نادان دوست نہیں، مخلص ناقدین درکار ہیں!
فیصل مسعود
’مڈلائف کرائسس‘ کے بارے میں تو دوستوں نے سُن رکھا ہوگا۔ زندگی میں ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ جب انسان جوانی اور بڑھاپے کے بیچ سرحد پر کھڑا سوچتا ہے کہ اس کا شمار اب بھی جوانوں میں ہوتا ہے یا کہ وہ بڑھاپے کی دہلیز پار کر کے عمر کے اگلے حصے میں داخل ہو چکا۔ از کارِ رفتہ سپاہی کو اس نفسیاتی خلفشار سے نکلے ایک عرصہ بیت چکا ۔ آج خود کو مگر بظاہراََ مختلف، مگر کئی حوالوں سے اُسی سے ملتی جلتی کیفیت سے دوچار پاتا ہے۔ اس خلجانی کیفیت کا تعلق مگر عمر سے نہیں۔ کسی سیاسی وابستگی سے نہیں۔ کسی طرزِ فکر سے بھی نہیں۔ اس کا تعلق اُس کی اپنے سابقہ ادارے سے لازوال وابستگی سے ہے۔ لگ بھگ چار قرنوں پر محیط ہونے کی بناء پر جو اس کی پہلی شناخت بن چکا ہے۔اس کے نام کا وہ لاحقہ ہے جواس کی پہچان بن چکا ہے۔ اقبال کو شکوہ یہ تھا کہ کافر نے اسے مسلمان جانا، تو وہیںزاہد تنگ نظر اُسے کافر سمجھتا رہا۔ از کارِ رفتہ سپاہی کو درپیش الجھن یہ ہے کہ نفرت کے عذاب میں مبتلا ایک مٹھی بھر گروہ کی ہمہ وقت پورے کے پورے ادارے سے متعلق زہر افشانی سے اسے کوفت ہوتی ہے۔پوپ سے زیادہ خود کو پارسا سمجھنے وا لے مگر بھول جاتے ہیں کہ ایک دوسرے کو ہم عشروں سے جانتے ہیں۔ محبت میں ایسے پُر جوش تو یہ پہلے کبھی نہ تھے۔ اب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کے تقدس پر انہی کو درس دیتے ہیں، اپنے جسموں اور جانوں پر جو گہرے گھائو لئے بیٹھے ہیں۔ صدیوں پہلے ایک دانشور امریکی صدر نے ’حب الوطنی ‘ کو جبر کا ایک خطرناک ہتھیار قرار دیا تھا۔ہمارے ہاں یہ حسبِ ضرورت بروئے کار آتی ہے۔سابق فوجی افسر مڈل کلاس کاایک مئوثر حصہ ہیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں معاشرے کے اندر متعدد معاشی اور معاشرتی عوامل کی بناء پر رونما ہونے والی بیداری سے جو اَوروں کی طرح متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ لاکھوں کی تعداد میں ویٹرنز، غازی اور شہیدوں کے ورثاء ہیں، روایتی خاندانوں سے جو بیزارہیں۔ گئے برسوں معاشرتی رویوں میں گہری تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ پہاڑوں سے بہہ نکلنے والی ایک ندی ہے ، جس کے منہ زور پانیوں کے سامنے اب جو کھڑا ہو گا، خش و خاشاک کی طرح بہہ نکلے گا۔یہ بات طے ہے کہ روایتی ایلیٹ خاندانوں کے ساتھ اب جو بھی کھڑا ہو گا، بے وقار ہو گا۔ پاکستانی سیاست کے بارے میں اقوال کے بارے میں دو رائے نہیں مثال کے طور پر جو یہ کہا جاتا ہے کہ سیاست اور جنگ میں سب جائز ہے یا یہ کہ سیاست میں کوئی مستقل دوست اور دشمن نہیں ہوتا۔ مفادات کے حوالے سے اتحادی بدلتے رہتے ہیں۔ کل کے دشمن آج دوست بن جاتے ہیں۔ یہ پاکستان کی سیاست میں پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور آج بھی یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ جہاں کل کے دشمن آج کے دوست ہیںاس کی مثالیں موجود ہیں کہ سیاست میں کل کے دشمن آج کے دوست بن گئے اور اقتدار میں ایک دوسرے کا دم بھرنے والے ایک دوسرے پر ’الزمات کے تیر‘ برساتے نظر آئے ۔ کل کی بات ہے پاکستان کی سیاست میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے پاکستانی سیاست پر بم شیل گرایا تھا انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ بانی تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کے لیے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نے کہا تھا۔ مولانا کے اس بیان کو تحریک انصاف نے سراہا جبکہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے اس دعوے کو حقائق کے برخلاف قرار دیا۔ دیکھنے کی اگرکوئی بات باقی ہے تو صرف یہ کہ کل حالات بدلتے ہیں،بساط بدلتی ہے، کھلاڑی بدلتے ہیں، آج کے حلیف، حریف اور حریف ایک بار پھر حلیف بنتے ہیں تو ہمارے ان دوستوں کا کیا ہوگا؟وہ کہاں کھڑے ہوں گے؟ سپریم کورٹ کے عزت مآب چیف جسٹس نے حال ہی میں اخباری نمائندوں سے اپنی پہلی بیٹھک میں ارشاد فرمایا ہے کہ ان کا ادارہ ایک ’ٹائی ٹینک‘ ہے کہ جس کا رخ اس قدر آسانی کے ساتھ موڑنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ دماغ میں کئی سوالات کلبلانے لگتے ہیں ۔ ایسا آخرکیوں ہے کہ جب جی چاہے چند برسوں کے اندر اندر ہمارے’ ٹائی ٹینک‘ اپنا رخ بالکل مخالف سمت میں اس قدر آسانی کے ساتھ موڑ لیتے ہیں ۔ مالی بد دیانتی، لوٹ ماراور ملکی سلامتی کے لئے خطرہ سمجھے جانے والوں کو اچانک حکومت مل جاتی ہے۔ بیٹھے بٹھائے کل کے’ مجاہدین‘ آج کے’ دہشت گرد‘ بن جاتے ہیں۔ پاکستانیوں کی اکثریت زود رنج مگر معتدل مزاج ہے۔ انتہاپسند رویوں کے حامل دو اقلیتی گروہ اگرچہ پہلو بہ پہلو برسوں سے سلامتی کے اداروں کے خلاف بروئے کار ہیں۔ ایک طرف مذہبی انتہا پسند ہیں، مشرف کے دور سے پالیسی بدلے جانے پر جو نالاں ہیں۔ اب بھی جن کے دل تاریکی کی متشدد قوتوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ انتہا پسندی کی دوسری جہت خود کو ’جمہوریت پسند‘ کہلانے والے ’مقامی لبرلز‘ ہیں۔ اکیسویں صدی کے ظہور کے بعد سلامتی کے اداروں پر دبائو ڈالنے کی خاطر برسوں مغربی فنڈنگ سے جن کی آبیاری کی گئی۔ حالیہ دو چار برسوں میں جن کی اصلیت بے نقاب ہوئی ہے۔آج انہی میں سے کئی رالیں ٹپکاتے انہی کے وکیل ہیں جنہیںبرسوں ’ غیر جمہوری قوتیں‘ قرار دیتے رہے۔لگڑ بگڑوں کے غول در غول منتظر ہیں کہ کب شیر کا پیٹ بھرے تو وہ اپنی بھوک مٹائیں۔ایک دن غول در غول یہ پلٹ کر حملہ آور ہوں گے۔آج منمیا رہے ہیں۔ غول در غول ہوں تو یہ خود کو شیر سمجھنے لگتے ہیں۔ اپنے دوستوں سے جان کی امان طلب کرتے ہوئے ہم تویہی عرض کریں گے کہ پُرکھوں کی کمائی ہے، جو بچا ہے، اُسے بچا لیا جائے۔ اُس اگلی نسل کے لئے کچھ تو ترکہ چھوڑنا ہوگا۔پہاڑوں میں، بیابانوں میں بے چہرہ سفاک دشمن کے ساتھ جسے ابھی طویل جنگ لڑنی ہے۔سیاست سیاستدانوںکو ہی زیب دیتی ہے۔صرف ایک سپریم کورٹ کی تعمیر نو میں اب نا جانے کس قدر ریاضت درکار ہو گی ۔کو ن نہیں جانتا کہ قومی ادارے راتوں رات کھڑے نہیں ہوتے۔عشروں نمو پانے والے قومی ادارے اگرمٹھی بھر الیٹ گروہوں کے ہاتھوں یرغمال بن کر رہ جائیں تو اس سے بڑی بد نصیبی کی بات اور کیا ہوگی۔