2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

مولانا کی شخصیت کا نیا رخ

اشرف شریف
20-10-2024

مولانا فضل الرحمان کا چہرہ ایک نئے رخ سے قومی سیاست میں ابھر رہا ہے۔ان کا مذاق اڑانے والے کم از کم اس بات پر ضرور متفق ہو گئے ہیں کہ موجودہ بحرانی دور میں مولانا سب سے سیانے اور معاملہ فہم سیاست دان ہیں، آصف علی زرداری سے بھی زیادہ۔قومی تنازعات میں ان کی فراست کو اسی طرح رہنما حیثیت ملتی رہی تو امید کی جاسکتی ہے کہ مولانا اگلے جمہوری سیٹ اپ میں ریاست کی اہم ذمہ داری سنبھال سکتے ہیں۔آئینی ترمیم کا ایک معاملہ پارلیمانی جماعتوں، میڈیا اور طاقت کے مراکز کے سامنے ہے۔اس پیکیج میں آئینی عدالت کی شق کو میثاق جمہوریت کا حصہ بتایا گیا، کہا گیا کہ مرحومہ بے نظیر بھٹو کی یہ خواہش تھی، پھر بتایا گیا کہ قائد اعظم محمد علی جناح ایک آئینی عدالت کے آرزو مند تھے۔یہ سب بلاول بھٹو زرداری بتا رہے تھے ۔کچھ لوگوں نے اعتبار کر لیا ہو گا لیکن اکثریت کو ان کی بات پر یقین نہیں ،اسی لئے کراچی بار سے خطاب والا ان کا لہجہ کہیں غروب ہو چکا ہے۔انہوں نے سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی جو ذمہ داری از خود قبول کر لی تھی اب وہ اس سے باعزت جان چھڑانا چاہتے ہیں۔بلاول بھٹو ہی نہیں وزیر اعظم شہباز شریف بھی اپنا بھرم رکھنا چاہتے ہیں۔حکومت ایک بار ترمیم منظور کرانے میں ناکام ہو چکی ہے۔یہ اس کی پارلیمانی طاقت کے لئے دھچکا ہے۔ دوسری بار ناکامی ہوئی تو بہت جگ ہنسائی ہوگی اس لئے ترمیم تو ہو گی لیکن اس کا داخلی متن اپوزیشن کی زیادہ سے زیادہ مرضی کے مطابق بنایا جا سکتا ہے۔ایک بار منظور ہو جائے تو حکومت اور اس کے اتحادی ناکامی پر مٹی ڈال کر ترمیم منظور کرانے کا جشن منائیں گے۔لوگ بھول جائیں گے کہ اس ترمیم کے مسودے اور پہلے مسودے کے درمیان فرق کتنی اناوں کو قربان کرنے سے آیا،کتنے سر جھکے اور کتنی آنکھیں شرمسار ہوئیں۔اپوزیشن جماعتوں کی شکایات کا سلسلہ طویل ہے۔اب اس صورت میں اگر بلاول بھٹو زرداری مسلم لیگ نواز کو بیچ منجدھار چھوڑ کر مولانا اور پھر ان کے ذریعے پی ٹی آئی سے کامیاب ڈیل کر لیں تو ؟؟؟ سب کچھ ویسا ہی رہے گا جیسا ہے ،بس ڈرائیونگ سیٹ پر نیا پائلٹ آجائے گا۔ سیاست دان خیر سے خوب جان چکے ہیں کہ ایک دوسرے کی جماعت ، خاندان اور مفادات کا نقصان کیسے کرنا ہے ۔یہ نہیں کہ مسلم لیگ نواز ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔میاں نواز شریف نے ایک میڈیا ڈپلومیسی کی ہے۔سینئر صحافی برکھا دت کے ساتھ آدھی درجن دوسرے نمایاں صحافی شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس کور کرنے بھارت سے آئے تھے۔یہ صحافی نواز شریف سے ملے۔نواز شریف نے سہولت کے ساتھ ایک پیغام ان کو تھما دیا کہ’’ پاکستان اور بھارت کا ماضی بہت تلخ رہا ہے،اب ہمیں مستقبل کی طرف دیکھنا ہے۔‘‘انہوں نے یہ بھی کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ذریعے از سر نو تعلقات استوار کرنے کی شروعات ہو سکتی ہیں۔کہا کہ وزیر اعظم مودی خود آتے تو بہت اچھا ہوتا ۔ کچھ روز قبل بلاول بھٹو زرداری نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو خوش آمدید کہتے ہوئے طنز کیا تھا کہ ’’ مودی بہادر ہوتے تو خود آتے‘‘۔شائد بلاول جے شنکر سے ایک پرانا بدلا لے رہے تھے لیکن نواز شریف نے جو لہجہ اختیار کیا وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری کی راہ ہموار کرتا ہے۔اس کا آغاز شائد چیمپئنز ٹرافی میں بھارتی ٹیم کی پاکستان آمد سے ہو جائے۔ بہرحال نواز شریف نے ایک پتہ کھیل دیا ہے جو ان کی واپسی کو ایک قومی ضرورت بنانے کی منصوبہ بندی کا حصہ نظر آتا ہے۔