ماں کی تلاش
موسیٰ رضا آفندی
بظاہر یہ ایک مضحکہ خیز موضوع لگتاہے کیونکہ ماں تو دنیا کے ہر گھر میںموجود ہے۔ماں تو جنگلوں میں بھی موجود ہوتی ہے ۔ ٹہنیوں پرموجود گھونسلوں میں بھی ہوتی ہے جہاں دانہ دانہ اکھٹا کرکے اپنی چونچوں سے بچوں کی منہ میں ڈالٹی رہتی ہے۔ ما ں کی جان بچے کے وجود میںاٹکی رہتی ہے ۔کیوں ؟ اس لئے کہ بچہ ماں کے وجود کے اندر پیدا ہوتاہے ، پروان چڑھتا ہے اور اسکی ذات کا حصہ بنکر دنیا میں آتاہے۔بچے کی پہچان اس کا باپ نہیںماں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن ہرشخص اپنی ماں کے نام سے پکارا جائے گا تاکہ دنیا میںہر خوش فہمی یا غلط فہمی کا ازلہ ہوسکے۔سرکار دوعالم ؐ نے جنت ماں کے پیروں تلے بتائی ہے اور غالباً اسی وجہ جنت اوردوزخ کے مالک کو ہم ستر مائوں سے زیادہ پیار کرنے والا سمجھتے ہیں۔ باپ کا نعم البدل تو ہو سکتا ہے ماں کا نہیں کیونکہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی بھی ماں کے پیٹ میںپالا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کو ٹھنڈی چھائوں سے تشبیہ دی جاتی ہے کیونکہ ایک پرندہ ماں بھی اپنے بچوں کو پروں تلے ڈھانپ کر اُن کی حفاظت کرتی ہے ۔ رشتے ناطے طے کرنے کے لئے فارسی کی ایک مثال ’’یانام پدر یاحسن دختر ‘‘ یعنی باپ کا نام یا لڑکی کاحُسن دیکھنا ضروری ہے جبکہ برصغیر میںمسلمان اور ہندو دونوں گھر انوں میں ایسے موقعے پر ماں کی سلیقہ مندی دیکھنے کو ترجیح دی جاتی ہے جو زیادہ مناسب بات ہے۔ امریکہ جیسے ملک میں بھی جہاں شادی کے بغیر ماں بن جانا ایک عام بات ہے ایسے منتخب صدر کو بھی قابل قبول نہیں سمجھا جاتا جس کی ازدواجی زندگی مثالی ناہو۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس سے ماں کا وجود خطرے میں پڑسکتاہے ، جو آج آزاد اور خود مختار امریکیوں کو بھی ہضم نہیں ہوتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان کے ڈالر پر صاف صاف لکھا ہوا ہے ’’ ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہیں‘‘ یعنی کنواری مریم ماں کے بیٹے عیسیٰ ؑ کے خدا پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ آدم کو اللہ نے پیدا نہیں کیا تھا، بنایا تھا۔ جبکہ عیسیٰ ؑ کوپیدا کیا اور اپنی تمام تر طاقت، قدرت کے باوجود ماں کی کوکھ سے پیدا کیا ۔ صرف انسان ہی نہیں بلکہ جن وانس اور چرند وپرند سب ماں کے وجود سے پیدا ہوتے ہیں ۔ ماں ہر ذی ر وح اور ذی شعور کے لئے ضروری ہے ۔ اپنی ماں کے علاوہ اگر کسی اور کو ماں سے تشبیہ دی جاتی ہے جس میں سوتیلے پن کی گنجائش نا ہو تو اُسے ’’دھرتی ہوگی ماں جیسی ‘‘ ماناگیا ہے۔ ہم وہ بدنصیب اور بدبخت شہر ی ہیں، قائد اعظم کی موت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جنکی دھرتی ماں بھی وہ بڑی مچھلی بن چکی ہے جو اپنے ہی بچوں کو کھا جاتی ہے۔ دنیا ایک سمندر ہے جس میںبڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھا رہی ہیں ۔ میں جب چھوٹا تھا اور کوئٹہ شہر کے جس محلے میں ہم رہتے تھے اس میںگلی کے بچے سہ پہر میں جمع ہوکر سورج ڈھلنے تک کھیلتے تھے۔ اس دوران ان بچوں کی مائیں دروازوں پرپڑے پردوں کے پیچھے سے اپنے بچوں پر نظر رکھے رہتی تھیں۔ گلی کے سب بچے سوائے ایک گھر کے بچوں کے، ساتھ ساتھ کھیلتے تھے ۔ اس ایک گھر کے بچوں کا گلی کے دیگر بچوں کے ساتھ کھیلنا منع تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک دن میںنے ماں سے پوچھا ۔ ’’ ماں ہم ان بچوں سے کیوں نہیں کھیل سکتے ؟‘‘ ماں نے جواب میں کہاتھا ’’اس لئے کہ اُن کا باپ گھر میںرشوت کے پیسے لیکر آتا ہے‘‘ ۔ میں نے رشوت کا لفظ پہلی مرتبہ اُس دن سنا تھا۔ سارے محلے کی مائوں کا یہ مشترکہ فیصلہ تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُس وقت ہماری معاشرتی سوچ اورفکر کس معیار اور پیمانے پر تھی۔ آج جس گھر میں حرام کی کمائی نہیں آتی اس گھر کے بچے اسی طرح کے اچھوت مانے جاتے ہیں جس طرح اُس وقت کے رشوت خور گھرانوں کے بچے اچھوت سمجھے جاتے تھے ۔ جدید دنیا نے جس تیز رفتاری سے پرانی دنیا سے ناطہ توڑ ا ہے اس کا اظہار سماجی اقدار اور خاندانی نظام کو نیست ونابود کرنے سے ہوتا ہے۔نانیاں دادیاں منظر نامے سے باہر ہوگئی ہیں۔ قریب ترین رشتے بھی نجی زندگی میں رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں ۔اب بچے اپنی پرائیویسی چاہتے ہیں کیونکہ سوشل میڈیا نے ہر ایک کو آزاد اور خود مختار بنادیا ہے۔ ان کی جگہ فیس بک ، واٹس ایپ ، یوٹیوب اور ٹک ٹاک والی بی بیاں سامنے آگئی ہیں جن کی اکثریت کو ماں بننا پسند ہی نہیں ۔پہلے شادی کے بعد عورت شوہر کے گھر جاتی تھی اور اب شادی کے بعد نوکر کو اپنے گھر لے آتی ہے ۔ یہ ایک ایسی خونخوار حقیقت ہے جسے محسوس تو سب کرتے ہیں لیکن اظہار کی جرات کوئی نہیں کرتا۔ یہاں ایک پڑھے لکھے صاحب کا کسی سیدھے سادھے پٹھان کے ساتھ مکالمہ یاد آگیا ہے جسے قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش کرتا ہوں ۔ دونوں گھر جانے کے بعد اپنی مصروفیات سے ایک دوسرے کو آگاہ کررہے تھے ۔پڑھے لکھے صاحب فرمارہے تھے ’’خان صاحب میں جب گھر جاتا ہوں تو دیکھتا ہوںکہ سارے برتن گندے ہیں ۔ اس خیال سے کہ بیوی بیچاری سارے دن کی تھکی ماندی ہوگی میں برتن خود ہی دھولیتا ہوں ۔جب بچوں کے سکول جانے کے یونیفارم اور دوسرے کپڑے میلے کیچلے دیکھتاہوں تو بیوی کا ہاتھ بٹانے کے خیال سے انھیں دھونے کے بعد استری بھی کردیتاہوں۔ اب جب دیکھتا ہوں کہ رات کا کھانا بھی تیار نہیں ہے تو بیوی بچوں کے ساتھ کھانا کھانے کی خوشی کی خاطر کھانا خود ہی بنا لیتاہوں تاکہ گھر میں ماحول خوشگوار رہے۔ اگلی صبح دفتر جانے سے پہلے بیوی بچوں کو ناشتہ کراکے گھر سے نکلتاہوں۔ اب آپ بتائو خان صاحب! آپ گھر جاکر کیا کرتے ہیں؟ ‘‘ خان صاحب نے بڑی معصومیت کے ساتھ جواب دیا ’’بھائی صاحب ! میں بھی گھر جاکر آپ ہی کی طرح ذلیل ہوتاہوں لیکن آپ کی طرح اتنے اچھے طریقے سے بتا نہیں سکتا ‘‘ یہاں مجھے مرحوم ومغفور جناب مشتاق یوسفی بہت یاد آئے جو فرماگئے ہیں ’’عورتیں دوسری عورتوں کی شکایت کرتے نہیں تھکتیں جبکہ مرد دوسری عورتوں کی تعریف کرتے نہیں تھکتے ۔ مرد واقعی عظیم ہیں ‘‘ یہ سب کچھ وہی بہادر اور نڈر بیویاں کرتی ہیں جو انہی بے وقوف، بے بس اور لاچار شوہروں کے بچوں کی ماں ہوتی ہیں ۔کیوں؟ اسلئے کہ بیوی نے ہی ماں بننا ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس بیوی صاحبہ نے شوہر کو نکیل ڈال کر رکھا ہوتا ہے، اپنا بیوی ہونے کا بھرم رکھنے کے لئے سہیلیوں کے جھرمٹ میں بڑے پروقار اور بااعتماد طریقے سے اکثر فرماتے ہوئے نظر آتی ہیں ’’بس غصے کے کچھ سخت ہیں‘‘ ۔ لُب لباب اس ساری بحث کایہ ہے کہ حقیقی ماں گم ہوگئی ہے جسے تلاش کرنا ضروری ہے۔ ہم نے فیس بک ،یوٹیوب واٹس ایپ اورٹک ٹاک کے نرغوں سے حقیقی ماں کو بازیاب کرانا ہے تاکہ موجودہ نسل ، بالکل ہی اُس طرف نا نکل جائے جس طرف وہ تیزی سے رواں دواں ہے۔