مقبوضہ کشمیر میں انتخابات: انٹر نیشنل لا کیا کہتا ہے؟
آصف محمود
پاکستانی سیاست کے الجھائو میں ، ہمارے ہاں مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالے انتخابات ڈھنگ سے زیر بحث ہی نہیں آ سکے۔ سوال یہ ہے کہ اس انتخابی عمل کی قانونی حیثیت کیا ہے اور انٹر نیشنل لا اس بارے میں کیا رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ دل چسپ اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس سوال کا جواب 68 سال پہلے 30 مارچ 1951 ء کو اور پھر نومبر 1956 ء کو دے دیا تھا اور نہایت ہی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ دے دیا تھا۔ ان انتخابات کی شرح بھارت کے نزدیک یہ ہے کہ بھارت نے کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ بنا لیا ہے اور کشمیر کے عوام نے ان انتخابات میں حصہ لے کر اس فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔ یہ اسی طرح کی قدرے مختلف روپ کے ساتھ کی گئی واردات ہے جو بھارت نے پچاس کی دہائی میں کی تھی۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ بھارت کے کشمیر پر قبضے کے تیسرے سال مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا تا کہ ایک’’آئین ساز اسمبلی‘‘وجود میں آئے جو مقبوضہ کشمیر کا آئین تیار کرے۔ شیخ عبد اللہ نے الیکشن سے قبل ہی یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم جب جیت کر اسمبلی میں آئیں گے تو ہم بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیں گے اور اس اسمبلی کا یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کا استعمال سمجھا جائے گا۔ چنانچہ پاکستان نے یہ معاملہ سلامتی کونسل میں اٹھایا ۔ وہاں یہ سوال زیر بحث آ یا کہ اقوام متحدہ کی قرارداد میں جو حق خود ارادیت کا ذکر کیا گیا،کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی آئندہ قائم ہونے والی اسمبلی ایک فیصلہ کر دے اور اس کے فیصلوں کو کشمیریوں کا حق خود ارادیت سمجھ لیا جائے؟ تیس مارچ 1951ء کو سلامتی کونسل نے اس کا جواب ایک قرار داد کی شکل میں دیا اور کہا کہ کوئی آئین ساز اسمبلی کوئی اجلاس کرتی ہے اور اس میں وہ کشمیر یا اس کے کسی حصے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اسے اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق حق خود ارادیت کا استعمال نہیں سمجھا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کہا کہ اس طرح کے انتخابات کی کوئی حیثیت نہیں، نہ ہی ایسی کوئی اسمبلی کشمیر کے حق خودارادیت کے طور پر کوئی فیصلہ کر سکتی ہے۔ اور نہ ہی بھارت اپنے طور پر کوئی فیصلہ کر سکتا ہے۔ اس نے واضح کیا کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے ، یہ بھارت کا حصہ نہیں ہے اور کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کشمیر ی کریں گے اور اقوام متحدہ کے تحت استصواب رائے سے کریں گے۔ اور کوئی شکل نہ قابل قبول ہے نہ اس کی کوئی قانونی حیثیت ہے۔ نام نہاد اسمبلی کی اس واردات کے بعد معاملہ پھر سلامتی کونسل جا پہنچا۔ نومبر 1956 ء میں سلامتی کونسل نے پھر ایک قرارداد کی صورت میں بڑے واضح طور پر قرار دے دیا کہ ایسی کوئی اسمبلی کشمیر یا اس کے کسی حصے کے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اسے اقوام متحدہ کے اصولوں اور قراردادوں کی روشنی میں حق خود ارادیت کا متبادل نہیں سمجھا جائے گا۔ جب اقوام متحدہ کے مطابق کشمیر کی نام نہاد اسمبلی ایسا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی تو بھارت آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے ایسا کوئی فیصلہ کر سکتا ہے اور نام نہاد انتخابی عمل کو حق خود ارادیت کا متبادل کیسے قرار دے سکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر ایک مقبوضہ علاقہ ہے ۔ اس پر وہی قانون لاگو ہوتے ہیں جو مقبوضہ جات پر ہوتے ہیں۔ بھارت اپنے آئین کے کسی آرٹیکل کو منسوخ کر کے انٹر نیشنل لا اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو منسوخ نہیں کر سکتا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کشمیر اگر انٹر نیشنل لاء کی روشنی میں ایک حل طلب متنازعہ مسئلہ تھا تو یہ آرٹیکل 370 کی وجہ سے نہیں تھا کہ وہ آرٹیکل ختم ہو گیا تو اب کشمیر کی حیثیت بھی ختم ہو گئی۔ کشمیر کی حیثیت کا تعین اقوام متحدہ کی قراردادیں کرتی ہیں اور ان قراردادوں کے بارے میں سلامتی کونسل نے 1996 ء میں یہ فیصلہ سنا دیا تھا کہ جب تک پاکستان اور بھارت دونوں اتفاق نہیں کریں گے تب تک یہ قراردادیں سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود رہیںگی۔ جو مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوںاور سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہو اسے بھارتی آئین میں ترمیم کر کے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں ایک اور نکتہ بھی قابل غور ہے۔’’ویانا کنونشن آن دی لاء آف ٹریٹیز‘‘کے آرٹیکل 34 کے مطابق دو فریق ایک معاہدہ کر لیں تو تیسرا فریق اس کا پابند نہیں ہے۔یعنی مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی اسمبلی اور بھارت آپس میں کوئی معاملہ کر لیں تو نہ اقوام متحدہ اس کی پابند ہے نہ ہی پاکستان۔اور یاد رہے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر مسئلہ کشمیر کا عنوان ’’پاکستان اور بھارت کا تنازعہ‘‘ ہے۔جب تک اقوام متحدہ کی ہدایات اور طے کردہ اصولوں کی روشنی میں حق خود ارادیت کا اظہار نہیں ہوتا تب تک ایسے کسی بھی مشکوک فیصلے کی انٹر نیشنل لاء میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ نہ تو آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر اب بھارت کا حصہ بن چکا ہے نہ ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں طے کردہ اصول بھارت کی فاشسٹ حکومت کی قانون سازی سے ختم ہو جاتے ہیں۔ بھارت عالمی برادری کا رکن ہونے کی حیثیت سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا پابند ہے ۔اس سے ماورا نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر نے اپنی قسمت کا فیصلہ ابھی کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے قوانین بہت واضح ہیں۔ ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو پانے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ قوانین ساقط ہو چکے۔ انٹر نیشنل لا کی روشنی میں بھارت کی حیثیت قابض قوت کی ہے۔ بین الاقوامی قانون بہت واضح ہے کہ کوئی قابض قوت طاقت کے ساتھ مقبوضہ علاقے کو اپنا حصہ قرار نہیں دے سکتی۔ کشمیر کی حیثیت متنازعہ علاقے کی ہے اور اس بات کا اعلان خوداقوام متحدہ نے کر رکھا ہے۔ اس کی قسمت کا فیصلہ کشمیریوں نے کرنا ہے بھارت نے نہیں۔ یہ فیصلہ بھارتی نگرانی میں کسی نام نہاد انتخابی عمل سے نہیں ہو گا بلکہ یہ فیصلہ استصواب رائے سے ہو گا اور وہ استصواب رائے اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو گا۔ حالیہ انتخابی عمل اسی طرح نا معتبر ہے جیسے پچاس کی دہائی کا انتخابی عمل یا اس کے بعد ہونے والے نام نہاد انتخابات۔ بلکہ ایک لحاط سے حالیہ انتخابی عمل زیادہ سنگین ہے کیوں کہ یہ ناجائز قبضے کے تسلسل میں کیا جانے والا اقدام ہے اور قانونی طور پر اسے جارحیت کہا جائے گا۔ یہ انٹر نیشنل لا کی صریح پامالی ہے۔ وقت کا موسم کبھی یکساں نہیں رہتا ۔ وقت بدلے گا۔ اور جب وقت بدلے گا تو کشمیر کا فیصلہ کشمیری عوا م خود کریں گے۔ جبر سے کسی قوم سے اس کا حق خود ارادیت چھینا نہیں جا سکتا۔