وزیر اعظم کا اقوام متحدہ میں خطاب
عبداللہ طارق سہیل
وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطین سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد نہ ہونے سے مشرق وسطیٰ خطرات سے دو چار ہو چکا ہے۔ غزہ میں خونریزی پر خاموش نہیں رہا جا سکتا۔ اسرائیلی مظالم روکنا ہوں گے۔ وزیر اعظم نے بجا طور کہا کہ موجودہ حالات میں دنیا کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔ اسرائیل نے امن عالم کو تباہ کر دیا ہے۔ اسرائیلی مظالم سے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ اسرائیل درندگی کے ساتھ معصوم بچوں، عورتوں، نوجوانوں اور بزرگوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کر رہا ہے۔ اُسے روکنے کی بجائے امریکہ اور دیگر حواریوں کی طرف سے اربوں ڈالر کی فوجی امداد دی جارہی ہے۔ یورپ کے دوہرے معیار ہیں۔ ایک طرف وہ انسانیت اور جمہوریت کا دم بھرتے ہیں دوسری طرف اپنی طفیلی ریاست کے ذریعے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں۔ وزیر اعظم نے قرآنی آیات کی تلاوت سے ثابت کیا کہ تمام مذاہب کا اہتمام بھی ضروری ہے اور انسانیت سے پیار کے ذریعے ہی پوری دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے خطاب کے موقع پر پاکستانی وفد کے بائیکاٹ سے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی ہوئی ہے۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کا یہ کہنا بھی بجا اور درست ہے کہ اقوام متحدہ اپنے مقاصد میں ناکام ہو کر غیر فعال ڈھانچہ بن چکا ہے۔ ظلم رہے اور امن بھی ہو کیا یہ ممکن ہے تم ہی کہو کے مصداق جب تک فلسطینیوں کو اُن کا اپنا وطن نہیں ملتا امن ممکن نہیں۔ پوری دنیا کو علم ہے کہ فلسطینیوں کا اپنا وطن، اپنی سرزمین، اپنا خطہ ہے جبکہ اسرائیل ایک چالاک اور مکار مذہبی جنونی ریاست ہے۔ یورپ کے جمہوری ملکوں کو اسے مظام سے باز رکھنا چاہئے تھا مگر وہ سب اس کی حمایت میں کھڑے ہیں، اگر اقوام متحدہ میں نیک نیتی کی طاقت ہوتی تو کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ کب کا حل ہو چکا ہوتا۔ سچی بات یہ ہے کہ مسلمان ممالک میں بھی حمیت نام کی کوئی چیز نہیں ۔ اسرائیل، امریکہ اور یورپ مسلمانوں سے دولت کے ایماء پر مسلمان ملکوں کو کچلنے کیلئے خرچ کر رہا ہے، صر ف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلم ممالک میںامریکی و یورپی ممالک کے ہوٹلوں پر رش ہے۔دنیا کی امیر ترین مسلمان جو کہ معدنی دولت سے مالا مال ہیں وہ اتنے گئے گزرے ہو چکے ہیںکہ فلسطینی شہداء کی تدفین اور زخمیوں کیلئے مرہم پٹی کا بھی انتظام نہیں کر رہے۔ یہ حقیقت ہے کہ فلسطین 1948 ء تک بس فلسطین تھا، لیکن اسرائیلی ریاست کے بزور طاقت قیام کے بعد فلسطین اب تین حصوں اسرائیل، مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں تقسیم ہو چکا ہے۔ سب سے زیادہ پیغمبر فلسطین میں معبوث ہوئے۔ مسلمانوں کا قبلہ اول بھی فلسطین میں ہے۔ تاریخی حوالے سے دنیا کے تین بڑے مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت کا بھی مرکز ہے۔ فلسطین کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران فلسطین ترقی کا ایک صوبہ تھا، جس پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا، 1917ء میں بیلفور ڈیکلریشن کا اعلان ہوا اور بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین کو یہودیوں کا وطن قرار دیا گیا، 1947ء میں اقوام متحدہ نے یہودیوں اور فلسطینیوں کیلئے ایک سٹیٹ قائم کی مگر 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کا اعلان تو کیا گیا مگر فلسطینیوں کیلئے کسی سٹیٹ کا اعلان نہ ہوا، جس پر جنگ چھڑ گئی، اس دوران امن کے معاہدے ہوتے رہے مگر اسرائیل کی طرف سے ظلم و زیادتی کا سلسلہ جاری رہا۔ 10 نومبر 1988ء کو جلا وطن فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا جسے پاکستان دیگر 50 سے زائد ممالک نے تسلیم کر لیا پہلی جنگ عظیم کے وقت فلسطین میں صرف تین فیصد یہودی آباد تھے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو کہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ مسلم عرب ممالک کو بھی ان تمام باتوں کا علم ہے، اب 80 مسلم ممالک ملک صرف تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ 7 اگست 1989ء کو ایک اعلان ہوا کہ ماہ رمضان کا آخری جمعہ پوری دنیا میں یوم القدس کے طور پر منایا جاتا رہے گا مگر اب یہ صرف اعلان ہی بن کر رہ گیا ہے، آج فلسطین میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، زخمی بچے تڑپ رہے ہیں، ہزاروں لوگوں کو قتل کر دیا گیا ہے، خواتین بے آبرو ہو رہی ہیں، مگر ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے جبکہ اسرائیل کے ساتھ تمام عیسائی ممالک اور پورا یورپ پوری طاقت کے ساتھ کھڑا ہے اور مسلمان ملک بات بھی نہیں کر رہے کہ کہیں امریکہ یا اُس کے اتحادی ناراض نہ ہو جائیں۔ مشرق وسطیٰ کا امن اس بات میں پوشیدہ ہے کہ فلسطین کی حیثیت کو تسلیم کیا جائے، فلسطین کی آزاد اور خود مختار ریاست ہی مسئلے کا حل ہے۔ دنیا کے بڑے ملکوں نے مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کرنے کیلئے فلسطینیوں سے ان کا وطن چھین کر اسرائیلی ریاست قائم کرائی، جب تک فلسطین میں ظلم ہے، امن قائم نہیں ہو سکتا۔ فلسطینیوں کو اُن کا حق دینا ہو گا۔ عالمی امن کیلئے ضروری ہے کہ دنیا کا بڑا چودھری امریکہ اپنی بغل بچہ ریاست اسرائیل کو لگام دے ۔ ظالموں کی حمایت سے امن عالم خطرے میں ہے اگر فلسطینی مسلمانوں کو انصاف نہ ملا تو یہ جنگ دور تک پھیل سکتی ہے اور امن عالم کا خواب تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کو سمجھنے کیلئے تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے۔ مسلمان اس سر زمین سے کس طرح بے دخل ہوسکتے ہیں کہ سر زمین اُن کے اجداد کی ہے اور مذہبی حوالے سے بھی یہ مقدس سرزمین ہے۔مسلمانوں کیلئے فلسطین مقدس سرزمین ہے۔