وزیراعظم عمران خان کی جیل
ارشاد محمود
قرائن سے یہ قیاس کرنا مشکل نہیں کہ جیلوں کے دروازے چوپٹ کھلنے کو ہیں۔وزیراعظم عمران خان کاکرپشن کے مرتکب افراد کو حوالات میں بند کرنے کا خواب پورا ہوتا نظر آرہاہے۔چنانچہ پاکستان کی سیاست میں ٹھہراؤ کے بجائے بھونچال کی کیفیت میں مسلسل اضافہ ہوتاجارہاہے۔ آصف علی زرداری لنگوٹ کس کر میدان میں اتر چکے ہیں۔ حکمران جماعت کو وہ کم اور اداروں کو زیادہ لتاڑ رہے ہیں ۔میاں محمد نوازشریف کے گرد بھی گھیرا تنگ ہوچکا ۔ بعید نہیں کہ وہ ایک بار پھر اگلے ہفتے پس دیوار زنداں سدھار جائیں۔شہباز شریف اور سعد رفیق پہلے ہی زیر حراست ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت بھی پوری قوت کے ساتھ کرپشن کے عنوان سے سابق حکمرانوں اور سیاستدانوں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔ وزیراعظم عمران کے اردگرد عقاب صفت جوشیلوں کا ایک ہجوم ہے جو احتساب اور احتساب کے جذبے سے سرشار ہے۔ چنانچہ اب زرداری صاحب کے خلاف بھی نیویارک میں ایک فلیٹ کا قصہ نکل آیا ۔ عین ممکن ہے کہ وہ قومی اسمبلی کی نشست سے ہاتھ دھوبیٹھیں۔ گزشتہ تین عشروں میں بالخصوص جنرل ضیا ء الحق کے دور سے سیاست میں داخلے اور عروج پانے کا واحد معیار اور کنجی بے محابا سرمایہ اور اشرافیہ کے خاندانوں سے نسبت سکہ راج الوقت قرارپایا۔ اس دوڑ میں حقیقی سیاسی کارکن پس منظر میں چلے گئے۔ امرائو روسا کا سیاست پر قبضہ ہوگیا۔ کتاب اور علم سے ان کا کوئی رشتہ کبھی تھا ہی نہیں۔ انہیں امور مملکت چلانے اور پاکستان کو ایک جدید ریاست بنانے سے زیادہ اپنی تجوریاں بھرنے اور دوست احباب کو نوازنے سے دلچسپی تھی۔ ملک کو ترقی دینے کے نت نئے منصوبے سوچنے کے بجائے ذاتی یا خاندانی کاروبار کو دن دگنی اور رات چگنی ترقی دینے کی حکمت عملی وزریراعظم ہاؤس اور وزراء اعلیٰ ہاؤسز میں مرتب ہونے لگی۔ نواب زادہ نصراللہ خان کی طرح کے سیاستدان جنہوں نے اپنے اثاثے فروخت کرکے سیاست کی ۔ پہاڑی کا چراغ اور زمین کا نمک کہلانے والے یہ سیاستدان سماج کی لغت میں اجنبی ٹھہرے۔ ان کی جگہ دوبئی ، لندن او رنیویارک میں فلیٹ اور جائیدادیں رکھنے والے معتبر اور مقبول ہوگئے۔ سرکاری افسروں نے بھی بہتی گنگا میں اشنان کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ چند لاکھ کی سرکاری ملازمت کرنے والوں کے صاحبزادے اور صاحبزادیاں آکسفورڈ او رکیمبرج میں اعلیٰ تعلیم سے فیض یاب ہونے لگے۔روکنے اور ٹوکنے والا انہیں کوئی نہ تھا۔ ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے یہ تماشا ہوتے دیکھا ۔بے بسی کا اظہار اکثر کرتے اور چپ سادھ کر گھر لوٹ جاتے۔یہ پہلی حکومت ہے جس نے قانون کی بالادستی کی خاطر اپنی سیاست کو داؤ پر لگا دیا۔غیر مقبول ہونے کے خوف سے آزاد ہے۔ دانا لوگوں کا مشورہ ہے کہ سارے محاذ بیک وقت نہ کھولے جائیں لیکن وزیراعظم عمران خان ایسے مشوروں پر کان نہیں دھرتے۔ انہوں نے ایک چومکھی لڑائی شروع کررکھی ہے۔ نون لیگ معتوب تو تھی ہی اب پیپلزپارٹی بھی زد پر ہے۔ پارٹیوں اور سیاستدانوںکو ایک بہت ہی گھمبیر صورت حال کا سامنا ہے۔ ماضی میں اداروں کے درمیان پائی جانے والی رسہ کشی سے انہیں کچھ نہ کچھ ریلیف مل جاتاتھا لیکن اب سپریم کورٹ ، نیب، عسکری اور سیاسی لیڈر شپ تمام کے تمام ایک صفحے پر ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ تمام ادارے کرپشن اور لاقانیت کے خلاف مشترکہ طور پر سرگرم ہیں۔حزب اختلاف کی جماعتیںاس صورت حال کو جمہوریت کے خلاف سازش قراردیتی ہیں ۔مقابلے کے لیے بھی یقینا وہ کمر بستہ ہیں ۔ میڈیا میں اس کے مظاہر نظر آتے ہیں۔ سیاستدان اور جماعتیں اگراس موقع کو غنیمت سمجھیں تو خوداحتسابی کا ایک عمل شروع کرسکتی ہیں۔ گریبان میں جھانکیں ـ‘اپنی غلطیوں کا ادراک کریں اور ان کی ا صلاح کی کوشش بھی۔ اس طرح ان کی مشکلات میں کمی واقع ہونے کا امکان نمایاں ہوسکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور ان کی لیڈرشپ میں میری طرح کے لاکھوں شہریوں کو کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی۔ پارٹیوں کی بالائی قیادت پر نظر ڈالتے ہیں تو رشتے داروں کا ایک ہجوم نظر آتاہے۔ اعلیٰ عہدوں پر خاندانوں کے لوگ قبضہ جمائے بیٹھے ہیں یا رشتے داراور وفادار۔ نون لیگ کا حال سب سے پتلا ہے جہاں میاں براداران پارٹی کو ایک کاروباری کمپنی کی طرح چلاتے رہے۔ اعلیٰ عہدوں یا فیصلہ سازی میں حصہ ڈالنے کا کوئی موقع کارکنوں کودستیاب نہیں۔ پیپلزپارٹی کے زرداری صاحب کی سیاست اور توجہ کا مرکز ومحور بلاول بھٹو اور آصفہ ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ بچے میری طاقت ہیں۔ لاکھوں کارکن جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد قربانیاں دیں وہ پارٹی کی طاقت نہیں کہلاتے ۔سونے کا نوالا لے کر پیدا ہونے والے اقربا کو پارٹی کی قیادت وسیادت کا اہل قراردیاجاتاہے۔ سوشل میڈیا اور گلوبلائزیشن کی لہرنے ان روایتی تصورات کو بری طرح بدل ڈالا ۔ شہریوں کو شریفوں یا زرداریوں کے لیے قربانی دینے، پسینہ بہانے اور دن رات ایک کرکے انہیں اقتدار کے سنگھاسن پر فائزکرانے میں اب کوئی دلچسپی نہیں۔چند دن قبل سابق امریکی صدر بارک اوباما کی بیگم مشعل اوباما کا ایک ویڈیو کلپ دیکھاتو ایک حیرت کدہ میں ڈوب گیا۔ آٹھ برس تک امریکہ کی خاتون اوّل رہنے والی محترمہ کہتی ہیں: وائٹ ہاؤس میں کچھ بھی مفت نہیں ملتا۔ مچھلی بھی کھائیں تو صدر کی ماہانہ تنخواہ سے بل منہا کردیاجاتاہے۔ اوباما خودکہتے ہیں کہ وائٹ ہاؤس میں ٹوتھ پیسٹ بھی خود خریدنا پڑتاہے۔مارگریٹ تھیچرنے کہا کہ برطانیہ کی وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا کر وہ گھر لوٹیں تو سب سے پہلے کچن میں جاکر شوہر کے لیے کھانا گرم کیا۔ جمہوری مزاج اور روایات اسے کہتے ہیں۔ صدر ، وزیراعظم تو دور کی بات اب تو کونسلر کے لیے بھی ہٹو بچو کی صدائیں لگائی جاتی ہیں ۔ یہ چلن اب قبول نہیں۔ مسرت کی بات یہ ہے کہ حکومت اور تمام ادارے اس کلچر کو بدلنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ حکمرا ن جماعت کے سیاستدانوں کے اعلیٰ عہدے پتے پر پانی کی مانند ہیں۔وزیراعظم کی بہن علیمہ خان کو عدالت کے سامنے سرجھکانا پڑا۔ وزیراعظم نے ان کی کوئی مدد نہ کی۔اعظم سواتی کی وزارت بھی دیکھتے ہی دیکھتے نئے پاکستان کی نذر ہوگئی۔ایک بڑے پراپرٹی ٹائیکون کے غیر قانونی قبضے ختم کرانے کا آغاز ہوچکا۔ یہ مثبت خبریں بجھے اور مایوس دلوں اور دماغوں کو امید کے دیے کی طرح روشن کرتی ہیں۔