری دنیا ویسی ہی دکھائی دیتی ہے۔ ہم جس نہج اور جس زاویے پر سوچیں گے‘ ہمیں زندگی اسی روپ میں دکھائی دے گی۔ اگر ہماری سوچ ناامیدی اور مایوسی کی زد میں ہوگی تو ہمیں زندگی کا گلاس آدھا خالی دکھائی دے گا۔ اگر ہم پرامید زاویہ نگاہ رکھیں گے تو زندگی کا گلاس آدھا بھرا ہوا دکھائی دے گا یعنی حقیقت نہیں بدلتی ہمارے سوچنے کا انداز بدل جاتا ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سوچنے کا انداز جب بدلتا ہے تو زندگی بھی بدلنے لگتی ہے۔ یہ جملہ شاید آپ کو پیراڈاکس محسوس ہو کہ لیکن سچ یہی ہے کہ آپ مثبت سوچیں تو زندگی مثبت ہونے لگے گی۔ آپ کے اندر زندگی کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کی زیادہ توانائی آ جائے گی۔ آپ کی مثبت سوچ سے زندگی کی گرہیں کھلنے لگیں گی۔ مائنڈ پاور پر ریسرچ کرنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسانی احساسات اور جذبات نیورو پیپٹائیڈ کے نام سے ایک مالیکیول خارج کرتا ہے۔ یہ نیورو پیپٹائیڈ ہمارے پورے جسم میں سفر کرتا ہے اور ریسپٹرز سیلز یعنی وہ خلیے جو پیغام پہنچاتے ہیں ان کے پاس جاتا ہے جو اس پیغام کو اس کے متعلقہ کیمیکل میں بدل دیتا ہے۔ ہم زندگی میں ہر لمحہ کسی نہ کسی احساس سے گزرتے رہتے ہیں۔ خوشی‘ غمی‘ محبت‘ کامیابی‘ امید‘ ناامید‘ ناکامی‘ بے چارگی‘ تنہائی‘ بے بسی‘ مایوسی وغیرہ تو نیورو پیپٹائیڈ جس بھی احساس کا پیغام لے کر ریسپٹر سیلز کے پاس جاتا ہے وہ اسے اس کے کیمیکل میں بدل کر پورے جسم میں پھیلا دیتے ہیں۔ سائنس آف مائنڈ پاور کی یہ دریافت تو محض اس کا ایک ابتدائیہ ہے۔ ہم جتنا اس پر پڑھتے جائیں حیرت کے دروا ہوتے جاتے ہیں۔ مائنڈ پاور کے ماہرین کہتے ہیں کہ ایک سوچ سے پیدا ہونے والے احساسات اور جذبات انسانی جسم پر اپنے اثرات چھوڑتے ہیں۔ زیادہ افسردہ اور مایوس رہنے والے لوگ زیادہ بیمار ہوتے ہیں۔ ان کا مدافعتی نظام کمزور ہو جاتا ہے۔ مدافعتی نظام یا Immune System۔ بیماریوں کے خلاف قدرت کی بنائی ہوئی ڈھال ہے۔ یہ مدافعتی نظام جسمانی بیماریوں کے خلاف بھی ہے اور روحانی بیماریوں کے خلاف بھی۔ جب اس حفاظتی دیوار میں دراڑ پڑتی ہے تو انسان لامحالہ بیمار زیادہ ہوتا ہے۔ پھر بیماری کے خلاف چونکہ اللہ کی بنائی ہوئی حفاظتی دیوار کمزور ہونے لگتی ہے تو ایسے افراد علاج‘ دوائوں‘ سرجریز کے باوجود جلد صحت یاب نہیں ہوتے کیونکہ ان کے اندر کا میکانزم آندھیوں کی زد میں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس وہ مریض جو اپنی صحت کے بارے میں مثبت اور پرامید ہوتے ہیں ان کے اندر کا مدافعتی نظام اس کی سوچ کے تابع ہو کر اس سمت کام کرنے لگتا ہے۔ ان پر دوائیں زیادہ اثر کرتی ہیں۔ ان بیماریوں سے بھی صحت یاب ہو جاتے ہیں جنہیں دنیاوی ڈاکٹر اور علاج قرار دے دیتے ہیں۔ اسی موضوع پر پڑھتے ہوئے میں نے یونان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی کہانی پڑھی۔ اس کا نام مورائٹس تھا۔ وہ برسوں پہلے روزگار کی تلاش میں امریکہ آباد ہو گیا تھا۔ ادھیڑ عمری میں اسے کینسر تشخیص ہوا جو آخری سٹیج پر تھا۔ ماہر ڈاکٹروں کے پینل نے تمام ٹیسٹ اور رپورٹیں دیکھ کراس کی بیوی کو یہ اندوہناک خبرسنائی کہ مورائٹس کے پاس اب صرف زندگی کے 9 ماہ باقی ہیں۔ مورائٹس جو اس وقت تک تکلیف دہ علاج سے گزر رہا تھا‘ اس نے فیصلہ کیا۔ وہ زندگی کا آخری اور مشکل ترین مرحلہ اپنے آبائی گھر میں گزارنا چاہتا تھا۔ اس کے لیے اس نے امریکہ میں اپنا بوریا بستر سمیٹا اور بیوی کے ساتھ یونان کے جزیرے اکاریا چلا آیا۔ اکاریا ایک سرسبز اور صحت بخش مقام ہے۔ مورائٹس برسوں کے بعد اپنے آبائی گھر اور لوگوں میں واپس آیا تو اس کا دل ایک انجانی خوشی سے بھر گیا۔ وقت گزاری کے لیے اس نے زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر سبزیاں کاشت کرنا شروع کردیں۔ امریکہ کی مشینی زندگی سے نکل کر گویا وہ سکون کی فضا میں آ گیا۔ وہ صبح سویرے اٹھتا‘ گیلی ہوئی مٹی سے پھوٹنے والی سبزیوں کی پنیری کی دیکھ بھال کرتا۔ پرانے دوست احباب اور رشتے دار اسے ملنے کے لیے آ جاتے‘ اس کے پاس ایک محفل کا سماں رہتا۔ شام کہ وہ دوستوں کے ساتھ بورڈ گیمز کھیلتا۔ اس کا دل خوشی‘ امید اور دوستوں کی محبت سے بھر گیا۔ اس خوشی‘ امید اور محبت نے اس کو مثبت سوچ کے راستے پر ڈال دیا۔ مثبت سوچ نے بیمار جسم کو صحت بخش پیغامات دیئے اور مورائٹس کی بیماری کی شدت معجزانہ طور پر کم ہوتی گئی۔ ڈاکٹروں کے بتائے ہوئے 9ماہ کب کے گزر چکے تھے۔ مورائٹس زندہ تھا۔ وہ واپس امریکہ گیا وہاں اپنے ڈاکٹروں سے ٹیسٹ کروائے تو اس کی بیماری واپس پلٹ رہی تھی۔ مورائٹس کے اندر بیماری کے خلاف قدرت کا حفاظتی میکانزم بہترین انداز میں کر رہا تھا۔ امید‘ محبت اور مثبت سوچ کی طاقت نے بیماری کو شکست دے دی۔ مورائٹس کئی سال زندہ رہا۔ اگر ہم مائنڈ پاور پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ مذہب میں دعا مانگنے کا تصور‘ اللہ تعالیٰ کے ناموں‘ آیت قرآنی اور درود شریف کا ذکر اور ورد کر کے روحانی طریقے سے شفا حاصل کرنا یا اپنے مسائل کا حل طلب کرنا بھی درحقیقت مائنڈ پاور کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ درحقیقت ہم یہ سب کر کے اپنی مائنڈ پاور کو دریافت کرتے ہیں‘ اجاگر کرتے ہیں اور اسے مزید طاقت دیتے ہیں۔ اس سے سوچ کا دریا مثبت توانائی حاصل کرتا ہے یہ مثبت سوچ نیورو پیپٹائیڈ کے ذریعے پیغام وصول کرنے والے خلیوں میں جا کر Dopamine اور Serotonin کا کیمیکل پیدا کرتی ہے۔ کیمیکل ڈوپامائن خوشی کا احساس پیدا کرتا ہے اور سیرٹونین محبت اور امید کا احساس پیدا کرتا ہے۔ خوشی‘ محبت اور امید احساس ہیں جو انسان کے مدافعتی نظام کو مضبوط تر کر دیتے ہیں۔ مثبت انرجی اندرون ذات سے بیرون ذات تک پھیل جاتی ہے۔ مائنڈ پاور ایک حیرت انگیز چیز ہے۔ قدرت کا ایک عظیم الشان شاہکار‘ ایک خزانہ جیسے دریافت کرنے اور استعمال کرنے کی ہمیں بہت ضرورت ہے۔ میری خواہش ہے ان چیزوں کو نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔ اس پر تربیتی ورکشاپس ہونی چاہئیں۔ موٹی ویشل سیشن منعقد کروانے چاہیے تاکہ ہم میں سے ہر شخص اپنے وجود کے اندر قدرت کے اس عظیم