سیاست دان کی مستعدی یہی ہوتی ہے کہ وہ درپیش حالات میں اپنی موجودگی اور اہمیت کا جواز تلاش کرے۔فرض کر لیتے ہیں کہ مولانا، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی آپس میں ڈیل ہو جاتی ہے تو پھر مسلم لیگ کا پاک بھارت تعلق والا پوائنٹ کس حد تک کارآمد رہتا ہے؟ کیا صرف یہ ایک پوائنٹ مسلم لیگ کا اقتدار بچا سکتا ہے؟ مسلم لیگ کس بات کا کریڈٹ لیتی ہے ؟ایک یہ کہ پی ٹی آئی سے سب اتحادیوں کو بہت بڑا خطرہ لاحق تھا لیکن ایک مقبول جماعت کی حکومت ختم کر کے لوگوں کی نفرت برداشت کرنے کی ہمت اس نے کی، اپنی سیاست کو خطرے میں ڈالا۔اپنی قیادت اور جماعت کی ساکھ کو خطرے میں اس وقت ڈالا جب کوئی دوسری جماعت بیمار معیشت کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہ تھی۔یہ مسلم لیگ نواز کا بیانیہ ہے ،لازم نہیں کہ دوسرا اس سے اتفاق کرے ، خاص طور پر وہ معترضین جن کے خیال میں قانونی مقدمات ختم کرانے کا اس سے اچھا موقع مسلم لیگ ن کو کبھی نہیں ملا۔میاں نواز شریف کبھی واپس نہ آتے ۔مریم نواز وزیر اعلیٰ نہ بن پاتیں۔یوں فوائد و نقصانات کسی ایک فریق کے پلڑے میں نہیں جاتے سب کے حصے میں آتے ہیں۔ مسلم لیگ نواز جانتی ہے کہ اس کی سیاست پنجاب کے گرد رہی ہے۔پنجاب ان کے ترقیاتی ماڈل کا شو کیس رہا ہے۔ پنجاب میں پہلے وزیر اعلیٰ شہباز شریف وزیر اعظم نواز شریف کی قومی پالیسیوں کی تعریف کرتے ،نواز شریف چھوٹے بھائی کی انتظامی صلاحیتوں کو داد دیتے۔اب یہ کھیل چچا بھتیجی کے درمیان ہوتا ہے لیکن شو کیس میں اس بار ترقیاتی منصوبوں کی گنجائش نہیں۔مسلم لیگ کو پہلی بار گورننس کے محاذ پر اپنی کارکردگی دکھانے کا چیلنج درپیش ہے۔ 1849 میں پنجاب کی وسیع و عریض سلطنت برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں کے قبضے میں آگئی اور اس کے بعد برطانوی راج کے تحت پنجاب ایک صوبہ بن گیا۔آج کا کے پی کے اس صوبے کا علاقہ تھا کشمیر اس کا حصہ تھا۔دلی کو چھوتی لکیر سے پشاور تک اس کا حصہ تھے۔اتنے بڑے ملک کو صوبہ بنایا تو شاندار انتظامی ڈھانچہ مہیا کیا گیا۔ 19ویں صدی کے آخر تک، آزادی کی تحریک نے صوبے میں زور پکڑ لیا۔ تحریک سے وابستہ سب سے اہم واقعات میں سے ایک 1919 کا امرتسر کا قتل عام تھا، جس کے نتیجے میں برطانوی جنرل ریجنلڈ ایڈورڈ ہیری ڈائر نے تقریباً 10,000 ہندوستانیوں کے ایک گروپ پر گولی چلانے کا حکم دیا جو نئے قوانین کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ برطانوی انتظامیہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس تنازعے میں تقریباً 400 افراد ہلاک اور 1200 کے قریب زخمی ہوئے۔لاہور میں ان دنوں حکومتی جبر کا بھیانک مظاہرہ دیکھا گیا جس کے اثرات ااج تک لاہوریوں پر ہیں۔ جب آزادی حاصل کی تو، برطانوی صوبہ پنجاب ہندوستان اور پاکستان کی نئی خود مختار ریاستوں کے درمیان تقسیم ہو گیا۔ بانیان پاکستان نے ملک کو ایک قومی ریاست قرار دیا، آئینی طور پر ایک پارلیمانی جمہوریہ ۔لیکن یہ کیا ہوا کہ پاکستان ایک پولرائزڈ ریاست بن گیا ۔ معاشرہ نسلی طور پر تقسیم ہے۔ پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتون۔ تمام کمیونٹیز وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ پاکستان، ایک وفاقی ریاست کے طور پر، اپنے عوام کو مساوی معاشی منافع فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے اور نہ ہی زیادہ آبادی والے صوبوں میں اچھی حکمرانی کو یقینی بناسکا ہے جن کا بنیادی ڈھانچہ ناقص ہے ۔آئینی ترمیم کا معاملہ حل ہو جائے گا لیکن نظام کے سامنے اب سکولوں کے بچے سوال اٹھانے لگے ہیں،وہ تو مصلحت سے آشنا نہیں ۔اب کیا ہوگا؟