مذہب اور سیاست
محمد عامر رانا
مذہب ووٹر کی سوچ کو مختلف وجوہ کی بنا پر متاثر کرتا ہے جس میں کسی امیدوار کے مذہبی پس منظر اور اخلاقی کردار کے علاوہ اسلامی نظام کے نفاذ کی خواہش اہم ہے۔ جبکہ مذہبی سیاسی جماعتیں ووٹر کے مذہبی احساسات کو تحریک دینے کے لیے اپنے مذہبی ایجنڈے کی بھر پور تشہیر کرتی ہیں۔چ دیگر سیاسی جماعتوں کا جھکائو بھی مذہبی فکر کی طرف ہوتا ہے کم از کم کوئی ایک سیاسی جماعت بھی مذہبی معاملات کے خلاف چلنے کا تصور نہیں کر سکتی۔ گو پاکستانی ووٹرز کی اکثریت کے رجحان میں مذہب کا کلیدی اثر ہوتا ہے مگر اس کے باوجود یہ سوال تو اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا مذہب پاکستانی ووٹرز کی پہلی ترجیح ہے؟ اور کیا مذہبی سیاسی جماعتیں ہی ووٹرز کا پہلا انتخاب ہیں؟ پاکستان کی انتخابی تاریخ سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں مذہبی جماعتیں ووٹر کو اپنی طرف راغب کرنے میں مجموعی طور پر ناکام رہی ہیں اور مین سٹریم جماعتوں کا ایجنڈا ووٹرز کی اکثریت کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے جو ووٹر کے مذہبی رجحان اور حلقہ کے سیاسی تقاضوں سے زیادہ ہم آہنگ ہوتا ہے۔ در حقیقت مذہبی گروہوں ،جیسے اہل سنت والجماعت کی انتخابی عمل میں شرکت کا مقصد بھی ملک میں بنیاد پرست سوچ کے عمل کو کمزور ہونے سے روکنا ہوتا ہے ۔ان جماعتوں کے منشور میں مذہبی فکر کی ترویج سے بھی ان کے سیاسی رجحان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے گزشتہ 30برسوں کے دوران ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں سنٹر سے رائٹ کی جانب ہی لڑھکتی رہی ہیں۔1990ء اور 2008ء میں جب پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو اس نے غیر محسوس انداز اور آہستگی سے بائیں بازو کی طرف جھکنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف شدت پسند(Far Right)مذہبی جماعتوں نے ووٹرز کو دائیں بازو اور معتدل جماعتوں کی طرف بھر پور انداز میں دھکیلنے کی کوشش کی۔ شدید اور معتدل مذہبی ووٹرز پر مذہبی جماعتوں کا حق دعویٰ رہا۔ مذہبی رجحان کی دو انتہائوں کے بیچ پاکستان مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کا جھکائو دائیں بازو کی طرف تھا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی سنٹر سے بائیں جانب جھکی ہوئی تھی۔ اسی طرح قوم پرست جماعتوں کا رجحان بھی بائیں بازو کی جانب تھا۔ تقریباً تمام ہی عام انتخابات میں مختلف جماعتوں کے اتحاد اسی رجحان کے مطابق بنتے رہے ہیں اور استثنائی صورتحال کم ہی دیکھی گئی۔2018ء کے انتخابات کی صورتحال بھی کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں ماسوائے اس کے کہ چند ایک معتدل جماعتیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ جذبات پر مبنی بیانیہ تشکیل دیتی محسوس ہو رہی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف کٹر مذہبی حلقوں میں بھی نئے ایکٹر وارد ہوئے ہیں جو ایک طرح سے دہشت گردی کے انسداد کی حکمت عملی کا نتیجہ ہیں۔ ان میں سے کچھ دائیں بازو کی جماعتوں کو نام نہاد مین سٹریم جماعتوں کے روپ میں میدان میں اتارا گیا ہے تاکہ بنیاد پرستی کے کمزور پڑتے عمل کو روکا جا سکے۔ دوسری جماعت ایک جہادی جماعت کا سیاسی ونگ ہے جبکہ حقیقت میں یہ جماعت بھی بنیاد پرست ہے اور معاشرہ کے مذہبی بنیاد پر تقسیم کا باعث ہے۔ نئی مذہبی سیاسی جماعتوں میں تحریک لبیک پاکستان اور ملی مسلم لیگ جو تحریک اللہ اکبر کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے شامل ہیں۔ اسی طرح دیگر مسلکی گروپ جیسا کہ کالعدم جماعت اہل سنت والجماعت ،سنی تحریک ،مجلس وحدت المسلمین بھی میدان میں ہیں۔ ان جماعتوں میں سے اکثر عام انتخابات میں انتخابی نتائج کو متاثر کر سکتی ہیں اور مین سٹریم کی جماعتوں کے کچھ حلقوں میں نتائج تبدیل کر سکتی ہیں۔ دائیں بازو کی ان نئی جماعتوں کی وجہ سے چھوٹی مذہبی جماعتوں کی مین سٹریم جماعتوں سے بارگینگ کی اہمیت کم ہو کر رہ گئی ہے خاص طور پر جمعیت علماء اسلام سمیع الحق گروپ اور جمعیت علماء پاکستان کے مختلف گروہوں کی اہمیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ تاہم ملی مسلم لیگ اور اہل سنت والجماعت کی انتخابی عمل میں شرکت کا منصوبہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ۔نیشنل ایکشن پلان جب سے لاگو ہوا ہے ان جماعتوں پر شدید دبائو ہے۔ ان جماعتوں کے عام انتخابات میں حصہ لینے سے ان پر دبائو قدرے کم ہوا ہے۔ مثال کے طور پر ملی مسلم لیگ ان انتخابات کو اپنے سافٹ امیج کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ابھارنے کے موقع کے طور پر دیکھتی ہے۔ پاکستان ملی مسلم لیگ نے نہ صرف عام نشستوں پر 13خواتین کو ٹکٹ دیے ہیں بلکہ اقلیتی کارکن بھی جماعت کی انتخابی مہم میں فعال کردارادا کر رہے ہیں ۔اسی طرح اہل سنت والجماعت جو انتخابات میں راہ حق پارٹی کے پلیٹ فارم سے حصہ لے رہی ہے اس جماعت کے سربراہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں، انتخابات میں حصہ لینے کا مقصد اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا ہے۔ دلچسپ امر تو یہ ہے کہ روایتی مذہبی جماعتیں جو ایک بار پھر متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر متحد ہو چکی ہیں بھی خود کو ان انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں سے نہ صرف فاصلے پر رکھے ہوئے ہیں بلکہ خود کو لبرل اور سیکولر قوتوں کے خلاف موثر ڈھال کے طور پر بھی پیش کر رہی ہے۔ یہ ایک سیاسی چال ہے اور اس کا مقصد کے پی کے اور بلوچستان کے قدامت پسند ووٹ کو ایم ایم اے سے جوڑے رکھنا اور اپنی مخالف مین سٹریم پارٹیوں کو چیلنج کرنا ہے۔ البتہ ایم ایم اے آئندہ کی حکومت میںاپنے حصہ پر بھی نظر جمائے ہوئے ہے۔ ایم ایم اے میں مولانا فضل الرحمن انتخابی عملیت کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں سنٹر رائٹ کی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے پاکستانی طالبان کے حوالے سے تحفظات تھے اور دونوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران طالبان سے امن مذاکرات کا وعدہ کیا تھا جس کی وجہ سے انہیں اپنی انتخابی مہم جاری رکھنے کی آزادی حاصل تھی جبکہ دوسری طرف اے این پی اور پیپلز پارٹی جو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی تھیں ان کی انتخابی مہم پر تحریک طالبان پاکستان نے شدید حملے کیے تھے ۔ 2018ء کے انتخابات میں مین سٹریم جماعتوں کوپھر اسی صورتحال کا سامنا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابات میںمذہب کو استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں البتہ عمران خان کو اپنے حالیہ روحانی پہلو کے سبب ہی فائدہ ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف کو پارٹی کے اندر توڑ پھوڑ اور ووٹ بنک میں ٹوٹ پھوٹ کا بخوبی اندازہ ہے۔ عمران کا نیا روحانی پہلو ووٹرز کو پارٹی کی طرف مائل کرنے کا باعث بنے گا۔ پاکستان مسلم لیگ ن انتخابات میں نئے بیانیہ کے ساتھ اتری ہے اور اس کی انتخابی مہم کا انحصار دو عناصر پر ہے۔ پہلا اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت کا تاثر ، دوسرا اس کے ترقیاتی کام ہیں۔ مذہبی حلقوں میں ایم ایم اے کو اس کے اتحادیوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب مسلم لیگ ن کا تاثر رائٹ ونگ سے سنٹر کی جانب بھی ابھر رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ سیاسی جماعتیں مذہب کو سیاست میں استعمال کر رہی ہیں مذہبی جماعتیں بھی اپنے مذہبی تاثر کوسیاسی جیت میں بدلنے کی کوشش کر رہی ہیں مگر چند ہی دہشت گردی کے خطرے اور دہشت گردی کی بات کر رہی ہیں کسی ایک جماعت نے بھی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے منصوبہ پیش نہیں کیا ۔گزشتہ دنوں ہونے والے دہشت گردوں کے حملے نے 150بے گناہوں کی جان لی ہے جس میں دو انتخابی امیدوار بھی شامل ہیں۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ اس حوالے سے خاموشی سے شدت پسندوں کے ایجنڈے کو تقویت ملے گی۔