میری قیاس فیلو
ڈاکٹر اشفاق احمد ورک
دوستو! سچ پوچھیں تو پاکستان میں عدالت عظمیٰ اور عظمیٰ بخاری جیسی بے مثل چیزوں کے ہوتے ہوئے عظمیٰ ہونا اور لگاتار ہوتے چلے جانا کوئی آسان کام نہیں۔ آج کی تقریب کی مہمانِ خاص خاتون گزشتہ پون صدی سے نہ صرف نام کی عظمیٰ ہے بلکہ تعلق، دوستی، رویے، رکھ رکھاؤ اور کردار میں بھی سچ مچ کی عظمیٰ ہے۔ یہ اندھیر والی دیر ہے یا قسمت کا پھیر ہے کہ مجھے اس طویل مختصر زندگی میں جب بھی کوئی جی دار، دَم دار یا دل دار قسم کا دوست ملا ، اسے دیکھنے، پرکھنے، جانچنے کے بعد یہ احساس شدید تر ہوتا چلا گیا کہ: تُو بہت دیر سے ملا ہے مجھے مَیں آپ کو بتاتا چلوں کہ پروفیسر عظمیٰ مسعود کو مجھ سے متعارف کرانے کی سازش ایک محرمِ رازِ درونِ خانہ کے بالا خانے میں تیار ہوئی۔ دھیان کی غلط سلط سیڑھیاں چڑھنے سے پہلے سن لیں بلکہ جان لیں کہ میرے نزدیک ’بالا خانہ ‘ انسانی جسم کی اُس بالائی منزل کو کہا جاتا ہے، جس میں کہیں کہیں حضرتِ دماغ بھی رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے، اُس مشکوک بالا خانے کا وجود بھی اِسی مذکور بالاخانے کی نَو رُستہ، نہفتہ اور ناگفتہ بہ حسرتوںاور حیرتوں کے بل بوتے پر قائم ہے۔اگر مسعود صاحب سن نہ رہے ہوں تو مَیں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوںکہ یہ عظمیٰ مسعود نامی خاتون، انسانی قلبوت میں قید، خواہشات و تجربات و حادثات و مفروضات و ملفوظات و مکروہات و مرغوبات کے ایک عجیب و غریب ملغوبے کا نام ہے۔ اسے تعلق اور تعارف کا دشت ایک ہی جست میں ننگے پاؤں پھلانگ کر ، دوست اور محبوب کے درجے پر فائز ہو جانے کی دیرینہ، پیچیدہ اور لا علاج بیماری ہے۔ مَیں آج اگر کبھی اپنی دوست داریوں کے وسیع و عریض عجائب خانے پہ سرسری سی نگاہ بھی کرتا ہوں ، اور تو اور میری اپنی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ یہ عجائب نگر، جو کھلکھلاتے، کلبلاتے، کلکاریاں، فنکاریاں مارتے چوسنی نواز بچوں، یعنی اپنی سات ماہ کی پوتی مکھنی سے لے کے ممتاز مفتی جیسے پڑپوتا بردار چن مکھنوں سے بھرا پڑا ہے۔اگر مَیں آپ کو اس کی مکمل جھلک دکھا دوں تو آپ میری حالت اور حلاوت کے علاوہ حاجت، سماجت، مجاجت پہ بھی زارو قطار ہنسیں گے۔ سچ بتاؤں ایسے ہی رنگا رنگ اور دنیا کی نظروں میں بے جوڑ لوگوں کی دوستی میرے ارمانوں کو جوالا مُکھی کی مانند روشن رکھے ہوئے ہے۔ مَیں آپ کو کیسے بتاؤں کہ چند سال قبل جب میری سب سے چھوٹی بیٹی میرے گلے میں باہیں اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہا کرتی کہ آج مجھ سے وعدہ کریں کہ آپ میرے نانی اور دادی بن جانے کے بعد بھی ہر صورت زندہ رہیںگے، تو اس زندہ دلی اور زندگی طلبی پہ میرا سینہ، محبت کا مدینہ بن جایا کرتا۔ پھر جب ممتاز مفتی جیسا گُرگِ باراں دیدہ یا عقابِ سال خوردہ ستاسی سال کی عمر میںمجھ جیسے ستائیس سالہ ’شاہین بچے‘ ، ینگ سیگل یا نو آموز قلم کار کو خط میں لکھتا کہ : ’’ اشفاق احمد وِرک! تمھارے دوستوں سے متعلق لکھے خاکے پڑھ کے میرا جی چاہتا ہے کہ کاش مَیں بھی تمھارا دوست ہوتا‘‘ تو میرا سر، الف اور سلف کا کلف لگا کے فراز گردنوں، طراز لہجوں اور دراز بختیوں کی مانند کڑ کڑ کرنے لگتا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میری نئی نئی شادی ہوئی تھی (ویسے اگر کسی کی پرانی پرانی شادی ہوئی ہو تو اس کا مجھے بھی بتانا ) تو میرا شیخوپورہ میں مقیم انوکھی طرز کے مزاح نگار، شاعر، دل بہار شخصیت، یعنی اپنے سے دُگنی سے بھی زیادہ عمر کے پروفیسر افضل علوی سے دوستانہ ، یارانے کی حدوں کو چھو رہا تھا۔ ( یہاں بھی ستائیس اور ستاون کا خوف ناک یا خواب ناک فرق حائل تھا) نئی نکور شادی کے ممکنہ چاؤ چونچلوں ، خرخشوں اور امکانی صحبتوں، سیاحتوںکے دنوں میں بھی اُن سے ہفتے عشرے میں ایک آدھ طول طویل نشست کی گنجائش نکل ہی آتی تھی۔ گھر کے ہر معاملے، ہر بات، ہر کام میں ، علوی صاحب کا حوالہ جب نئی نویلی بیگم کے خانۂ شکوک و شبہات میں باقاعدہ گھنٹیاں بجانے لگا تو ایک دن تفتیش ، تشویش اور تشکیک کے ملے جلے انداز میں مجھ سے پوچھنے لگیں: ’’ یہ علوی صاحب آپ کے کلاس فیلو ہیں؟‘‘ مَیں نے جب عمروں کا تفاوت اپنے اثبات یا اقرارِ جرم میں حائل دیکھا تو عرض کیا: ’’ جی نہیں! وہ میرے قیاس فیلو ہیں!!‘‘ تو دوستو! پروفیسر عظمیٰ مسعود کی بابت بھی کسی غلط فہمی کی فضا ہموار ہونے سے قبل مَیں آپ کو، اپنی بیگم، مسعود صاحب اور دیگر تمام مستفسرین کو یہ بتانا ضروری خیال کرتا ہوں کہ عظمیٰ مسعود میری کلاس نہیں، قیاس فیلو ہیں اور یہ کہ مَیںانھی کی وجہ سے کُرہ ارض پر واقع ہر طرح کی ’عظمیٰ‘ کا ( ایک دو کے استثنا کے ساتھ) تہہِ دل سے احترام کرتا ہوں۔ یہ بھی وضاحت کر دوں کہ منشا یاد، حسین احمد شیرازی، ڈاکٹر علی محمد خاں، پروفیسر اکرم سعید اور عظمیٰ مسعود میرے ان قابلِ رشک احباب میں سے ہیں جن کو مَیں نے ریٹائرمنٹ کے بعد جوان ہوتے دیکھا ہے۔ ایسے ہی جیسے بعض لوگ غروبِ آفتاب کے بعد طلوع ہوتے ہیں۔ زندگی وزندہ دلی سے بھرپور شاعری کرنے والے جعفر بلوچ نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا: سروس سے ہم ہوئے ہیں ریٹائر تو کیا ہوا تصدیقِ زندگی سے ریٹائر نہیں ہوئے تزئینِ کائنات میں مصروف ہیں ابھی رنگ اور روشنی سے ریٹائر نہیں ہوئے ہم عظمتِ بشر کے ثنا خواں ہیں آج بھی تکریم ِ آدمی سے ریٹائر نہیں ہوئے اٹھتے ہیں اپنے دل میں ابھی تازہ ولولے جوش اور ہماہمی سے ریٹائر نہیں ہوئے ہر نوعِ حسن سے ہے ابھی اپنا ربطِ خاص دل اور دل لگی سے ریٹائر نہیں ہوئے یہ احساسِ زیست سے سرشار لوگوں کی وہ قسم ہے جو سرکاری درباری قسم کی ملازمت سے سبک دوشی اختیار کرنے کے بعد میڈ اِن چائنہ والا نیا تسبیح مصلّا خرید کے، ایک مسکین سی شکل بنا کے، لوگوں سے ہمدردیاں وصول کرنے یا اللہ میاں کے قلمی دوستی والے خانے میں خواہ مخواہ گھسنے کی بجائے، زندہ دلی کے گھوڑے پہ کاٹھی ڈال کے حالات و واقعات کے گھمبیر چہرے پہ خوش گفتاری و حقیقی دلداری کا غازہ مَلنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اور زمانے کے کردہ، نا کردہ گناہوں کی گھناؤنی فوٹو کھِچ کے بٹوے میں لگانے یا خلقِ خدا کے کانوں میں ٹپکانے کے بجائے، مسکراہٹ، سرسراہٹ، جستجو، گفتگو، شگفتگو اور زندہ دلی کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر، سید ضمیر جعفری کے اس فارمولے کی روشنی میں ہست و بود کے غم ناک و نمناک لشکر پہ ’خود خوش‘ حملہ کر دیتے ہیں کہ: راکھ میں اِک چنگاری تو سلگائے رکھ بوڑھا ہونا مرنے سے تو بہتر ہے ’’ بس یہی داستاں ہماری ہے‘‘ عظمیٰ مسعود کی زندگانی کی کہانی کے حوالے سے بڑا معنی خیز نام ہے کہ جہاں صحیح معنوں میں انسانیت کا ارتقا دکھائی دیتا ہے۔ اپنی دیگر تحریروں کی مانند اسے بھی انھوں نے دھیان دریچے میں بیٹھ کر دل کی روشنائی سے لکھا ہے۔