مقامی حکومت قائم کریں!
احمد اعجاز
مصر میں صرف ایک وفاقی حکومت ہے باقی ملک بھر میں صرف مقامی حکومتیں کام کرتی ہیں جنہیں گورنیٹس کہاجاتا ہے۔ مصر میں مسجد کمیونٹی سنٹر کے طور پر کام کرتی ہے۔ مسجد کے دائیں جانب والا کونہ میت کیلئے مختص ہے جہاں نمازِ جنازہ پڑھا جاتا ہے جبکہ بایاں کونہ جسے ہزنٹ کہتے ہیں وہاں ڈاکٹرز کے لئے مختص ہے جہاں وہ مریضوں کا چیک اپ کرتے ہیں۔ جبکہ درمیانے حصے میں بچے آکر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مصر میں مسجد، مندر یا چرچ حکومت کی نگرانی میں تعمیر ہوتے ہیں، وہاں کسی پرائیویٹ شخص کو اِن عبادت گاہوں کی تعمیر کی اجازت نہیں۔بلکہ یہ مقامی حکومتوں کی اجازت اور ان کی نگرانی میں ہوتا ہے۔بانی چیئرمین پنجاب ہائرایجوکیشن کمیشن پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین قریباََ ستائس سال اقوام ِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے کئی ممالک میں کام کرچکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمارے پاس اِتنے اچھے ادارے ہیں اْن کی اِتنا اچھی تاریخ ہے۔ تاہم سچ یہ ہے کہ ہم اْس سے سیکھنا نہیں چاہتے اور نہ اْسے پہ عمل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم اپنی تاریخ کو دوبارہ پڑھیں تو ہمیں بڑی چیزیں مل جائیں گی جو آج کے زمانے میں قابل ِ عمل ہیں۔ہمارے ہاں مسجد کا تصور بہت خوبصورت تھا۔اِبن رْشد کا اْندلسیہ میں جو مدرسہ تھا وہاں پہ ارسطو اور سقرا ط کے کاموں کا ترجمہ ہوتا تھا۔ وہاں بچے آپس میں بیٹھ کر گفتگو اور بحث کرتے تھے۔ تعلیم دینے کا اصل نظام ہی یہی ہے۔ اِبن رْشد کے زمانے سے یورپ نے وہ کام لیا یعنی وہ ترجمہ وہاں سے اٹھایا اور یورپ لے گئے، وگرنہ یورپ والوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ ارسطو اور سقراط کون ہیں۔ یہ کارنامہ اِبن رشد نے اندلسیہ میں بیٹھ کر سرانجام دیا۔ ہماری مسلم تاریخ بتاتی ہے کہ ابن رشد مسجد میں بیٹھ کریہ کام کیا کرتے تھے، مسجد میں پندرہ بیس بچے ہوتے تھے، اْن کی بیگم صاحبہ ان کے لئے کافی اور چائے بناتی تھیں، سارے بچے اور دیگر افراد دائرے میں بیٹھ کر ڈسکس کیا کرتے تھے اور تعلیم کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ اِتنا بڑا سبق ہمارے پاس موجود ہے، ہماری تاریخ موجود ہے۔ لیکن ہم نے اس کو چھوڑ دیا ہے۔ پروفیسر نظام الدین کے بقول اگر مقامی حکومتیں قائم ہوجائیں تو ہمارے ملک میں چار یا پانچ صوبوں کا ایشو سرے سے ہی ختم ہوجائے گا۔ کیونکہ جب عوامی مسائل ضلعی سطح پہ حل ہورہے ہونگے، ضلعی تعمیر و ترقی مقامی ہاتھوں سے ہورہی ہوگی تو پھر شاید صوبوں کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ مقامی حکومتوں پاکستان میں قانون سازی بھی ہوچکی ہے بلکہ اس حد تک مسئلہ ڈسکس ہوچکا ہے کہ مقامی حکومتوں کی فنڈنگ کیسے ہوگی؟ اب صرف اِس پہ عملدرآمد کرنے میں دیر ہورہی ہے کیونکہ سیاستدان اور بیوروکریسی یہ نہیں چاہتی۔دو دہائی قبل جب ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف دو ر میں ناظم سسٹم آیا تو بیوروکریسی کی طاقت ختم ہوگئی تھی۔کیونکہ ڈپٹی کمشنرکو ڈسٹرکٹ کورڈینیشن آفیسر بنادیا گیا تھا۔ حالانکہ وہ پوسٹ ختم نہیں کی گئی تھی۔اگر اِس مسئلے کہ تہہ میں جائیں تو مقامی حکومتوں کا نظام قومی مفاد میں اور عوام کے فائدے میں ہے۔ یہ دراصل وفاقی حکومت کے بھی فائدے میں ہے کیونکہ اِن کے سارے کام آسان ہوجائیں گے۔فرض کریں اگر کوئی لڑکی چیچہ وطنی میں کام کررہی ہے اور اْسے چھٹی چاہئے تو اْسے لاہورآکر درخواست دینی پڑتی ہے کہ اْسے چھٹی چاہئے، ایسا کیوں؟ یا اْسے تبادلہ کرانا ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ جہاں پہ لوگ کام کرتے ہیں وہیں پہ اْن کا مسئلہ حل کریں، اگر مقامی حکومت کام کرتی ہے یہ ٹرانسفر پوسٹنگ کا سارا مسئلہ ختم ہوجائے گا۔ اور ملک میں بیوروکرسی جو خود کو ان داتا کا روپ دیے بیٹھی ہے اْس کی ساری خودساختہ اور غیر ضروری طاقت ختم ہوجائے گی۔ ابھی سیاستدان اور بیوروکریسی اپنی طاقت عوام سے شیئر نہیں کرنا چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کی ترقی میں ایک بہت بڑا خلاپیدا ہوگیا ہے۔ دنیا میں ہرجگہ جہاں جہاں بھی مقامی حکومتوں نے کام کرنا شروع کیاوہاں مقامی ترقی ہوئی ہے۔ سیاسی ترقی بھی ہوتی ہے، لوگ تیار ہوتے ہیں، الیکشن لڑتے ہیں، مستقبل کے سیاستدان پیدا ہوتے ہیں، لیڈرشپ پیدا ہوتی ہے۔ مگر ہم آپسی جنگ میں یہ سب کھورہے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین جب گجرات یونیورسٹی میں بطوروائس چانسلرکام کررہے تھے انہیں معلوم ہوا کہ ان کا ممبر سنڈیکیٹ میٹنگ میں نہیں آیا۔ معلوم کرنے پہ پتہ چلا کہ وہ ممبر صوبائی اسمبلی تھا مگر صوبائی اسمبلی کی سیٹ چھوڑ کر وہ ضلعی نظام بن گیا تھا کیونکہ اْن کے بقول ضلع ناظم کے پاس زیادہ طاقت تھی اور زیادہ فنڈ تھا۔ مقامی حکومتوں میں بین الاقوامی ایجنسیز بھی آپ کو فنڈنگ کرتی ہیں۔ یہی گزشتہ ادوار میں ہوچکا ہے۔ مثلاََ مشرف دور میں یو این ڈی پی اور اقوام ِ متحدہ کے ذیلی اداروں نے مختلف پروجیکٹس میں پاکستان بھر کے اْن ناظمین کو فنڈنگ دی جن کے پاس وژن تھا اور جو کام کرنا چاہتے تھے۔ مقامی حکومتوں میں ضلعی سطح پہ آپ سڑکوں، سکول، کالجز اور حتی کہ جامعات کی تعمیر و ترقی میں بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مقامی حکومتوں کے قیام کے متعلق میڈیا کو بھی چاہئے کہ وہ اِسے مستقل طورپر لازمی سرگرمی تصور سمجھتے ہوئے شعور اجاگر کرے۔ لوگوں کو قائل کیا جائے کیونکہ جب تک پبلک موومنٹ نہیں چلے گی تب تک وفاقی حکومت مقامی حکومتوں کے مسئلے کو سنجیدہ نہیں لے گی۔ پوری سچائی یہی ہے کہ یہی قومی مفادمیں ہے۔ جب یہ Devolutionمقامی سطح پہ ہوتا ہے تو ہر ایک کا فائدہ ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ مقامی حکومتوں کے قیام سے بیوروکریسی بند ہوجاے گی بلکہ اْس کے جتنے فنگشن ہیں وہ کافی ہیں۔ بیوروکریسی کا کام پالیسی بنانا، کوالٹی انشور کرنا،اور سٹنڈرڈبنانا ہے۔ مثلاََ بیوروکریسی کو چاہئے کہ امریکہ کی طرز پہ پاکستام میں توانائی کے بحران پہ قابو پانے کیلئے کام کرنے کے دِنوں اور گھنٹوں میں کم کرے۔ نیو یارک کی طرز پہ پانچ کی بجائے تین دنوں میں کام ہوسکتا ہے۔ دنیا آن لائن ہوچکی ہے تو ہم اْس ٹیکنالوجی سے کیونکر فائدہ نہیں اٹھاسکتے؟ اس سے بجلی اور دیگر اخراجات میں خاطر خواہ کمی ہوگی۔برطانیہ اور امریکہ میں مقامی حکومتوں کے نظام کو دیکھیں تو ہم اِس نتیجے پہ پہنچتے ہیں کہ جب تک مقامی حکومتیں کام نہیں کریں گے، آ پ ترقی نہیں کرسکتے۔ قومی ترقی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مگر جو روز مرہ کے امور ہیں جب تک لوگوں کی پہنچ وہاں تک نہیں ہوگی، اْن کے کام نہیں ہوسکتے۔