2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

مہاجرین کی زندگی موت سے بھی بدتر

قادر خان یوسف زئی
11-10-2024

لبنان کی سرزمین، جو کبھی تاریخ و تہذیب کا گہوارہ ہوا کرتی تھی، آج اسرائیلی بمباری کے بوجھ تلے چیخ رہی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ معصوم انسانوں کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں، اور انسانیت کا خون بہایا جا رہا ہے ۔یہ صرف ایک خطہ نہیں جو جل رہا ہے، بلکہ یہ پوری انسانیت کی تباہی کا ایک المناک منظر ہے۔ اسرائیل کی حالیہ جارحیت نے ہزاروں بے گناہ جانیں لیں، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ یہ وہی دشمنی ہے جو غزہ میں بھی جاری ہے، جہاں ہر دن موت اور تباہی کے نئے باب کھلتے ہیں۔ اور پھر یہ کہنا کہ اسرائیلی جارحیت دفاع ہے، یہ ایک مکمل جھوٹ اور، حقیقت سے دور ہے۔ لبنان اور غزہ میں اسرائیلی بمباری نے ہزاروں بے گناہ جانیں لے لی ہیں، اور باقی ماندہ لوگ اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جنہیں اپنے گھروں میں محفوظ رہنا چاہیے تھا، وہ آج اپنے خاندانوں سمیت اپنی زندگی بچانے کے لیے دربدر بھٹک رہے ہیں۔ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری نے اُنہیں نہ صرف اپنے گھروں سے محروم کر دیا، بلکہ ان کی بنیادی انسانی حقوق اور بقا کی ہر کوشش کو بھی نیست و نابود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فلسطین کی نہایت ہی سنگین اور انسانیت سوز صورتحال ہے ۔جو لوگ موت سے بچ کر پناہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے، وہی اُن کے راستے میں موت کا پیغام بن کر آ گئی۔پناہ گزین اورآئی ڈی پیزنہ صرف اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں، بلکہ وہ ہر قسم کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ ان کے پاس نہ کھانے کے لیے خوراک ہے، نہ پینے کا صاف پانی، اور نہ ہی طبی سہولیات تک رسائی۔ بچے اور بوڑھے، جنہیں سب سے زیادہ دیکھ بھال اور حفاظت کی ضرورت ہے، آج اسرائیلی جارحیت کا براہِ راست شکار ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان مہاجرین اور بے گھر افراد کی حالت مزید ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ اسرائیلی بمباری نے رہائشی علاقوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے، اور ان کی زندگیوں میں کبھی نہ ختم ہونے والی مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ ہزاروں مہاجرین اور آئی ڈی پیز غیر یقینی حالات میں اپنے مستقبل کی تلاش میں دربدر بھٹک رہے ہیں۔ان پناہ گزینوں کے حقوق کی پامالی ایک المناک حقیقت ہے۔لبنان اور غزہ کی سرزمین پر برپا ہونے والی یہ قیامت انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم ہے۔ اسرائیل کی بمباری نے خطہ کے عوام کو نہ صرف ان کی زمین سے محروم کر دیا، بلکہ انہیں ان کے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیا ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں صرف زندہ رہنے کی کوشش ہی کافی نہیں ہے۔ فلسطینی اور لبنانی عوام کو ہر روز اپنی زندگی کے لیے لڑنا پڑتا ہے۔ اس جنگ میں دنیا کی خاموشی ناقابلِ برداشت ہے۔ غزہ اور لبنان میں صرف ملبہ اور راکھ کے مناظر ہیں۔ جنوبی بیروت کو اسرائیل کی وحشیانہ بمباری نے قبرستان میں تبدیل کر دیا۔ حزب اللہ کی اعلیٰ قیادت کو یکے بعد دیگرے موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا۔ اسرائیل کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مزاحمت کا جذبہ موت سے ختم نہیں ہوتا۔ اسرائیل کے حملوں کے باوجود اپنی آزادی اور عزت کی حفاظت کا عزم کیا ہوا ہے۔ غزہ، جو پہلے ہی اسرائیلی جارحیت کا شکار ہے، آج بھی اسرائیلی بمباری کے زیرِ اثر ہے۔ ہر روز غزہ کی فضاؤں میں دھماکوں کی آوازیں گونجتی ہیں، اور ہر دھماکے کے ساتھ ایک اور معصوم جان اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔ غزہ کے عوام کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ وہ نہ تو آزادانہ طور پر جی سکتے ہیں، نہ اپنے بچوں کو محفوظ ماحول فراہم کر سکتے ہیں، اور نہ ہی اپنے گھروں میں سکون سے سو سکتے ہیں۔ ہر گزرتا دن غزہ کے عوام کے لیے موت کا پیغام لے کر آتا ہے۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے کی جانے والی وحشیانہ بمباری نے غزہ کی عمارتوں کو ملبے میں تبدیل کر دیا ہے، اور ہزاروں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسپتال، سکول، اور مساجد بھی اس بمباری سے محفوظ نہیں رہ سکیں۔ یہ جنگ کسی فوجی مقصد کے لیے نہیں، بلکہ ایک پوری قوم کو مٹانے کی سازش ہے۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالمی برادری کی خاموشی ناقابلِ فہم اور شرمناک ہے۔ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق کے علمبردار ادارے، اور عالمی طاقتیں سب خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ غزہ میں جاری قیامت اور لبنان میں ہونے والے ظلم و ستم پر کوئی عملی قدم اٹھایا نہیں جا رہا۔ یہ وہی عالمی برادری ہے جو خود کو انسانی حقوق کا محافظ کہتی ہے، لیکن جب فلسطین یا لبنان کی بات آتی ہے تو ان کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔حالیہ تاریخ اسرائیلی رہنماؤں کے لیے تلخ اسباق سے بھری پڑی ہے۔ لبنان میں ہونے والی مزاحمت، غزہ کے عوام کی بے پناہ ہمت اور اسرائیل کے اندر اٹھنے والی مزاحمتی آوازیں اس بات کی گواہ ہیں کہ ظلم کے خلاف آواز ہمیشہ بلند رہے گی۔ اسرائیل جتنے بھی جسمانی تکالیف دے، جتنی بھی بمباری کرے، مزاحمت کا جذبہ کبھی نہیں مرے گا۔ وقت کی صرف ایک کروٹ اس تنازعے کی سمت بدل سکتی ہے۔ اسرائیل کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ظلم کی عمر بہت کم ہوتی ہے، اور تاریخ گواہ ہے کہ جو بھی ظلم کے راستے پر چلا، اسے بالآخر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔یہ وقت ہے کہ بین الاقوامی برادری اپنے ضمیر کو جھنجوڑے اور اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کے لیے فوری اور عملی اقدامات کرے۔ یہ ایک ایسا وقت ہے جب انسانیت کے تحفظ کے لیے تمام اختلافات کو پس پشت ڈال کر انسانیت کی بقا کی جنگ لڑی جانی چاہیے۔مسلم حکمراں سوچنا ہوگا کہ یہی اسرائیل کل ان پر بھی حملہ آور ہوسکتا ہے۔ اس کو کسی بھی مسلم ملک پر حملہ کرنے کے لئے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں بلکہ لگتا ہے کہ اگر خاموش رہنا کا یہی رواج رہا تو پھر کوئی یہ نہ سمجھے کہ کل ان کو نشان عبرت نہیں بنایا جاسکتا ۔