نئے وائس چانسلر ہوشیار باش!
ڈاکٹر جام سجاد حسین
وائس چانسلر کا عہدہ چند خوش نصیب افراد کو ملتا ہے۔ اگرچہ سبھی اپنی ذمہ داریوں کو جانتے ہیں مگر نئے وائس چانسلرز سے عمومی طور پر کچھ سنگین غلطیاں سرزد ہوہی جاتی ہیں۔ ایک عرصہ یونیورسٹی میں گزارنے کے بعد جب آپ کسی جامعہ میں وائس چانسلر تعینات ہوتے ہیں۔ آپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنی ٹیم ساتھ لے کر جائیں تاکہ روزِ اول سے آپ منظم اور بہتر انداز میں امور سرانجام دے سکیں۔ بظاہر یہ مثبت سوچ ہے مگر یہ آپ کے منطقی انجام کا تعین کردیتی ہے۔ مثلاََ آپ چاہتے ہیں کہ رجسٹرار، خزانہ دار،کنٹرولر امتحانات، ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئر ز، ڈائریکٹرپی اینڈ ڈی، افسر تعلقاتِ عامہ وغیرہ ساتھ لے جائیں۔ ایسا کرنے سے میزبان یونیورسٹی میں ایک نادیدہ خوف کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ لوگ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہی لوگ آپ کی آنکھ، کان، زبان اور ہاتھ ہیں۔ لہذا’سمجھدار‘ لوگ اْن سے دوستی کرلیتے ہیں ایسا کرنے سے دونوں بہتی گنگا میں ہاتھ صاف کرتے ہیں۔اصول پرست خاموشی اختیار کرلیتے ہیں مگر انتہائی مناسب وقت پر آپ کو محسوس کراتے ہیں کہ یہ یونیورسٹی اْن سے تعلق رکھتی ہے۔ لہذاکوشش کریں کہ اپنی یونیورسٹی کی ٹیم کو اْسی یونیورسٹی میں ہی رہنے دیں۔ اْنہیں سراہیں، حوصلہ افزائی کریں مگر ساتھ نہ لے جائیں۔ خاص طور پر کِسی ایسی آکٹوپَس شخصیت کو تو بالکل ساتھ نہ لے جائیں جس کی کئی ٹانگیں، کئی منہ، کئی زبانیں، کئی کان، کئی دِل اور کئی ہاتھ ہوں۔کیونکہ یہ آکٹوپس بظاہر ہر کسی کی ہوتی ہے مگرسگی کسی کی نہیں ہوتی۔ کِسی کیکڑا صفت کو بھی ساتھ نہ رکھیں جو بظاہرتو آپ کواپنی ’وفاداری‘ کا یقین دلاتا رہے مگر اَندر سے اپنا پیٹ بھرتا رہے۔ انتہائی ناگزیر ہو تو محض ایک یا دو ایسے افراد لے جائیں جو وفاداراور اِس قدر قابل ہوں کہ میزبان یونیورسٹی اْن سے آپ کے ویثرن کا اندازہ لگائے۔ یونیورسٹی چاہتی ہے کہ نیا وائس چانسلر آئے اوردرپیش مسائل حل کرے۔ نئے وائس چانسلر کیلئے یونیورسٹی کے مسائل خوبصورت منگیتر جیسے ہوتے ہیں جِسے آپ حاصل تو کرنا چاہتے ہیں مگر بدنامی کا طوق اپنے گلے نہیں باندھنا چاہتے۔کوشش کریں یونیورسٹی کے سینئر ترین پروفیسر، ڈین اور دیگر قابل ِ قدر پروفیسروں کی معاونت سے وہ مسائل حل کریں۔ یونیورسٹی سے ہی قابل، اہل اور بہادر افراد کی ٹیم بنائیں جو مسائل کے حل میں آپ کی معاونت کرے اور ضرورت پڑنے پر آپ کے شانہ بشانہ کھڑی ہو۔ یاد رکھیں خوش آمد کہتے ہوئے ’پَرو ایڈمنسٹریشن‘ کی گردان گلے میں لٹکائے آپ کے گرد گھیرا تنگ کرنے والے بہت ملیں گے۔یہ عمومی طور پرمنافق صفت خوش آمدی، چاپلو س اور انتہائی مفاد پرست ہونگے۔ ایسے افراد نئے وائس چانسلر کووفاداری ثابت کرنے کیلئے اپنی ’جان‘ تک پیش کردیں گے مگر یاد رکھیں، چوتھے سال آپ کے ’چوتھے‘ کا سامان بھی یہی لوگ کریں گے۔ عمومی طور پر ان کی گردن موٹی، نیت کھوٹی، منہ پہ خوش آمد اور ہاتھ میں مفادات کی سوٹی ہوگی جو ایک دن آپ کی ہی کمر پر ماری جائے گی۔ نئے وائس چانسلر کو جامعہ جوائن کرتے ہی خزانہ دار، رجسٹرار، کنٹرولر، ڈی ایس اے، چیئرمین ہال کونسل، ڈائریکٹر کیو ای سی، ڈائریکٹر اْورِک، ڈائریکٹر یا افسر تعلقات ِ عامہ، ٹرانسپورٹ افسر وغیرہ کی تعیناتی اور جامعہ کے تدریسی و انتظامی اَمور میں بہتری لاناہوتی ہے۔ مذکورہِ سیٹوں پہ تعیناتیوں سے وائس چانسلر کے ویژن کی سَمت کا تعین ہوجاتاہے۔ ڈائریکٹر کیو ای سی، ڈائریکٹر اْورِک، ڈائریکٹر ایفی لی ایشن سمیت دیگر ایسی سیٹوں پہ انتہائی قابل ِ اعتماد مگر زیرک اور تجربہ کار اساتذہ چاہئے ہوتے ہیں۔اْن افراد کا انتخاب کریں جن کے دامن پر مالی و اخلاقی بدعنوانی کے دھبے نہ ہوں۔اگر ایسا ہواتو اْن لالچی افراد کی نااہلی کا نتیجہ آپ کو تیسرے یا چوتھے سال بھگتنا پڑے گا۔ افسر ِ تعلقات ِ عامہ ایک زبردست سیٹ ہے۔ آپ کو سمجھنا ہوگا کہ افسر تعلقات ِ عامہ بطور وائس چانسلر آپ کو اور جامعہ کو یا تو مثبت انداز میں پیش کرے گا یا پھر وہ آپ کو ڈبو دے گا۔ مثلاََ جونہی آپ رئیس الجامعہ کی کْرسی پہ براجمان ہوتے ہیں تو یہ افسر آپ کی پروفائل لینے کی غرض سے آپ کے قریب آئے گا۔ چند دِنوں میں آپ سے رابطوں میں رہنے والے صحافیوں اور جامعہ کے اندر سے کچھ افراد افسر تعلقاتِ عامہ کی تعریفوں کے گْن گانا شروع ہوجائیں گے۔ اگر آپ کے ساتھ ایسا ہو تو آنکھیں کھول کردیکھیں صحافیوں میں سے وہی افراد افسر تعلقاتِ عامہ کی تعریف کرینگے جن کے مالی مفادات جامعہ سے جڑے ہوتے ہیں۔ جبکہ جامعہ کے اندر سے اْس کے رشتے دار یا سیاسی گروہ بندی والے لوگ ہونگے جو ہر صورت میں آپ کو یقین دلائیں گے افسر تعلقاتِ عامہ ایک لاجواب افسر ہے۔کوشش کریں آپ چیئرمین شعبہ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کو بلائیں اور اْنہیں اضافی چارج دے دیں اور افسر تعلقاتِ عامہ کو چیئرمین کے ماتحت کردیں۔چند ہی ماہ میں جامعہ کا امیج مثبت انداز میں اْٹھنا شروع ہوجائے گا۔ اِس کی کئی وجوہات ہیں۔ میڈیا ڈیپارٹمنٹ ہی وہ واحد شعبہ ہوتا ہے جس کے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات مختلف میڈیا کے اِداروں میں کام کررہے ہوتے ہیں۔چیئرمین نے اْنہیں صرف انگیج کرنا ہوتا ہے۔ اگر میڈیا ڈیپارٹمنٹ کا چیئرمین ’عملی علم‘ اور ’عملی تجربہ‘ سے فارغ ہے۔ پھر میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے اساتذہ کا انٹرویو کریں، سی ویز دیکھیں۔ یقینی طور پر اْن اساتذہ میں ایک دو بندے ضرور ملیں گے جنہوں نے عملی طور پر میڈیا کے مختلف شعبوں میں کام کیا ہوگا۔ اگر کوئی تعلقاتِ عامہ کے شعبہ میں تجربے کا حامل مل جائے تو اْسے یونیورسٹی کے افسر تعلقاتِ عامہ یا ڈائریکٹر کا اضافی چارج دے دیں۔ یقین کریں یہی وہ تعیناتی ہے جو یونیورسٹی کے اندر اور باہر اساتذہ، انتظامی افسران، اندر اور باہر کے سٹیک ہولڈرز میں یونیورسٹی کا مثبت امیج بڑھائے گی۔ یاد رکھئے کہ کینسر زدہ شخص بچ سکتا ہے مگر کسی بھی سیٹ پہ ’جی سَر‘ اور ’منفی‘ سو چ والا بندہ نہ خود بچ سکتا ہے اور نہ آپ کو بچنے دے گا۔