مودی سرکار کو پہلادھچکا
ارشاد محمود
وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کو راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں کانگریس کے ہاتھوںہونے والی عبرت ناک شکست نے بھارتی سیاست میں زبردست بھونچال پیداکردیا ہے۔ ناقابل شکست بی جے پی حکومت زخم خوردہ ہے اور اس کی مسلسل انتخابی فتوحات کا سحر قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ راہول گاندھی کی قیادت میں کانگریس ایک بار پھر ابھر رہی ہے۔وہ ایک متبادل لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیںجو ایک ایسے بیانیہ رکھتاہے جسے بھارت کے طول وعرض میںتمام مذاہب کے پیروکاروں میں قبولیت مل سکتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جوڑنے اور قومی دھارے میں شامل کرنے کا وہ پرچار کرتے ہیں نہ کہ مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر تقسیم کی۔ راہول گاندھی کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جو گزشتہ ایک صدی سے بھارت کے آسمان سیاست پہ آفتاب کی طرح چمک رہاہے۔ والد راجیوگاندھی کے قتل کے بعد انہوں نے سیاست میں طویل عرصہ تک ایک عام لیڈر کے طور پر خدمات سرانجام دیں تاکہ سماجی حرکیات کی شدبد حاصل کی جاسکے۔ الیکشن جیتے کے ما بعد ٹیلی فونک پیغام کے ذریعے انہوں نے ستر لاکھ سے زیادہ پارٹی کارکنوں کو جہاں مبارک باد کا پیغام دیا وہاں ان سے درخواست کی کہ وہ راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش کے وزراء اعلیٰ کے لیے ایک ایک نام تجویز کریں۔ کارکنوں کو انہوں نے یقین دلایا کہ ان کا پیغام راہول گاندھی کے سوا کوئی اور نہیںسنے گا۔ الیکشن میں کامیابی کے بعد راہول گاندھی نے ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح میڈیا کا سامنا کیا۔ بہت تحمل اور انکساری کے ساتھ صحافیوں کے سوالات کا جواب دیا۔ اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ بھارت کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ خاص کر حزب اختلاف کی جمہوریت میں اہمیت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ کہاکہ اس کے بنا جمہوریت کا تصور نہیں۔ا ن کی گفتگو کو بھارتی تجزیہ کاروں نے بہت توجہ سے سنا اور کہا کہ وہ ایک الگ شناخت جسے عرف عام میں برانڈ کہاجاتاہے کے طور پر متعارف ہورہے ہیں۔مودی اور بی جے پی سے بہت مختلف۔ تجزیہ نگاروںاور سیاسی حکمت کاروں کے مابین کانگریس کے احیا اور بی جے پی کی غیر معمولی اور غیر متوقع شکست کے اسباب پر بحث ومباحثہ جاری رہے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ جن الیکشن سلوگنز کی بنیاد پر بی جے پی نے گزشتہ الیکشن جیتاتھا وہ کشش کھوچکے ہیں۔ رام مندر کی تعمیر، پاکستان کے خلاف سخت گیر پالیسی، کشمیریوں کو مسلسل دباؤ میں رکھنا ، ہمسائیوں کے ساتھ کشیدگی اور دوردیسوں کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانا۔ بھارتی شہریوں کے دل کو بھایا نہیں۔معیشت کی ترقی اور روزگار کی فراہمی کے جو سہانے سپنے دکھائے گئے تھے وہ ڈرائونے خواب بن کر بی جے پی کی نیندیں حرام کررہے ہیں۔ لوگ سراب کا تعاقب کچھ وقت تک کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں لیکن انہیں زیادہ دیر تک دلفریت نعروں سے بہلایانہیں جاسکتا۔ وزیراعظم عمران خان کی طرح نریندر مودی نے بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ برسرقتدار آئے تو معیشت کا پہیہ رواں دواں ہوگا۔ دودھ وشہد کی نہریں بہیںگی۔ نیرو بانسری بجائے اور راوی چین لکھے گا لیکن ہوا اس کے برعکس ہے۔ کسانوں کی آئے دن کی خودکشیاںنریندر مودی کے شائینگ انڈیا کا بھانڈا عین چوراہے میں پھوڑرہی ہے۔ کشمیر میں حالات پہلے سے ابتر ہوگئے ۔ نیپال اور مالدیب جیسے چھوٹے ممالک پکے ہوئے پھل کی ماند چین کی گود میں جاگرے ہیں ۔ ذرائع و ابلاغ کے بزرجمہروں کو بھی بی جے پی کی حکومت میں سکون کا سانس نصیب نہ ہوا۔ سرکار کے دباؤ نے ان کے کس بل نکال دیئے۔ کئی ایک صحافیوں کو محض اس وجہ سے ملازمت سے نکال دیا گیا کہ حکومت انہیں بلیک لسٹ کرچکی تھی۔انسانی حقوق کے علمبرداروں کا عرصہ حیات بھی تنگ کیاگیا۔ کئی ایک کوزنداں کی ہوا کھانا پڑی۔ اپنی کھال بچانے کی خاطربہت ساروں نے چپ سادھ لی۔عالم یہ ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے دفاتر پر کئی بار چھاپے مارے گئے۔چنانچہ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر آکار پٹیل نے ایک بیان میں کہا : سرکاری ایجنسیاں لگاتار ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے ساتھ مجرموں کی طرح سلوک کر تی آرہی ہیں۔ پاکستان کی موجودہ حکومت نے امن کا پھیریرا تھام کر بی جے پی کے پاکستان مخالف نعروں سے ہوا نکال دی۔ کرتارپور کی راہداری سکھوں کے لیے کھولنا ایک چھکے سے کم نہ تھا۔ کرتاپور پاکستان اور بھارت کے منجمد تعلقات کی برف اگرچہ نہ پگھلا سکالیکن امن کے قیام کی پاکستانی خواہش اور کوشش کی پورے ہندوستان میں منادی کراگیا۔وزیراعظم عمران خان کا لائیو خطاب بھارت کے کروڑوں شہریوں نے سنا۔ پاکستان جنگ وجدل نہیں مذاکرات، تجارت اور تنازعات کا حل میز پر بیٹھ کر نا چاہتاہے کا پیغام انہیں ملا۔ بی جے پی کے پاکستان مخالف روایتی نعروں میں کوئی دم خم باقی نہ رہا۔ پاکستان کی طرح بھارت کا عام شہری بھی مذہب کے سیاسی مقاصد کے لیے مسلسل استعمال سے عاجز آچکا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے مندر او رمسجد کے نام پر شہریوں کو بے وقوف بنایا۔ یہ چورن اب بکنے والا نہیں۔مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف غیر مساویانہ سلوک نے بھی باشعور بھارتیوں کو مضطرب کیا۔ وہ ایک ایسے سماج کو فروغ پاتانہیں دیکھناچاہتے جہاں گوشت کھانے یا پکانے پر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیاجاتاہو۔ یہ کہنا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اگلے چھ ماہ میں ہونے والے عام الیکشن ہار جائے گی ممکن نہیں لیکن اتنااطمینان کے ساتھ کہاجاسکتاہے کہ اگر بی جے پی نے مرکزی حکومت بنابھی دی تو وہ ایک کمزور حکومت ہوگی ۔ اس کی باگیں کئی ایک شراکت داروں نے تھامی ہوں گے ۔ہر حصے دار اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر زور بازو آزمائے گا۔بظاہر ایسا محسوس ہوتاہے کہ بھارت ایک بار پھر مخلوط اور اتحادی حکومتوں کے عہد کی طرف پلٹ رہاہے۔ پاکستان کی حکومت اور سیاستدانوں کی بہتر حکمت عملی یہ ہوگی کہ وہ اگلے چھ سات ماہ تک بھارت کے حوالے سے غیر ضروری بیان بازی سے گریز کریں۔ بی جے پی کو کوئی ایسا موقع نہ دیں جسے وہ استعمال کرکے اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرسکے کیونکہ بی جے پی کی حکومت سے خیر کی توقع رکھنا عبث ہے۔