2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

میں لوٹ آیا ہوں

پروفیسر تنویر صادق
15-10-2024

شاید تین سے چار ماہ مجھے بہتر ہونے میں لگے ہیں۔میں نے بہت دفعہ کوشش کی کہ کوئی کالم ہو جائے ۔بمشکل ایک پیرا گراف تحریر کرتا اور پھر گھر کے کسی فرد کی آوازآتی : دھیان سے ،کمپیوٹر گرنے والا ہے۔ میں کھلی آنکھ سے کمپیوٹر دیکھتا، اسے اٹھا کر سائڈپر رکھتا اور بستر پر خواب خرگوش کے مزے لینے لگتا۔ دو تین گھنٹے بعد آنکھ کھلتی تو سمجھ نہ آتی کہ جو لکھا اس کا سیاق وسباق کیا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ میرا دایاںگھٹنا کچھ خراب تھا،چلتے وقت اوپر نیچے کی ہڈیاں آپس میں رگڑ کھاتی تھیں۔ یہ خاصہ تکلیف دہ عمل تھا۔میرے گھر کے کچھ افراد اور کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ ہمت کرکے آپریشن کروا لو۔ ابھی تو صحت بہتر ہے ، آپریشن کی مشقت اتنی بری محسوس نہیں ہو گی۔ایک دو سالوں میںبڑھاپا بے لگام ہو جائے گا تو یہ عمل اور بھی دشوار ہو جائے گا۔آپریشن کرنے والے لاہور میں بہت ہیںجو بالکل کم پیسے لیتا ہے، وہ بھی پانچ چھ لاکھ سے کم پر بات نہیں کرتا۔یہی کام میرا داماد ڈاکٹر فرید بھی کرتا ہے اور ایک بہترین آرتھو پیڈک سرجن ہے لیکن وہ برمنگھم برطانیہ کے قریب یونیورسٹی آف ورک میں ہیڈ آف آر تھوپیڈک ہے۔ وہاں جانا اور بیماری کے دن کاٹنا مجھے دشوار لگا اور اسی کے مشورے سے میں نے لاہور کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر احسن شمیم سے بات کی اور میرا گھٹنا بدل گیا۔اب میں نئے گھٹنے کے ساتھ بڑے مزے سے رینگ رہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کی ہدایت ہے کہ میں خوب چلوں کہ جتنا زیادہ چلوں گا، اتنا ہی گھٹنا بہتر کام کرے گا۔ مگر کیا کیا جائے کہ گرمی اور حبس نے جینا دشوار کیا ہوا ہے۔موسم بہتر ہو رہا ہے اور میں کافی چلنے لگا ہوں۔امید ہے کہ چند دنوں میںمیری ٹانگیں اپنے معمول پر آ جائیں گی۔وہ دوائیں جو میرے استعمال میں تھیں۔ وہ بھی ختم ہو گئی ہیں۔ڈاکٹر یہ سوچ کر کہ مریض کو تکلیف ہو گی ، بہت سی ایسی دوائیںآپ کو دینے لگتے ہیںکہ جن میں غنودگی ہوتی ہے اور جنہیں کھانے کے بعد اٹھارہ بیس گھنٹے سوتے رہنا ایک معمولی بات ہے۔بہر حال اب زندگی معمول پر آ رہی ہے۔اسی لئے کہہ رہا ہوں کہ میں اب لوٹ آیا ہوں۔ ستر سے اوپر جب آپ کی عمر ہو جاتی ہے تو بہت سے دوست ساتھ چھوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ عمر کا تقاضہ ہے۔آپریشن کرانے سے چند دن پہلے میرے بچپن کا ایک دوست یعقوب علی فوت ہو گیا۔ پتلا دبلا ، منحنی سا ۔ وہ تھا اور اس کی ساتھی ایک 70 سی سی ہنڈا موٹر سائیکل۔ صبح گھر سے نکلتا، کہاں جاتا، کوئی نہیں جانتاتھا۔چوبرجی چوک میں ایک رکشے نے ٹکر ماری اور شاید سر پر چوٹ آئی ، موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ ہر چیز کے بارے اس کا ایک نقطہ نظر تھا جو کبھی مثبت نہیں ہوتا تھا۔ ہم دوستوں کو کسی کام کے بارے اس کام کی خامیاں جاننی ہوں تو اس سے ذکر کر دیتے ۔ وہ اس کام کا بلیو پرنٹ ہمیںپیش کر دیتا۔ M.Sc کرنے کے بعداس نے کوئی نوکری نہیں کی۔ ایک دفعہ انارکلی میں گنپت روڈ کے کونے میں اس نے ایک کالج بنایا۔ پڑھانے کے لئے میرے جیسے چند دوستوں کو جو ریگولر استاد تھے، کہا کہ آئو اور کچھ دن پڑھائو۔وہ سارے پروفیشنل اساتذہ تھے۔ دو تین ماہ میں کالج بھاگنے لگا۔ یعقوب نے سمجھا کہ اب کالج رکے گا نہیں۔اس کا رویہ کچھ بدل سا گیا۔ اس کالج میںایک غسل خانے نما ایک کمرہ تھا غالباً8 x 5 کے سائز کا تھا ۔ اس میں تین کرسیاںتھیں ایک پر موٹا سا پرنسپل لکھا تھا۔ ایک دن ہم چند دوست بیٹھے تھے۔ کوئی اور جگہ نہ ہونے کے سبب انہی تین کرسیوں پر براجماں تھے۔ یعقوب صاحب آئے اور ہمیں کہا کہ یار کیا کر رہے ہو،کچھ پروٹو کول کا احساس کیا کرو۔ تم پرنسپل کی کرسی ہی پر بیٹھ گئے۔ ہم جو مشکل سے پانچ افراد تین کرسیوں میں خود کو سمیٹے بیٹھے تھے۔اٹھے اور گھروں کو چلے گئے۔اس کے بعد ہم اس کالج نہیں گئے۔ اب پڑھاتا کون۔ اگلے دو ماہ میں کالج بند ہو گیا۔ لیکن یعقوب صاحب پکے پروفیسر ہو گئے۔ ان کے محلے اور ان کے رشتہ داروں کو یہی پتہ تھا کہ وہ کہیں پروفیسر اور کئی جگہ پرنسپل بھی رہا ہے۔ ہم بھی اسے پروفیسر ہی کہتے ، وہ اس حوالے سے خوش ہوتا اور ہمیں اس کی خوشی عزیز تھی۔سوچتا ہوں کہ یہ حادثے بھی عجیب ہیں۔ کبھی یہ نہیں دیکھتے کہ کون اس کا شکار ہوا۔ کس کس کو یہ پیارا تھا۔ میں نے وحدت روڈ سائنس کالج میں سولہ سال گزارے ہیں۔ ان سولہ سالوں میں حامدمسعود بٹ ہمیشہ میرے ساتھ رہا۔ میں اس کی وجہ سے روئنگ کی بہت سی تنظیموںمیں عہدیدار تھا اور وہ اساتذہ کی ہر تنظیم میں میرا دست راست تھا۔میں کچھ زیادہ متحرک تھا اور عموماً لڑنے جھگڑنے کو تیار ۔ وہ میرے ساتھ نعرے بھی لگاتا اور صورت حال کو بگڑنے سے بھی بچاتا۔1989-90 جب میں پنجاب لیکچرر ایسوسی ایشن کا صدر تھا۔ اس وقت چار درجاتی فارمولے کے حصول کی جدوجہد میں بھی ہم اکٹھے رہے۔یہ بہت بڑا کام تھا جو ہم نے کر دکھایا۔کالج میںہم دونوں کا ذکر ایک اکائی کے طور پر ہی ہوتا تھا۔کسی نے گالیاں بھی دینی ہوں تو کسی ایک کو دے لے۔ وصول دونوں کرتے تھے۔مجھے حامد بٹ کے گھر والوں کا فون آیا کہ آپ کو بلا رہے ہیں کہ فوری آ کر مل لو۔میں گیا تو کہنے لگا کہ یار یہ بچے بہت تنگ کر رہے ہیں۔ مجھے کہتے ہیں چلو۔ مجھ سے تو اٹھا ہی نہیں جاتا ، چلوں کیسے۔۔اس کے بچے بڑے باادب ہیں۔ انہوں نے بہت کہا کہ کوشش تو کریں مگر لگتا تھا کہ وہ ذہنی طور پر زندگی کی جنگ ہار چکا ہے۔ اس کے بچوں نے اس کے لئے بہت کچھ کیا ۔ مگر جب میں ہسپتال تھا تو مجھے اس کے دنیا چھوڑنے کی خبر ملی۔وہ ان دنوں فارغ تھا اور اس عمر میں فراغت جان لیوا ہوتی ہے۔