ناتجربہ کار ایمان دار چاہئیں یا تجربہ کار بے ایمان؟
راحیل اظہر
شارٹ کٹ کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کا خواہش مند کون نہیں ہے؟ ایسے لوگوں کے لیے میاں نواز شریف نشان ِراہ ہیں! میاں صاحب نے بڑی سْرعت اور تیز رفتاری سے وزارت ِعظمٰی حاصل کی تھی- یہ اس پر قانع رہتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا! میرے پسندیدہ کالم نگاروں میں سے ایک نے، سوال اٹھایا ہے کہ میاں صاحب کو آخر ِکار، اگر چْپ ہی سادھنا تھی، تو پھر "لڑائی کیوں مول لی؟"۔ اس سوال کے جواب میں، دو سوال اَور نکل آتے ہیں۔ لڑائی مول لے کر، میاں صاحب اب تک کیا تیر مار آئے کہ آئندہ بھی قائم رہیں؟ اور کبھی نہ کبھی، یہ بھی کھْل کر رہے گا کہ اقتدار میں جمے رہنے کے لیے، وہ کہاں کہاں ماتھا ٹیکتے رہے۔ کِس کِس دروازے کی زنجیر کھڑکاتے رہے ؎ آمادگی، مجھے تو رہی ہر گناہ پر فضل ِخدا سے بْت ہی نہیں آئے راہ پر! اب ایک نئی بحث ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان پر شروع کر دی گئی ہے۔ کیا کسی کو شک ہے کہ پچھلے تیس برسوں میں، اس ملک کو ہر طرح سے لْوٹا جاتا رہا ہے؟ پہلی مرتبہ، حکومت ِوقت، عدالتیں اور فوج، تینوں ملکی بقا کے لیے سرگرداں ہیں۔ یہ خوشی کا موقع ہے یا رنج کا؟ موجودہ حکومت کی بوکھلاہٹیں، ناتجربہ کاری کی بدولت ہیں۔ مگر متبادل کیا ہے؟ ایک بار پھر نواز شریف، دوبارہ زرداری؟ ہمیں ایسے ناتجربہ کار چاہئیں جو کم از کم ایمان دار تو ہوں یا ایسے تجربہ کار، جن کی بے ایمانیاں، کھْل چکی ہیں؟ منزل تک پہنچنے میں پہلی چیز، صحیح راستے کی جستجو ہے۔ پْرانے ڈھرے پر چڑھنے کا مطلب وہی اْلٹا سفر ہے، جس سے اب تک کچھ حاصل نہیں ہوا ع ای راہرو ِپشت بہ منزل، ہْشدار! نئے لوگوں کو ہم کیوں نہ آزمائیں؟ وہ شے، جسے منیر نیازی نے نامعلوم کا خوف کہا ہے، جھٹک دینی چاہیے۔ یہ خوف دلا کر، اسی گڑھے میں دھکیلا جا رہا ہے، جہاں سے خدا خدا کر کے ہم نکلے ہیں۔ یہ حکومت اگر ناکام ہوتی ہے، تو نئے لوگ تلاش کیے جائیں۔ نہ یہ کہ آزمائے ہوئوں کی طرف پلٹا جائے۔ حیرت ہوتی ہے، جب عمران خان کو مشورے دیے جاتے ہیں کہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں۔ اس میں صاف پیغام یہ ہے کہ وہی پرانا دور پِھر چل پڑے۔ مصالحتی پالیسی کا مطلب ہے نئے آبگینوں میں پھر وہی پرانی مَے! احتساب سے وہ ڈرے، جس نے بے ایمانی کی ہو۔ آن را چہ حساب پاک است، از محاسبہ چہ باک؟ ایمان داروں کے لیے، اس میں بْری خبر کہاں ہے؟ ؎ اے چرخ جلد کر، تہ و بالا زمین کو کچھ ہو نہ ہو امید تو ہے انقلاب میں! ٭٭٭٭٭ قصہ ایک یادگار شام کا خواجہ محمد زکریا صاحب میرے بزرگ اور کرم فرما ہیں۔ خواجہ صاحب سے دل اس طرح مِلا ہے کہ گویا، ہمیشہ کی واقفیت ہے۔ اکبر الٰہ آبادی کے معاملے میں، ہمارے خیالات میں، لگتا ہے کہ "توارد" ہوا ہے! خواجہ صاحب عالِم ہیں، استاد ہیں، شاعر، ادیب، محقق اور تنقید نگار بھی۔ یعنی ہمہ صفت موصوف۔ مگر ان خصوصیات کے ساتھ، ان کی بہت بڑی خوبی، صاف گوئی اور کھَرا پن ہے۔ مجھے بڑا غرہ تھا اپنی صاف گوئی پر۔ لیکن خواجہ صاحب کو دیکھ کر، کہنا چاہیے کہ آنکھیں کھْل گئیں۔ پچھلے دنوں وہ اسلام آباد تشریف لائے۔ دعوت تھی ادارہ فروغ ِ قومی زبان اور اکادمی ادبیات کی طرف سے۔ ادارے میں خواجہ صاحب کے صدارتی خطبے کے بعد، سوال و جواب کا سلسلہ تھا۔ انہیں سننے کے لیے، ایک مجمع اکھٹا تھا۔ عالِموں کے درمیان بیٹھے ہوئے بھی، خواجہ صاحب اکیلے ہزار مَن کے نظر آئے۔ سوالوں کے جواب انہوں نے اتنے مختصر اور مْسکِت دیے کہ مزہ آ گیا۔ مثلا ایک صاحب کا "سوال"، کئی منٹ جاری رہا۔ انہیں ضِد تھی کہ جن شاعر پر مقالہ پڑھا گیا، ان میں فلاں اور فلاں خوبیاں بھی تھیں۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ آپ کیوں ضد کرتے ہیں کہ میں بھی وہی رائے رکھوں، جو آپ کی ہے؟ ممکن ہے کہ میں ان کا کلام دس مرتبہ پڑھوں تو کچھ شعر پسند آ جائیں۔ لیکن میں ان کے کلام میں وہ جوہر نہیں پاتا جو مجھے مائل کرے کہ میں اسے دس دفعہ پڑھوں! اس کے بعد، سب لوگ اکادمی اٹھ آئے۔ یہاں ادبی حلقے کا اجلاس تھا، جس کی صدارت خواجہ صاحب کو کرنا تھی۔ ایجنڈے کے مطابق، ایک غزل پیش کی گئی۔ ان حلقوں میں اپنا فن پارہ پیش کرنا، آبیل مجھے مار کی دعوت ہے۔ یہ کام کرنا، خود کو اْلٹی چھْری سے ہلاک کرانا ہے! اب جو آ رہا ہے، چرکا لگاتا جا رہا ہے۔ ذرا چند تنقیدی فقرے سنیے۔ "یہ پرانے کہنے والے ہیں، مگر لگتا ہے کہ طیبعت حاضر نہیں تھی"(زبردستی کہی گئی غزل)۔ ان جیسے شاعر سے مجھے بہتر کی توقع تھی(پہلے سے بھی بری غزل)۔ یہ اس سے بہت اچھا کہنے کی صاحیت رکھتے ہیں(اس دفعہ تو حد ہی کر دی) وغیرہ وغیرہ۔ بے چارے شاعر یا ادیب کی حالت یہ کہ ع نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے! تنقید کرنے والے، سب کے سب صف ِاول کے شاعر ہیں۔ صف ِاول پہ حیرت نہ ہو۔ اس لیے کہ اردو شاعری کی، الحمدللہ اب یہی ایک صف باقی رِہ گئی ہے! خیر، ذکر ہو رہا تھا خواجہ صاحب کا۔ پہلے اجلاس میں، ان کی صاف گوئی کا ایک پہلو دیکھا تھا۔ یہاں اس سے بالکل متضاد صورت ِحال تھی۔ شاعر غریب، چاروں طرف سے نرغے میں تھا۔ خواجہ صاحب نے جہاں کسی کو ڈنڈی مارتے دیکھا، ٹوک دیا۔ خود انہوں نے ساری بحث کو اس طرح سمیٹا کہ نہ بے وجہ تعریف کی اور نہ غیر ضروری تعریض۔ کارروائی روک کر، انہوں نے اس خاکسار کا جو تعارف کرایا، وہ ان کی خْرد نوازی تھی! اجلاس کے بعد، ان کے گِرد، لوگ پروانہ وار اْمڈ آئے۔ لیکن خواجہ صاحب نے کمال محبت اور شفقت سے، میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ مجھے ان کے ساتھ جانا ہے۔ یعنی ع کْلاہ ِگوشہ ٔدہقان بہ آفتاب رسید کا معاملہ ہو کر رہا!