میرے چاروں طرف محبت ہے
سعد الله شاہ
درد کو اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی تھا جو اس دل میں دکھانے کی ضرورت کیا تھی ہم نے جو کچھ بھی کیا اپنی محبت میں کیا۔ایک شعر اور دیکھیئے کہ ’’ایسے لگتا ہے کہ کمزور بہت ہے تو بھی۔ جیت کر جشن منانے کی ضرورت کیا تھی‘‘ آج میرا دل چاہا کہ محبت پر ہی کچھ لکھا جائے تو سب سے پہلے اپنے دوست اظہار شاہین صاحب کا لازوال شعر ذہن میں آ گیا: تم کسی راستے آ جانا‘ میرے چاروں طرف محبت ہے محبت کا جذبہ تو ہے ہی جان لیوا کہ میں محبت کو زندگی سمجھا۔ اس محبت نے مار ڈالا مجھے۔ ادریس آزاد نے کہا تھا کہ ’’تم پہ مرتے ہیں تو کیا مار ہی ڈالو گے ہمیں۔ خیر محبت بھی عجب شے ہے کہ جب بازی پہ آتی ہے۔ تو سب کچھ جیت لیتی ہے ۔ یا سب کچھ ہار دیتی ہے ۔محبت مار دیتی ہے۔ میں کوئی اور بات کرنا چاہتا ہوں کہ محبت انسان کی تہذیب کرتی ہے یہی محبت ہے کہ جس میں احترام کا عنصر بھی آ جاتا ہے۔ ایک اہتمام اس میں برداشت کا یہی ہے۔ کہاں غلام محمد قاصر یاد آئے کہ: کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا گویا یہ کار محبت بھی کوئی شے ہے کہ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ویسے اپنے کام کے ساتھ محبت بھی تو محبت ہی کہلاتی ہے۔ ہاں مگر اپنے آپ سے محبت نرگسیت کہلاتی ہے۔ محبت خوشی کی طرح ہوتی ہے کہ پروین شاکر کہہ اٹھتی ہے۔ اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی ۔ایک اور شعر ذہن میں آ گیا: اس کو خوشبو کی طرح ساتھ بھی رکھوں اپنے روز پھر اس کو زمانے سے چھپانا چاہوں ویسے تو بقول امجد اسلام امجد یہ سب محبت کا پھیلائو ہے۔ہاں ہوس اور محبت میں بہت فرق ہے۔ بہرحال یہ ایک جذبہ ہے جو کسی کی شخصیت کو نکھارتا ہے ہاں خود سے محبت کی ایک مثال مجھے ثمینہ راجہ میں نظر آتی: تنہا سر انجمن کھڑی تھی میں اپنے وصال سے بڑی تھی وہ خود کو خدا سمجھ رہا تھا میں اپنے حضور میں کھڑی تھی ویسے محبت کی ب پر شد بھی ہے گویا اس عمل میں شدت بھی ہے ایسے ہی تفنن طبع کے تحت ضمیر جعفری صاحب کا ایک جملہ یاد آ گیا جو انہوں نے حفیظ جالندھری پر مضمون پڑھتے ہوئے بولا تھا کہ حفیظ جالندھری نے فرانسیسی خاتون سے اردو میں شادی کی اور پنجابی میں سلوک کیا اب پتہ نہیںمحبت کس زبان کی ہو گی۔ ہاں اگر سنجیدگی کی طرف آئیں تو اقبال سامنے آ جاتے ہیں کہ محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند محبت کا موضوع ہی ایسا ہے کہ اس میں ڈھیر ساری باتیں ہو سکتی ہیں۔خاص طور پر فیض احمد فیض کی نظم کہ جسے نور جہاں نے امر کر دیا اور فیض صاحب کہتے تھے یہ نظم تو اسی سے سنو: مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ یہاں بھی محبت کی شدت کم ہوتی ہے محبت سے انکار تو ہرگز نہیں۔ وہی جو منیر نیازی نے کہا تھا ’’اس عمر میں میں اتنا کمزور نہیں رہا۔مجھے تو اپنے محبوب شاعر کی نظم یاد آ رہی ہے کہ ان کے لبوں سے محبت ادا ہو رہی تھی اور ہم ان کے سامنے کیا کہ ہوٹل میں بیٹھے تھے۔ ستارے جو دمکتے ہیں کسی کے چشم حیراں میں مولاقاتیں جو ہوتی ہیں جمال ایرو یاراں میں یہ نا آباد دل ناشاد میں ہو گی محبت اب کچھ دن بعد ہو گی گزر جائیں گے جب یہ دن تو ان کی یاد میں ہو گی وہ دن بھی کیا سہانے تھے جب ہم اکٹھے بیٹھا کرتے تھے۔ یہ تو ایک دور ہوتا ہے جب محبت چمکتی ہے وہی کہ: شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ اک آگ سی ہے دل کے اندر لگی ہوئی محبت کا رومانس سے بھی تو تعلق خاطر ہے انگریزی شاعری میں اس حوالے سے مجھے کیٹس بہت پسند ہے پھر ورڈورتھ بھی ہے کہ انہیں فطرت سے محبت اور جس کی فطرت میں محبت ہو اس کی ہی بات ہے۔ بہرحال کوئی طالب ہو تو ہم بات کریں۔ ہم محبت سے بھرے بیٹھے ہیں یہ شعر یونہی موزوں ہو گیا۔ جو بھی ہے قتیل شفائی نے خوب کہا تھا ’خدا کرے کہ محبت میں وہ مقام آئے۔ کسی کا نام لوں لب پہ تمہارا نام آئے۔ یہ فلمی گانا نہ ہوتا تو ایک اچھا شعر ہوتا۔ ہم نے اپنے دوست کے کہنے پر قلم برداشتہ کالم رقم کر دیا ہے۔محبوب خزاں کے شعر اسے ختم کرتے ہیں ایک محبت کافی ہے باقی عمر اضافی ہے ٭٭٭٭