میں تو مجرم کی خطا بھول گیا
سعد الله شاہ
میاں جاوید سی ای او یونیورسٹی آف سرگودھا لاہور کیمپس کی سنگلیوں میں جکڑی لاش اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس نے لوگوں میں ایک ہیجان پیدا کر دیا ہے سوال یہ نہیں کہ متذکرہ شخص مجرم تھا یا نہیں‘ مسئلہ نیب اور ذمہ دار لوگوں کا رویہ بھی نہیں‘ مسئلہ ایک انسانی لاش کی تذلیل ہے کہ معاً میرے ذہن میں شعر آ گیا: وہ تشدد تھا الٰہی توبہ میں تو مجرم کی خطا بھول گیا ساری فضا سے ایسے ہی محسوس ہو رہا ہے کہ بات احتساب سے آگے کی طرف جا رہی ہے۔ پکڑ دھکڑ ہی پکڑ دھکڑ نظر آ رہی ہے مگر حکومت اپنی کارکردگی کے حوالے سے عوام کو خاص متاثر نہیں کر سکی۔ ویسے بھی پروفیسرز اور اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگا کر اپنے ملک کو دنیا بھر میں تماشہ بنانا کہاں کی دانش ہے۔ اشفاق احمد صاحب یاد آتے ہیں کہ اٹلی میں ایک چالان کی صورت سامنے آئی تو انہیں عدالت میں جانا پڑا اور جب جج کو پتہ چلا کہ اشفاق صاحب استاد ہیں تو جج نے کہا teacher is in the court سب اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ جج نے آئندہ کا انتباہ کر کے اشفاق صاحب کا عذر قبول کر لیا۔ اس لئے تو یہ قومیں ترقی کر گئی ہیں کہ وہاں کے اساتذہ عزت و اکرام پاتے ہیں۔ وہاں تعلیم کی قدر ہے ۔ اسمبلیوں میں اکثریت جعلی ڈگری والوں کی۔ نیب کا رویہ اس حوالے سے بہت ہی سوالیہ ہے۔ وہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ استاد اور پروفیسروں کا احتساب نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے ساتھ ٹریٹ کرتے ہوئے تہذیب بہت ضروری ہے۔ پروفیسر کوئی قاتل تو نہیں یا ڈاکو چور تو نہیں۔ آپ موجودہ وزیروں کی زبان اوررویے تو دیکھ چکے ہیں ان کے کلپ چلتے ہیں پھر وہ اداروں سے معافیاں مانگتے ہیں اتنی غلیظ اور بازاری زبان کہ کان بہرے ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنی زبان پر فخر بھی کرتے ہیں۔ یہ ناتراشیدہ لوگ تعلیم یافتہ لوگوں سے اپنی محرومیوں کا بدلہ تو لیں گے: فراز نے کہا تھا: اپنی محرومی کے ہاتھوں ہی سے شرمندہ ہیں خود نہیں رکھتے تو اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ یہ سوچتے ہیں کہ آخر یہ عزت دار کہاں کے عزت دار ہیں۔ وہ بتانا چاہتے ہیں کہ عزت دار تو وہ ہیں جو جس کو جب چاہیں بے عزت کر دیں۔ اصل میں لوگوں کو عزت تو وہ دے گا جو خود عزت دار ہو گا۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر دیکھیں کہ ’’کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا‘‘ اب تو غائبانہ والی بات بھی نہیں۔ لوگ منہ پر سب کچھ کہہ دیتے ہیں۔ عمران خان کو سوچنا ہو گا کہ ان کی حکومت میں اساتذہ اور پروفیسرز کو اس طرح کیوں تنگ کیا جا رہا ہے۔ ابھی تو باقی لوگ بھی جیل میں ہیں کوئی اور بری خبر بھی آ سکتی ہے۔ دوسری طرف لوگوں میں مہنگائی کے حوالے سے تشویش ہے۔ انہیں اس بات سے بھی کوئی غرض نہیں کہ سعودیہ نے مدد کر دی یا اب یو اے ای نے 3ارب ڈالر دے دیے۔ بڑی سیدھی اور منطقی بات ہے کہ آپ کی حکومت نے ان کو کیا ریلیف پہنچایا ہے۔ اب بھی وہی ریلیف دے رہے جو پچھلی حکومتیں دیتی تھیں آج ہی میرا بیٹا نان چنے لے کر آیا تو پتہ چلا کہ نان بارہ روپے کا ہو گیا ہے یعنی آٹھ روپے کی روٹی اور بارہ روپے کا نان۔ زندہ باد عمران خان‘ نان کے ساتھ چنے بھی تو مہنگے ہونگے۔ پٹرول کو آگ لگانے کے بعد آپ بجلی کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور حال ہی میں آپ نے پونے دو روپے فی یونٹ بڑھا دیے ہیں۔ ایک اعلان یہ بھی کر دیا کہ منی بجٹ آ رہا ہے۔ منی بجٹ تو آئے دن آ رہے ہیں اور آپ عوام کو قسطوں میں مار رہے ہیں آپ کو ووٹ دینے والے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ گزارش یہ ہے کہ کچھ ڈلیور کریں۔ آپ جو کچھ کرتے نظر آتے ہیں وہ مزید مضحکہ خیز ہوتا ہے۔ لوگ مہنگائی سے چیخ رہے ہیں آپ انہیں کہتے ہیں بسنت منائیں موج اڑائیں۔ کوئی نہ کوئی نئی بونگی سامنے آ جاتی ہیں کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ تجاوزات کے نام پر کتنے غریب اپنے آسرے سے گئے۔ زیادہ تبدیلی یہی مڈل کلاس چاہتی تھی اور اب وہ کھڑے سوچ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ہوتا کیا ہے۔ پہلے ہی کس قدر بے روزگاری ہے اور اب لوگ مزید بے روزگار ہو رہے ہیں۔ اخبارات کے اشتہارات کی بندش ہی دیکھ لیں اخباروں نے صفحات کم کئے اور ملازموں کی چھانٹی کی۔ لکھنے پڑھنے والے یہ رپورٹر اور دوسرے متعلقہ لوگ کیا کریں گے۔ اسی طرح بار بار ٹرانسفرز اور دوسری اکھاڑ پچھاڑ سے کام رک گیا ہے۔ لوگوں کو حکمت عملی سے ڈیل نہیں کیا جا رہا۔ ساری باتوں کے باوجود توقعہ بھی مجھے عمران خان سے ہے کہ کسی طرح ان چیزوں کو کنٹرول کیا جائے۔ لوگوں کی قوت خرید نہیں رہی۔ خاص طور پر ملازمتوں کی تنخواہیں تو مہنگائی نے سکیڑ دی ہیں اگر وہ نان اور چنے بھی نہیں کھا سکیں گے تو پھر وہ باہر نکلیں گے۔ دو تازہ شعروں کے ساتھ اجازت: چاند کے ہاتھ میں ستارا ہے یا مقدر نے کھیل ہارا ہے اس کی آنکھیں ہیں آسمانوں پر کیا کنایہ ہے کیا کنارہ ہے