مولانا سمیع الحق شہید
محمد حسین ہنرمل
ایک پہچان اُن کی جامعہ دارالعلوم حقانیہ تھی اور دوسری افغان جہاد اور افغان طالبان۔ دنیا مولانا سمیع الحق کو انہی دو حیثیتوں سے جانتی تھی ۔ جامعہ حقانیہ اکوڑہ میں ہزاروں کی تعداد میں طالبعلموں کی کفالت اور انہیں دینی علوم سے آراستہ کرنا مولانا سمیع الحق کی وہ بیش بہا خدمات تھیں جن کی ایک دنیا معترف رہی ہے ۔ جو لوگ مولانا کی اِن خدمات سے صرف نظر کرتے ہیں ، وہ گویا سورج کو ایک انگلی سے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔نوشہرہ کے قصبے اکوڑہ خٹک میںدارالعلوم ثانی کے نام سے شہرت رکھنے والاتاریخ علمی ادارہ جامعہ حقانیہ اُن کے والد معروف عالم دین شیخ مولانا عبدالحق ؒ نے 1947 میںقائم کیا تھا ۔ یہیں سے مولانا سمیع الحق نے اپنی دینی تعلیم کا آغاز کیا ،یہیں سے وہ فارغ التحصیل ہوئے اور اسی مدرسے میں اپنی زندگی کے آخری دنوں تک وہ درس بھی دیتے رہے ۔ ہزاروں کی تعداد میں انہوں نے یہاں پر نہ صرف پاکستانی شاگرد پیدا کیے بلکہ ایک بڑی تعداد میں افغانستان سے بھی تشنگان علم نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے اپنی علمی پیاس بجھاڈالی۔ آپ کے شاگردوں کی فہرست پر اگر نظر ڈالی جائے تومولانا نے دو درجن سے زیادہ ایسے شاگرد بھی پیدا کیے ہیں جو بعد میں سیاست میں آکر قومی وصوبائی اسمبلی اور ایوان بالا کے رکن بنے ۔مولانا سمیع الحق نے خود بھی سیاست میں ایک جاندار اکردار ادا کیا اور جمعیت علمائے اسلام (س ) کے نام سے ایک جماعت کی بنیاد رکھی ۔اسی جماعت کے پلیٹ فارم سے آپ دو مرتبہ سینٹ کے رکن بنے تھے جبکہ ایک مرتبہ ان کا صاحبزادہ مولانا حامد الحق قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ۔اسی کی دہائی کے آخری سالوں میں جب تحریک نظام مصطفی شروع ہوئی تو اس تحریک میں بھی آپ کا ایک قائدانہ کردار رہا یہاں تک کہ اسی پاداش میں حکومت وقت نے انہیں ہری پور جیل میں پابند ساسل بھی کیا۔1988 میں مولانا عبدالحق کی وفات کے بعد جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کا سارا انتظام و اہتمام ان کی وراثت میں آگئی تھی ۔چند سال پہلے جامعہ حقانیہ کی سالانہ دستار بندی کے موقع پر جب وہاں پر زیر تعلیم دوست مفتی سید طاہر شاہ کی دعوت پر جاناہوا تو جامعہ حقانیہ اور وہاں کی تعلیمی ماحول بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ وہاں پراگرچہ جامعہ کے مایہ ناز استاداور کئی کتابوں کے مصنف مولانا فیض الرحمن حقانی سے کئی ملاقاتوں اوربہت کچھ سیکھنے کا موقع توملا لیکن مولانا صاحب سے باالمشافہ ملاقات پھر بھی نہ ہوسکی۔ مولانا سمیع الحق کی دوسری پہچان جہاد اور باالخصوص افغان جہاد تھی جس کو نہ صرف ہروقت اُن کی اخلاقی حمایت حاصل رہی بلکہ ہرزمانے میں انہوں نے افغانستان میں برسوں سے برسرپیکار طالبان کی ہر ممکن تعاون بھی کرتے رہے۔افغان جہاد کے حوالے سے مولانا کی پالیسی ایک کھلی کتاب کی مانند تھی جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی ۔ جس طرح تعلیمی میدان میں مولانا کے خدمات کی ایک دنیا اعتراف کرچکی ہے، میرے خیال میں اتنی ہی بڑی تعداد میں لوگ ان کی فغانستان کی جہاد ی پالیسیوں سے اختلاف بھی کرتے تھے۔