2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

مدرسہ رجسٹریشن کا مسئلہ

ڈا کٹر طا ہر رضا بخاری
13-12-2024

خطّے میں دینی مدارس کا مسئلہ حکومتی اور ریاستی سطح پر ہمیشہ کسی نہ کسی طرح زیرِ بحث رہا ہے، بالخصوص ان کی رجسٹریشن کے امور گزشتہ رْبع صدی، بطورِ خاص9/11 کے بعد سے حل طلب رہے۔طویل عرصے تک دینی مدارس کی رجسٹریشن، سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ1860ء کے تحت روبہ عمل رہی، جوکہ انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ کے ماتحت رجسٹرار جوائنٹ سٹاک کمپنیزکے آفس میں ہوتی تھی۔یہ نظام کم و بیش سوا سو سال تک جاری رہا۔طویل عرصے تک دینی مدارس کے مہتمم حضرات، رجسٹریشن کے اس عمل کو حسبِ منشا اور حسبِ ضرورت اپنا تے رہے، یہ رجسٹریشن ان کے اور ان کے ادارے کے لیے ایک تحفظ کی ضمانت تھی کہ کوئی فرد یا ادارہ بے جا طور پر بطور مہتمم،اْن کی ذاتی حیثیت کو چیلنج نہ کرسکے اور نہ ہی کوئی ان کے ادارے کے نظم و نسق پر اثر انداز ہوسکے۔ موجودہ صدی کے ابتدائی سالوں میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے کچھ حوالے، بعض مدارس کے ساتھ بے جا طور پر جب نتھی ہوئے تو حکومت نے ان اداروں کو ایک نظم میں لانے کا اہتمام کیا اور یوں مدرسہ لیڈر شپ کے ساتھ گفت و شنید اور مدارس کی رجسٹریشن کا عمل بھی با قاعدگی سے شروع ہوا۔ اس ضمن میں حکومت اور مدرسہ لیڈر شپ کے درمیان بیشمار میٹنگز، اجلاس اور معاہدات کا اہتمام ہوا،ایسے ہی ایک مفاہمت کے نتیجہ میں،حکومت نے مدارس کی رجسٹریشن کو حسب سابق1860ء کے ایکٹ کے ذریعے تسلیم کرلیا اور اسی ایکٹ میں ترمیم کر کے دفعہ’’21‘‘کا اضافہ کیا اور پہلی دفعہ مدارس کی رجسٹریشن کے لیے اہل مدارس کی ایماپر سوسائٹی ترمیمی ایکٹ2005ء ،جو 8 نومبر2005ء کو نافذہوا۔ 1860ء کے ایکٹ میں ترمیم کے بعد دفعہ21 کا اضافہ ہوا اور اس کی سرخی یہ تھی۔’’دینی مدرسہ کی رجسٹریشن‘‘ اس دفعہ کے مطابق:ایک دینی مدرسہ (اس کا جو بھی نام ہو)اس سوسائٹی ایکٹ کے تحت ایک سوسائٹی کے طور پر رجسٹرڈ کروائے بغیر نہ توقائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی عمل میں رہ سکتا ہے۔ یوں مدارس کی رجسٹریشن کا عمل آگے بڑھا، تاہم باہمی اعتماد کی وہ فضا،جو اس اہم قومی مسئلہ کے لیے درکار تھی، اس کا فقدان رہا۔جس کے سبب مدرسہ رجسٹریشن، مین سٹریمنگ آف مدرسہ ایجوکیشن، مدارس کی قومی دھارے میں شمولیت،مدارس میں عصری تعلیم کی ترویج،مدارس کی ڈگریوں کی سرکاری سطح پر قبولیت،بعض مدارس میں انتہاپسندانہ عناصر کی موجودگی سمیت دیگر کئی موضوعات گزشتہ عرصے سے قومی اور بین الاقوامی اْفق پر ہمیشہ نمودار ہوکر زیر کارروائی توآتے رہے، تاہم نتیجہ خیز نہ ہوسکے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عصرِ حاضر میں مدرسہ ایجوکیشن سمیت دیگر دینی شعبہ جات بشمول محراب و منبر کو عالمی سطح پر بہت سے چیلنجزدرپیش ہوئے، تاہم ان سے نبردآز ما ہونے کے لیے دینی قوتیں بھی اپنی طاقت و توانائی کو حالات کے تقاضوں کے مطابق ترتیب وتشکیل دیتی رہیں۔ تازہ قضیے کی صورت یہ ہے کہ وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت، حکومت پاکستان اور اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے درمیان مدرسہ رجسٹریشن کی بابت اگست 2019ء میں ایک معاہدہ ہوا،جس پرمفتی محمد تقی عثمانی نمائندہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان،مولانا قاری محمدحنیف جالندھری ناظمِ اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان، مفتی منیب الرحمن صدر تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان، پروفیسر ساجد میر صاحب صدر وفاق المدارس السلفیہ پاکستان،مولانا محمد یٰسین ظفرجنرل سیکرٹری وفاق المدارس السلفیہ پاکستان،مولانا عبد المالک صدر رابطہ المدارس الاسلامیہ پاکستان،صاحبزادہ عبد المصطفیٰ ہزاروی ناظم اعلیٰ تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان،ڈاکٹر عطا ء الرحمن جنرل سیکرٹری رابطہ المدارس الاسلامیہ پاکستان، مولانا ڈاکٹر محمد افضل حیدری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس الشیعہ پاکستان، مولانا ڈاکٹر عادل خان ممبر مجلس عاملہ وفاق المدارس العربیہ، پاکستان، مولانا ڈاکٹر محمدنجفی وفاق المدارس الشیعہ پاکستان، شفقت محمود،اس وقت کے وفاقی وزیر تعلیم،وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ ورانہ تر بیت،حکومت پاکستان اسلام آباد اور ارشد مرزااس وقت کے وفاقی سیکرٹری تعلیم،وفاقی وزارت ِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت، حکومت پاکستان اسلام آبادنے دستخط کیے، معاہدے کا اصل متن حسبِ ذیل ہے۔ مورخہ 29 اگست 2019ء کو(اس وقت کے) وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی زیر صدارت دینی مدارس کے حوالے سے اہم اجلاس وزارت ِ تعلیم کے کمیٹی روم میں منعقد ہوا، جس میں اتحاد تنظیمات ِ مدارس پاکستان کے سربراہان اور دیگر ذمہ داران نے شرکت کی۔ اجلاس کی کارروائی انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ اور خوش گوار ماحول میں مکمل ہوئی۔ تفصیلی گفت و شنید کے بعد اتفاق رائے سے درج ذیل معاہدہ طے پایا۔ یہ معاہدہ حتمی ہے۔ حالات کے مطابق اس معاہدے میں اگر تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوئی تو یہ دونوں فریقوں کی باہمی رضا مندی سے ہوگی۔ (الف)۔اجلاس میں متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ تمام دینی مدارس و جامعات، اتحادِ تنظیمات ِ مدارس پاکستان کے ساتھ طے شدہ رجسٹریشن فارم کے مطابق وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹریشن کرانے کے پابند ہوں گے۔ (ب)۔اس مقصد کے لیے وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت پورے ملک میں 12 ریجنل دفاتر رجسٹریشن کے لیے قائم کرے گی۔ (پ)۔وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت مدارس و جامعات کے اعداد و شمار اکھٹے کرنے کی واحد مجاز اتھارٹی ہوگی۔ (ت)۔وہ مدارس، جامعات جو وفاقی وزارت ِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹرڈ نہ ہوں گے، وفاقی حکومت انہیں بند کرنے کی مجاز ہوگی۔ (ج)۔جو مدارس و جامعات رجسٹریشن کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کریں گے، ان کی رجسٹریشن منسوخ کردی جائے گی۔ تمام مدارس و جامعات جو وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹرڈ ہوں گے، انہیں شیڈول بینکوں میں اکاؤنٹ کھولنے کے لیے وفاقی وزارتَ تعلیم معاونت کرے گی۔وفاقی وزارت ِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹرڈ مدارس و جامعات غیر ملکی طلبہ کو تعلیم کی سہولت مہیا کرسکیں گے۔ اس سلسلے میں وزارتِ تعلیم کی سفارش پر ان طلبہ کو ان کی مدت تعلیم (جو زیادہ سے زیادہ 9 سال ہوگی)اور حکومتی قواعد و ضوابط کے مطابق ان کے لیے ویزا کے اجراء میں معاونت کرے گی۔ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے لیے وزارت کے ساتھ رجسٹرڈ مدارس و جامعات میٹرک اور ایف اے کے بعد فنی تعلیمی بورڈ کے ساتھ الحاق کرسکیں۔ (جاری ہے)