مجید منہاس اور تائب صاحب کی یادیں
سعد الله شاہ
خواب کمخواب کا احساس کہاں رکھیں گے اے گل صبح تری باس کہاں رکھیں گے یہ بات سمجھائی نہیں جا سکتی‘ بس محسوس کی جا سکتی ہے‘ یہ وہ مقام ہے جہاں کسی کی غیر حاضری زیادہ محسوس ہوتی ہے بلکہ آپ کو بھی زندہ و توانا رکھتی ہے۔ آپ اسے زندگی کی طرح کا خواب بھی کہہ سکتے ہیں جو باقاعدہ ایک حقیقت ہے: خوابوں سی دلنواز حقیقت نہیں کوئی یہ بھی نہ ہو تو درد کا درمان بھی نہ ہو حفیظ تائب صاحب کے برادرِ خورد جناب مجید منہاس کا فون آیا کہ انہیں فالج کا اٹیک ہوا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے تسلی دی کہ اب طبیعت بحال ہے اور مزید بہتری آ رہی ہے۔ مجھے ان کا یہ عمل اچھا لگا کہ انہوں نے فون کر کے اپنا حال بیان کیا اور یہ تعلق خاطر کے بغیر تو ممکن نہیں بعض اوقات ہم خود ہی گمان کر کے بیٹھے رہتے ہیں اور وقت نہیں آتا کہ تیماری داری کر سکیں۔ میں نے فرخ محمود کو ساتھ لیا اور مجید منہاس صاحب کا پتہ لینے چناب بلاک ان کے گھر جا پہنچے۔ اطلاع مگر دے دی تھی۔ حیرت ہوئی کہ گیٹ انہوں نے خود کھولا‘ حالانکہ ملازم ان سے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ یہ بڑے اور وضعدار لوگوں کی نشانی ہے کہ مہمان کا سواگت خود کرتے ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ وہ کافی بہتر نظر آئے مگر وہ یوں مسکرا رہے تھے کہ ’’ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے‘‘ ہم آ کر ان کے کشادہ گھر کے کھلے ڈرائنگ روم میں آ کر بیٹھ گئے۔ کہنے لگے: وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں ان کی اس لطیف بات پر ہم ہنس دئیے۔ اس گھر میں پہلے بھی کئی بار آ چکا ہوں۔ یہاں کئی نعتیہ محافل بھی ہو چکی ہیں اسی گھر میں حفیظ تائب صاحب نے اپنے آخری ایام تقریباً سات ماہ گزارے۔ مجھے تو وہ شام اور ان کے ہاتھوں کا وہ لمس بھی یاد ہے جب انہوں نے میرا ہاتھ اپنے دونوں نرم و گداز ہاتھوں میں پکڑ کر چمکتی آنکھوں سے آنسو گرائے اور شکرانے کے الفاظ ادا کئے کہ اللہ نے بہت اچھی حالت میں رکھا ہے۔ کہنے لگے دعا کی درخواست سے ایک دلی اور مجتہدِ نعت کی یہ عاجزی! مجید منہاس صاحب نے چائے بنوائی اور پھر حفیظ تائب صاحب کی باتیں شروع ہو گئیں ماحول میں ایک تقدیس در آئی۔ کئی باتیں درج کی جا سکتی ہیں کہنے لگے ’’حفیظ صاحب کی چھ بیٹیاں اور میری پانچ بیٹیاں‘ گویا ایک گھر میں گیارہ بیٹیاں۔ میرا پہلا بیٹا ہوا تو بہت خوشی منائی گئی اور طے کر لیا کہ اگر اب بھی نرینہ اولاد ہوئی تو تائب صاحب کو تھما دیں گے جب دوسرا بیٹا ہوا اور میری بیوی نے تائب صاحب کو اپنی خواہش بتائی تو وہ خاموش رہے اور چلے گئے۔ دوسری اور پھر تیسری مرتبہ جب ہم نے بیٹا دینے کے لئے اصرار کیا تو کہنے لگے جب اللہ پاک کو منظور نہیں تو آپ اس کے کام میں دخل دینے والے کون ہوتے ہیں۔ میں تو ان خوش قسمت لوگوں میںہوں جنہوں نے وہ سارا دور دیکھا جب احمد ندیم قاسمی کہتے کہ انہیں فخر ہے کہ وہ عہد حفیظ تائب میں زندہ ہیں۔ ان کی سب سے زیادہ قربت اختر حسین جعفری سے تھی۔ میں نے تذکرہ کیا کہ جعفری صاحب زیارات پر تائب صاحب کے لئے دعائیں مانگتے تھے۔ مجید منہاس صاحب نے دلچسپ بات بتائی کہ جی حفیظ تائب کا اپریشن ہوا تو ناشتہ اختر حسین جعفری کے گھر سے آتا۔ دوپہر کا کھانا ایک دیوبندی کے گھر سے اور رات کا ایک اہل حدیث کے گھر سے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ سب اس عاشق رسولؐ سے محبت کرتے تھے۔ میں تو انہیں تقریب وغیرہ کے بعد ان کے گھر چھوڑ کر آتا۔ راستے میں باتیں کرتے جاتے ایک مرتبہ کہنے لگے ’’سعد ! تمہاری دو نعتیں مجھے بہت پسند ہے جس میں چاروں صحابہ کا ذکر بھی ہے۔ باتوں باتوں میں صوفی افضل فقیر کا ذکر آ گیا کہ وہ تائب صاحب کو مولانا کہتے تھے اور بہت پیار سے مخاطب ہوتے۔ صوفی افضل فقیر اپنے عہد کے بہت ہی عالم فاضل تھے اور بلا کے شاعر۔ ایک شعر دیکھیے: یہ تو آقاؐ کی محبت کا شرف ہے ورنہ کون روتا ہے لپٹ کر درو دیوار کے ساتھ ان کا ایک اور شعر: کیا فکر کی جولانی‘ کیا عرض ہنر مندی توصیف پیمبر ہے توفیق خداوندی منہاس صاحب بتانے لگے کہ ایک روز افضل فقیر صاحب نے حفیظ تائب کی ایک نعت سن کر ایک شعر نکال دینے کو کہا ۔ وہ شعر تھا: ماہ عرب کے آگے تیری بات کیا بنے اے ماہتاب‘ روپ نہ ہر شب بدل کے آ تائب صاحب نے حکم کی تکمیل کی مگر جب صوفی صاحب عمرہ کر کے آئے تو سب سے پہلے تائب صاحب کا دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کہ وہ شعر نعت میں شامل کر لو۔ استغفار کرنے پر پتہ چلا کہ آقاﷺ نے حکم دیا ہے خواب میں آ کر۔ اس نعت کا مطلع دیکھیے: شوق و نیاز و عجز کے سانچے میں ڈھل کے آ یہ کوچۂ حبیبؐ ہے پلکوں سے چل کے آ مجید منہاس صاحب حفیظ تائب کاتمام کام ہی اشاعت پذیر نہیں کیا ان پر لکھے گئے مضامین بھی یکجا کر دیے۔ بھائی ہونے کا حق ادا کر دیا۔ کوئی جب ان سے پوچھتا کہ آپ میں سے کون بڑا ہے تو کہتے تائب صاحب۔ ہر حوالے سے بڑے ہیں۔ تائب صاحب کے جنازے کا ذکر ہوا تو میں نے کہا کہ ایسے ایسے برگزیدہ لوگ نظر آئے کہ بس جنازہ اتنا بڑا کہ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ کہنے لگے کہ جب میں ان کی میت لے کر گھر آیا تو سب سے پہلا شخص جو وہاں کھڑا ہوا،وہ ڈاکٹر محمد اجمل نیازی تھے ان کی سدا بہار نعت کا تذکرہ ہوا: خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گل چیدہ کس منہ سے بیاں ہوں ترے اوصافِ حمیدہ تائب صاحب نے اصل میں حالی کا راستہ اپنایا اور اقبال کی فکر کو لے کے چلے۔ آپ نے اس قوم کا استغاثہ بھی حضور کے سامنے پیش کیا اور حضورؐ کی سیرت کو بھی اپنے کلام میں سمویا۔ نعت نے ان کی تربیت و تطہیر کی۔ نعت کے لئے ان کا جذبہ اور وارفتگی تجسیم پا چکی تھی دل تو یہی چاہتا تھا کہ باتیں کرتے جائیں مگر ہمیں مجید منہاس صاحب کی تھکاوٹ کا احساس بھی تھا ہم نے اپنی خواہش کو آئندہ کی نشست پر ڈال دیا اور اجازت لے کر آ گئے: دے تبسم کی خیرات ماحول کو ہم کو درکار ہے روشنی یا نبیؐ ایک شیریں جھلک ایک نوریں ڈلک تلخ و تاریک ہے زندگی یا نبیؐ اے نوید مسیحا:تری قوم کا حال عیسیٰ کی بھیڑوں سے ابتر ہوا اس کے کمزور اور بے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یا نبی