معرکۂ سندھ
عبداللہ طارق سہیل
بہت صدیاں پہلے‘ محمد بن قاسم نے سترہ سال کی عمر میں سندھ فتح کیا تھا۔ بہت صدیاں بعد کوئی ستر سال(تقریباً) کی عمر میں پھر سندھ فتح کرنے نکلا ہے۔ معرکہ بپا ہونے کو ہے۔ معرکہ ہند نہ سہی‘ معرکہ سندھ ہی سہی۔ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما کسی چینل پر دل کے پھپھولے پھوڑ رہے تھے۔ کہا‘ یہ تحریک نہیں‘ تحریک انتقام ہے۔ مزید کہا‘ خاں صاحب کسی اور بات میں سنجیدہ نہیں۔ لیکن انتقام میں سنجیدہ ہیں۔ چلئے‘ سنجیدہ تسلیم تو کیا‘ چاہے ایک’’سبجیکٹ‘‘ میں ہی کیا ورنہ یہاں تو یہی سنتے ہیں کہ خاں صاحب کسی بات میں بھی سنجیدہ نہیں۔ حالانکہ یہ صاف صریح غلط فہمی (بیانی) ہے۔ خاں صاحب متعدد امور میں سنجیدہ ہیں۔ بعض کا ذکر احتراماً اور احتیاطاً نہیں کیا جا سکتا۔ بعض کا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ جیسا کہ ’’وہ غربت مٹانے میں سنجیدہ ہیں۔ اس مہم میں سبزی منڈیاں بھی آ گئی ہیں۔ کل ہی ایک کلپ دیکھا‘ گھوم پھر کر ریڑھی ہانکنے والے ایک صاحب بھی زد میں آ گئے۔ ان کا ٹھیلا بحق سرکار ضبط کر کے ٹرک میں ڈال لیا گیا۔ یعنی پھیرے لگانے والے بھی اب ’’تجاوزات‘‘ ہو گئے ہیں۔ جب تک ٹرک نظر سے اوجھل نہیں ہو گیا‘ ٹھیلے والا اسے دیکھتا رہا‘ پھر آسمان کو دیکھنے لگا۔ وہاں پتہ نہیں کیا دیکھ رہا تھا۔ شاید موسم‘ کے تیور جانچ رہا تھا۔ ان تیوروں کا کچھ پکا نہیں ہے‘ کب کیسے ہو جائیں۔ ٭٭٭٭٭ تسخیر سندھ کے حوالے سے ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف 2002ء کا پرویز مشرف والا فارمولا اپنا کر پیپلز پارٹی میں فارورڈ بلاک بنائے گی۔ مشرف فارمولا ۔ یعنی مرشد کا فارمولا۔ مرشد کو گئے دس برس ہو گئے۔ فیض جوں کا توں جاری ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں‘ مرشد چلا جائے تب بھی اپنی بتیسی طاق میں چھوڑ جاتا ہے۔ ایک تھی بتیال پچیسی‘یہ مرشد بتیسی اس سے سات درجے بڑھ کر ہے۔ اس فارمولے کے تحت پیپلز پارٹی کے ارکان کا ضمیر جگائے جائیں گے اور ان کی حب الوطنی کو جھنجھوڑا جائے گا۔ زیادہ نہیں‘ بیس بائیس کا ضمیر بھی جاگ گیا تو کام بن جائے گا۔ پھر چاروں صوبوں میں انصاف کا ون یونٹ قائم ہو جائے گا۔ لیکن یہ ظِلّی ون یونٹ ہو گا‘ بروزی ون یونٹ بعد میں بنے گا۔ کچھ ترمیمات ہونی ہیں۔ اسمبلی میں نہ ہوئیں تو ریفرنڈم کے ذریعے کرا لی جائیں گی۔ کوئی رکاوٹ آڑے نہیں آنے دی جائے گی ؎ بھوت پتاچ نکٹا نہیں آوے مہابیر جب نام سناوے اس کے بعد کیا ہو گا‘ یہ ہم نے سوچا ہی نہیں ہم سوچتے بھی نہیں۔ ٭٭٭٭٭ مرشد سے یاد آیا‘ ایک درخواست نیب میں گزاری گئی ہے جس میں مرشد کی لاہور ‘کراچی ‘اسلام آباد سمیت کئی شہروں میں جائیدادوں کا ذکر ہے۔ محض ایک جائیداد کی مالیت ایک ارب روپے ہے۔ دبئی اور لندن سمیت سمندر پار جائیدادوں کا ذکر الگ ہے۔ سنا ہے یہ درخواست طاق میں رکھ دی گئی ہے۔ کیونکہ اثاثے آمدن سے زیادہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا‘ یعنی اثاثے اور آمدنی راست متناسب ہیں‘ پھر کارروائی کر کے ناحق وقت کیوں گنوایا جائے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ مرشد نے ایک کھرب کے پلاٹ وغیرہ اپنے ساتھیوں میں بانٹے۔ ان سارے ساتھیوں کے نام بھی ہیں۔ ان ناموں میں ایک وہ بھی ہیں جو ہر قسم کے سیاسی پروگراموں میں اپنا دفاعی تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ سنا ہے نیب اس پر بھی کوئی کارروائی کا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا کہ یہ پلاٹ مالیتی مبلغ ایک کھرب روپے ’’مؤلفتہ القلوب‘‘ کی مد میں دیے گئے تھے۔ ٭٭٭٭٭ ماشاء اللہ سے نیک نام ریاستی اثاثے رائو انوار نے عمرے کا ارادہ کر لیا ہے۔ لیکن ابھی سے کیوں؟ کچھ قبل از وقت سی بات نہیں لگتی؟ ابھی تو صرف پانچ سو پورے ہوئے ہیں‘ چار سو باقی باقی ہیں۔ انہیں بھی پھڑکا دیں تو نوسو پورے ہوں‘ پھر چاہے عمرے پر جائیے چاہے حج پر۔ خیر‘ کوئی بات نہیں‘ ریاست زندہ‘ مقابلے باقی۔ چار سو کا کھاتہ واپسی پر پورا کر دیں گے۔ سنا ہے رائو صاحب کے خلاف ایک درخواست ابھی تک طاقچۂ التوا میں رکھی پڑی ہے۔ ایک سابق ایس ایس پی نے یہ فائل کی تھی اور بتایا تھا کہ رائو صاحب نے 85ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی ہے اور دبئی‘ برطانیہ اور دیگر مقامات پر (یعنی جہاں جہاں مرشدی مشرف کے نقش قدم ہیں) کچھ گراں قدر بنگلات ‘ کوٹھیات‘ فلیٹیات بھی بنا رکھے ہیں۔ 85ارب روپے یعنی ایک کھرب سے 15ارب کم۔ رائو صاحب ‘ آپ کے دونوں کام ادھورے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ چودھری نثار کہ عالم بالا سے ربطِ خاص رکھتے ہیں‘ پھر گویا ہوئے ہیں۔ فرمایا ہے‘ نواز شریف میری بات مان لیتے تو آج بھی ان کی جماعت کی حکومت ہوتی۔ آپ کیا سمجھے۔ یہ کہ چودھری صاحب اپنی دانائی اور نواز شریف کی نادانی جتلا رہے ہیں؟۔کسی حد تک آپ ٹھیک ہی سمجھے لیکن اصل نکتے کی بات اور ہے۔ غور فرمائیے۔ نواز لیگ کی حکومت آج بھی ہوتی یعنی کیسے؟ الیکشن جیت کر ہی ہوتی۔ تو نکتے کی بات یہ ہے کہ نثار کی بات مان لی ہوتی تو 25جولائی کی شام وہ کچھ نہ ہوتا جو ہوا۔ مسلم لیگ کو الیکشن جیتنے کی اجازت مل جاتی‘ خلیفہ صاحب انہی 25سیٹوں پر گزارا کر رہے ہوتے جو ان کی تھیں۔ نثار کی بات کیا تھی‘ یہ قصہ بھی نہاں و عیاں کا ہے‘ اسے چھوڑیے ‘ اس بات کی داد دیجیے کہ عالم بالا سے ربط خاص رکھنے والے چودھری صاحب اپوزیشن کے اس موقف پر تائید اور تصدیق کی مہم لگا رہے ہیں کہ 25کی رات 80سیٹوں کے نتائج بدلے گئے۔ ٭٭٭٭٭ مارکیٹوں پر تاجروں نے بڑے بڑے خوشرنگ بینر لگا دیے ہیں۔ لکھا ہے ’’خاں صاحب کاروبار بند کرانے کا شکریہ‘‘ ایسا کوئی بینر سٹاک مارکیٹ پر بھی لگا ہے یا نہیں؟ نہیں لگا تو لگ جائے گا‘ ابھی تو مندی کے چار ہی مہینے ہوئے ہیں۔