2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

وہ جنگل

عبداللہ طارق سہیل
31-12-2018

مہاراشٹر (بھارت) سے خبر آئی ہے کہ وہاں کسی شیر نے ایک بودھ راہب کو اس وقت ہلاک کر دیا جب وہ اپنی خانقاہ میں مراقبہ کر رہا تھا۔ یہ خانقاہ ’’رام دیگی‘‘ کے جنگل میں تھی۔ شیر جنگلہ توڑ کر اندر گھسا اور راہب کو مار ڈالا۔ اس نے راہب کو کھایا نہیں‘ مار کر نکل گیا۔ گویا وہ آدم خور نہیں تھا۔ تو کیا وہ شوقیہ قاتل تھا؟ ایسا نہیں ہے کیونکہ جانور شوقیہ قاتل نہیں ہوتے۔ لیکن پھر بھی انسان ان گوشت خور جانوروں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترتے رہتے ہیں عام طور پر ‘ اگر شیر جیتا آدم خور نہ ہوں تو‘ اس کی تین وجوہات ہوتی ہیں۔ جانور آدمی سے خطرہ محسوس کرے‘ آدمی جانور کے بچوں کے پاس چلا جائے یا جانور رت کی مستی میں ہو۔ راہب شیر کے پاس نہیں گیا تھا‘ شیر نے خانقاہ کے اندر گھس کر اسے مارا۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ شیر کھانے کی تلاش میں اندر گیا۔ راھب نے اسے ڈرایا اور بھگانے کی کوشش کی۔ اس پر شیر مشتعل ہو گیا یا اس نے خطرہ محسوس کیا اور راہب کو مار ڈالا۔ ضروری نہیں کہ شیر نے اسے ہلاک ہی کرنا چاہا ہو۔ اس نے محض غرّا کر تھپڑ مارا ہو گا‘ دھان پان راہب ‘ جو کئی کئی دن تک کچھ نہیں کھاتے۔ شیر کے تھپڑ کی تاب کہاں لا سکتے ہیں۔ بھارت کے جنگلوں میں راہب ‘ سادھو اور تانترک پہلے بھی شیروں چیتوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ شیر چیتے کتنے بھی شریف النفس ہوں‘ آدمی کے لئے ان کا قرب خطرناک ہے۔ ذرا سی بات حادثے کا سبب بن جاتی ہے اور دنیا بھر کے جنگلوں میں ایسا ہی ہے۔ لیکن ایک جنگل ایسا بھی ہے‘ اور پوری دنیا میں یہ اکیلا جنگل ہے جہاں آدمی اور شیر ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور کبھی کسی شیر نے کسی آدمی کو نہیں مارا اور کبھی کسی آدمی نے شیر کو نقصان نہیں پہنچایا۔ جنگل شیروں سے اور شیر بھی کون سے‘ ببر شیر‘ اٹا پڑا ہے۔ جا بجا گائوں ہیں۔ لوگ کام کاج کے لئے نکلتے ہیں‘ شیر راستے میں بیٹھا ہے‘ یہ پاس سے نکل جاتے ہیں۔ آدمی آ رہا ہے‘ شیر اس کے پاس سے نکل جاتا ہے۔ جنگل میں سڑکیں ہیں‘ ان پر موٹریں اور موٹر سائیکلیں چلتی ہیں۔ شیروں کا کنبہ بیچ سڑک میں بیٹھا ہے‘ گاڑی والے پاس سے نکل جاتے ہیں۔ کوئی مڑ کے بھی نہیں دیکھتا کہ کتنے شیر تھے جو راستے پر بیٹھے تھے۔ یہ جنگل پورے براعظم ایشیا کی واحد جگہ ہے جہاں ببر شیرپائے جاتے ہیں۔ افریقہ کو چھوڑ کر ببر شیر پوری دنیا میں کہیں نہیں پایا جاتا۔ سوائے اس جنگل کے اور یہ جنگل پاکستان میں واقع ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اس جنگل کو دیکھنے آتے ہیں۔ دنیا کے کسی ایک اتنے رقبے والے جنگل میں اتنے ببر شیر موجود نہیں جتنے اس میں ہیں۔ آج سے دو تین سال قبل اس جنگل میں پانچ سو سے زیادہ ببر شیر تھے۔ جو ریکارڈ تعداد ہے۔ براعظم افریقہ کے 26ملکوں کے پچاسوں جنگلوں میں ببر شیروں کی تعداد 20ہزار سے زیادہ نہیں۔ کسی جنگل میں پچاس تو کسی میں سو بہت ہو گیا تو دو سو۔ پاکستان کا یہ جنگل دنیا کا اکیلا جنگل ہے جہاں ببر شیروں کے دل کے دل اس طرح دندناتے پھرتے ہیں اور ان کی آبادی‘ ساری دنیا کے برعکس‘ بڑھ رہی ہے۔ ٭٭٭٭٭ یہ جنگل پاکستان کے علاقے میں ہے لیکن اس پر کنٹرول پاکستان کا نہیں ہے‘ بھارت کا ہے‘ جی‘ یہ گیرGirکا جنگل ہے جو بھارتی ریاست گجرات میں ریاست جونا گڑھ میں ہے۔ وہی ریاست جونا گڑھ جس کے والی نے اپنی ریاست پاکستان میں ضم کر دی تھی لیکن پنڈت نہرو نے فوج بھیج کر اس پر قبضہ کر لیا۔ یہ پنڈت نہرو ہی کا اصول تھا کہ تقسیم ہند کے وقت جو ریاست جس ملک میں جانے کا اعلان کرے گی‘ وہ اس کا حصہ ہو گی۔ ریاست حیدر آباد اور جونا گڑھ نے پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کیا لیکن نہرو نے اپنا ہی اصول پامال کر کے ان دونوں پر قبضہ کر لیا۔ جونا گڑھ میں تو خیر خون بہنے سے بچ گیا لیکن حیدر آباد میں دسیوں ہزار (بعض رپورٹوں کے مطابق دو لاکھ) مسلمان شہید کر دیے گئے۔ اب اس ریاست کا وجود نہیں۔ اسے بھارتی گجرات میں ضم کر دیا گیا ہے لیکن جونا گڑھ کے اس جنگل گیر کے باہر لگے بورڈ پر جونا گڑھ کے الفاظ آج بھی انگریزی‘ ہندی اور اردو میں لکھے ہوئے ہیں۔ یہ جنگل اصلاً تو 15سو مربع میل کا ہے لیکن جانوروں نے خود ہی باہر نکل کر بارہ ہزار کلو میٹر رقبے کو جنگل کا حصہ بنا دیا ہے۔ ببر شیروں کے علاوہ طرح طرح کے لکڑ بگھے ‘ گیدڑ (خاص طور سے مشہور عالم سنہری گیدڑ‘ لومڑ‘ سور‘ بارہ سنگھے‘ ہرن ‘ چیتل‘ سانبھڑٔ مور اور سینکڑوں قسم کے پرندے بے شمار حشرات الارض اور چھوٹے جانور یہاں پائے جاتے ہیں۔ بجرنگ بلی کے جتھے اور قبیلے بھی ان گننت ہیں لیکن شیروں کے ڈر سے وہ اپنا زیادہ وقت درختوں پر گزارتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور لمبی دم والے لنگور ہیں۔ شیر کبھی کبھار گائوں کے کسی گھر میں گھس آتا ہے اور گائے بیل کو مار گراتا ہے۔ ایسے وقت میں سارے گھر والے بلکہ پاس پڑوس کے لوگ بھی آ جاتے ہیں اور شیر کو بھوجن کرتے دیکھتے ہیں۔ شیر سب سے بے نیاز بیل کا گوشت کھاتا ہے‘ پھر آرام سے چلا جاتا ہے‘ کوئی اسے ڈنڈا مارتا ہے نہ پتھر۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ماجرا راجستھان کے چتوڑ گڑھ کے جنگل کا ہے۔وہاں گرینائٹ کی چٹانوں والے جنگل میں شیر تو نہیں‘ البتہ تیندوے چیتے بہت ہیں۔ وہاں بھی آدمیوں اور ان میں پرامن بقائے باہمی کا معاہدہ چل رہا ہے لیکن اضافی بات یہ ہے کہ چیتے کسی کا بیل مار ڈالیں تو وہ خوشی سے نڈھال ہو جاتا ہے۔ دراصل یہاں کے ہندو چیتے کو دیوتا مانتے ہیں۔ مندروں میں ان کے بت بھی نصب ہیں چنانچہ یہ لوگ خوش ہوتے ہیں کہ دیوتا نے ہماری بھینٹ (خود ہی لے کر) سوئیکار کر لی۔ جانوروں اور انسانوں کا ایسا بھائی چارہ دنیا تو کیا‘ خود بھارت میں بھی کہیں اور نہیں ملتا۔ شمال کے برہمنوں والے یو پی میں شیر بیل کو کھا جائے تو دیہاتی اسے پھندے میں پکڑ کر زندہ بھی جلا دیتے ہیں۔ جیوہتھیا کے اصول کی پروا نہیں کرتے‘ بہرحال سبھی ایسا نہیں کرتے کچھ ہی کرتے ہیں لیکن کرتے ہیں۔ جونا گڑھ پر کبھی پاکستان کا دعویٰ تھا‘ بہت عرصے سے اس دعوے کی بابت البتہ کچھ سننے میں نہیں آیا۔