مکافاتِ عمل
وسی بابا
تحریکِ انصاف حکومت کی قبل از وقت رخصتی اور ایک مشکوک انتخابی عمل کے ذریعے وراثتی پارٹیوں کی اقتدار میں واپسی کا نتیجہ جمہوری زوال کی صورت میں نکلا ہے۔ دوسری طرف ملک قرضوں کی دلدل میں پھنس کر دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور عوام ٹیکسوں کے بوجھ تلے بلبلا رہے ہیں ۔نہ تو ٹیکس کا دائرہ کار پھیلا ہے اور نہ ہی کفائت شعاری کا کوئی وجود۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی جمہوری اقدار کے تحفظ اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے درکار مناسب ماحول پیدا کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہیں۔ سیاسی تبدیلی سر پر ہے لیکن انیس سو نوے کی دہائی کی حریف اور نیو لبرل عالمی نظام کے اہداف کے حصول کے لیے دوستی کی ڈور (میثاق جمہوریت) میں بندھی ان سیاسی پارٹیوں کا مستقبل واضح طور پر بے یقینی کی دھند میں لپٹ چکا ہے۔ سوویت یونین ٹوٹا تو امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے جمہوریت کے زیر سایہ آزاد منڈیوں کے فروغ کا بیڑا اٹھایا۔ جمہوریت، بنیادی حقوق کی ضمانت، کاروبار کی آزادی اور اشیا و سرمایہ کی سرحدوں کے آر پار آزادانہ نقل و حرکت اس نظام کی اساس تھی۔ بین الاقوامی مالیاتی اور ترقیاتی اداروں کی معرفت کمزور جمہوریتوں کو دل کھول کر قرض دیے گئے تاکہ معاشی اصلاحات کے عمل کو تیز تر کیا جاسکے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں نے اس نظام پر ایمان لانے میں ذرا بھر بھی توقف نہ کیا اور نہ ہی بیرونی قرضوں کے حصول میں تامل۔ نعرہ لگ گیا کہ ریاست کام کاروبار کرنا نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہے ۔ مطلب، حکومت نجی شعبے کو پھلنے پھولنے کا موقع دے گی۔ کاروبار کی توسیع کے لیے بینک قرضے فراہم کرینگے۔ ہمسایہ اور دیگر ممالک کے ساتھ آزاد تجارت کو فروغ دیا جائیگا ۔ برآمدات سے زرمبادلہ کا حصول ہوگا تو سستے مداخل خام مال، سرمایہ صنعت کے پیداواری اخراجات کو کم کریں گے۔نیولبرل نظام کے قیام کے وقت پاکستان ایک جاگیردارانہ ۔عسکری ریاست تھا جو سرمایہ دارانہ نظام کی حلیف کے طور پر وجود میں آئی تھی اور سر د جنگ کے کھیل کا لازمی حصہ۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک دوسرے سے نبر د آزما تھیں اور نوآبادیاتی دور کا قانونی،آئینی اور معاشی ڈھانچہ اپنی جگہ پر برقرار۔شخصی آزادیا ں نا پید اور قومیت کا تصور ناپختہ تھا۔ اسلام کی عسکری شناخت کے علمبردار مذہبی گروہوں نے افغان جہاد میں بھر پور کردار ادا کیا تھا، انکا اثرو نفوذ ریاستی اداروں میں مستحکم تھا۔ نوے کی دہائی میں مسلم لیگ ن انہیں کے کندھوں پر سوار ہوکر انتخابات جیتتی اور حکومت بناتی رہی۔ پیپلز پارٹی نے قوم پرستوں اور نجکاری سے خائف سرکاری ملازمین کا سہارا لیا۔دونوں پارٹیوں نے معاشی اصلاحات کی مد میں حاصل ہونے والے قرضوں کو ایسے جتھوں اور گروہوں کو ہمنوا بنانے پر خرچ کیا جو ان کی انتخابی جیت کو یقینی بنا سکیں۔ ایک منقسم پارلیمان کی موجود گی میں آئینی اصلاحات پر توجہ نہ دی جاسکی کہ شخصی آزادیاں بحال اور جمہوری ادارے مضبوط ہوسکیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں عناد اور اسکے نیتجے میں آنے والا سیاسی عدم استحکام اس دہائی کا المیہ اور معاشی اصلاحات میں سب سے بڑی رکاوٹ ٹھہرا تو اس مقصد کے لیے جنرل مشرف میدان میں اتارے گئے۔ مغرب میں اس وقت یہ سوچ بھی اجاگر ہوچکی تھی کہ مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں آمریت کی بزور بازو بیخ کنی دنیا کو جمہوری بنانے کے ضروری ہے۔ فیصلہ ہوا کہ جنرل مشرف کی معاشی( بنینکنگ ، توانائی شعبے) اور سیاسی اصلاحات (پارلیمانی نظام میں تسلسل اور مقامی حکومتیں ) کے بل بوتے پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں صلح کرادی جائے۔ امریکہ وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کی نگرانی میں ہونے والا میثاق جمہوریت اس کی کڑی تھی۔ دس سال ان سیاسی پارٹیوں نے باری باری حکومت کی۔سیاسی استحکام تو آیا لیکن احتسابی نظام مفلوج رہا ، صوبائی خودمختاری تو دی گئی لیکن نئے صوبوں کے قیام کا راستہ بند اور مقامی حکومتوں کے نظام کو لپیٹ دیا گیا۔ معاشی اصلاحات اور ٹیکسوں کے دائرے میں توسیع خواب ہی رہا۔ تیزی سے ابھرتی معیشت ، بھارت کے ساتھ، کشیدگی بھی کم نہ ہوسکی تو علاقائی تجارت کے فوائد بھی نہ سمیٹے جاسکے۔ ایسے میں تحریک انصاف تبدیلی کے نعرے کے ساتھ منظر سیاست پر نمودار ہوئی۔ دو ہزار تیرہ میں اس نے خیبر پختونخواہ میں حکومت بنائی اور دو ہزار اٹھارہ میں اپنا دائرہ پنجاب اور مرکز تک وسیع کرلیا۔ کورونا وبا اور معلق پارلیمان کے موجودگی میں اسکی کارکردگی بھی کم وبیش وہی رہی جو اسکے پیشرووں کی۔ جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں منظم وراثتی پارٹیوں نے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف مہم چلائی اور اسے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کردیا۔نیرنگی زمانہ ہے کہ انتخابی عمل سے باہر کی گئی لیکن آزاد امیدواروں کے بل بوتے پر پارلیمان میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر واپس آنے والی اور تبدیلی کے لیے پرعزم تحریک انصاف کی موجودگی میں وراثتی پارٹیوں کی روایتی حلیف مذہبی جماعتیں ، جمعیت علمائے اسلام ف اور جماعت اسلامی ، آئین کی بالادستی کے لیے میدان میں ہیں اورکسی قسم کے سمجھوتے سے گریزاں۔پارلیمان کی حدود میں تحریک انصاف کے ممبران کی گرفتاری اور آئینی عدالتوں کے قیام کے لیے بل پیش کرنے میں ناکامی نے مخلوط حکومت کی ساکھ کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ملک سیاسی تبدیلی کے ایک بار پھر دہانے پر ہے۔ یہ تبدیلی پارلیمان کے اندر سے آئے تو ہی اس میں خیر کا پہلو ہے کہ یہی وہ طریقہ ہے جس سے لبرل معیشت سے ہم آہنگ آئینی، عدالتی اور انتظامی ڈھانچے میں تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔ اگر ملک کو غیر یقینی معاشی حالات میں انتخابات کی جانب دھکیل دیا گیا تو انتشار مقدر ہے۔ ن لیگ کا مقدر واضح ہے البتہ پیپلز پارٹی 'تبدیلی 'کا مخلصانہ ساتھ دے کر بہت کچھ بچا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ تبدیلی کا مطلب اس وقت تک نامکمل ہے جب تک شہری مساوات، تعزیراتی قوانین میں دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق اصلاحات اور مقامی جمہوریت کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم نہ کرلیا جائے۔