اِس مضمون نگار کا تعلق بھی اسی طبقے سے ہے جو ہر وقت ان کی مذکورہ پالیسی کے ناقد رہے ہیں۔لیکن دل کی بات کہی جائے تو مولانا صاحب کی موت نے دوسروں کی طرح مجھے بھی بہت دکھی کردیا۔ گزشتہ جمعہ کی شام دشمنوںنے ان کو جس سفاکانہ طریقے سے چھریوں کے درجن بھر وار کرکے شہید کردیا ، میں سمجھتا ہوں کہ ہر ذی احساس انسان کو ان کے دشمنوں کے اس سفاک عمل نے جھنجھوڑ کرکے رکھ دیا ہوگا ۔ اس پر مستزاد یہ کہ شہادت کے بعدان کی اُس خون آلود تصویر سے ان کے بہی خواہوں کے دکھ میں مزید اضافہ ہوا جسے چند غیر حساس اور لاپرواہ لوگوں نے سوشل میڈیا پر ڈال کر وائرل کردیا۔ مولاناسمیع الحق کو جس اذیت ناک اور انسانیت سوز انداز میں ان کے دشمنوں نے موت کے گھاٹ اتار ا اتنا ہی بے جا اور غیر ضروری عداوت کا اظہار ان کے اُن بدخواہوں نے بھی کیا جو مولانا کی جہادی پالیسیوں سے چڑ رکھتے تھے ۔ بلاشبہ، ان کی جہادی پالیسیوں سے اختلاف رکھنا کا حق ہرکسی کو حاصل ہے لیکن ان کی شہادت کی خوشی کے شادیانے بجانا اور بھنگڑے ڈالنا نہ صرف اسلامی اقدار کا منافی عمل تھا بلکہ انسانیت اور پشتونولی بھی اس کی اجازت نہیں دیتی تھی۔جس بھونڈے طریقے سے یہاں کے بعض قوم پرست عناصر نے ان کی سفاکانہ موت پر کھلم کھلا خوشیوں کا اظہار کیا، اس پرصد افسوس ہی کیا جاسکتاہے۔ مولاناسمیع الحق کی شہادت پر خوشی سے رقص کرنے والے تو بظاہر اپنی اس مجرمانہ عمل کو افغانوں کی خدمت اور ان سے اظہار یکجہتی سمجھتے ہیں لیکن ان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مولانا کی شہادت سے سب سے بڑا دھچکا افغانستان کے پرامن حل کی کوششوں کو لگاہے ۔ وہ بے شک طالبان کے روحانی اور باپ سمجھے جاتے تھے لیکن اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کے دیگر علماء میں مولانا سمیع الحق ہی وہ واحد عالم دین تھے جو سب سے زیادہ افغان طالبان پر اثر انداز ہوسکتے تھے اور طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھا سکتے تھے ۔جامعہ حقانیہ میں درس وتدریس کے ساتھ ساتھ مولانا سمیع الحق نے تصنیف وتالیف کاکام بھی پیہم جاری رکھا۔ بے شمار کتابیں تصنیف کیں اورانٹرنیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی جدہ کی شائع کردہ کتاب کا اردو ترجمہ ’’جدید فقہی فیصلے‘‘ بھی ان کی کوششوں سے ہوا ۔حال ہی میں انہوں نے اپنی ڈائری بھی شائع کی تھی جس میں انہوں نے ماضی اور اپنی زندگی میں پیش آنے والے اہم واقعات کا بڑی عرق ریزی کے ساتھ احاطہ کیا ہواہے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ مولانا اردو صحافت اور ادب سے بھی خو ب شناسائی رکھتے تھے ۔وہ کمال کے لکھاری تھے اور اردو دانی میں بھی اپنی مثال آپ تھے ۔ ان کے مدرسے سے شائع ہونے والا ماہنامہ ’’ الحق ‘‘ ان کی ادارت میںابھی تک شائع ہوتا تھا جسے کئی دہائیاں پیشتر ان کے والد شیخ مولانا عبدالحقؒ نے جاری کیاتھا۔بلاشبہ، مولانا سمیع الحق کی شہادت سے علمی دنیا میں ایک نہ پرہونے والا خلا پیدا ہوا ،خدا کرے کہ ان کے سفاک قاتل جلد ازجلد گرفتار ہوجائے ، اللہ تعالی سے ان کی مغفرت اور بلندی درجات کیلئے دعاگوہ ہیں۔